مراق مرزا
جنگ انسانی معاشرے میں ہجرت کی تاریخ از حد قدیم ہے۔ غالباً اتنی ہی قدیم جتنا کہ خود حضرت انسان ہے۔ اس کرئہ ارض پر ابتدائی ادوار سے ہی ہجرت کی کہانیوں کا تذکرہ ملتاہے۔ ماضی بعید میں تلاش روزگار یا کاروباری ضرورت کے تحت لوگ نقل مکانی کرتے تھے۔ کبھی کبھار تحفظ حیات کی غرض سے بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ وہ منتقل ہوتے تھے۔ اس دور میں بھی لوگ جنگ و جدال کے سبب ہجرت کرتے تھے۔ ہمارے اپنے ملک کی تاریخ بھی ہجرت کے دلدوز واقعات درج ہیں۔ 1947 میں ملک کے بٹوارے کے وقت لاکھوں افراد اس پار سے اس پار گئے اور اس پار سے اس جانب آئے۔ ہجرت کا یہ المناک واقعہ حالات کی مجبوری تھی۔ دراصل دنیا میں زیادہ تر ہجرت کے واقعات خطرناک حالات سے زندگی کو بچانے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ انسان کبھی بھی خوشی سے گھربار اور وطن کو چھوڑ کر زمین کے کسی دوسرے خطے کی طرف رخ نہیں کرتا۔ شام کے لاکھوں افراد کی ہجرت بھی حالات کے جبرکا ہی نتیجہ ہے۔ شام کے مہاجرین آج متعدد ممالک کے لیے مسئلہ بن گئے ہیں جبکہ جن قابل رحم حالات میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کی زندگی بذات خود ایک مسئلہ نظر آتی ہے۔ شامی لوگوں کی نقل مکانی کا یہ مسئلہ کوئی قدرتی آفت کی پیداوار نہیں ہے بلکہ انسان خود اس کا جنم داتا ہے۔ دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ شامی مہاجرین کے مسائل ان کی اپنی زمین یعنی سرزمین شام پر ہونے والی خانہ جنگی سے وابستہ ہیں۔ اس خانہ جنگی کی شروعات 15 مارچ، 2011 کو ہوئی تھی جب حکومت نے ایک عوامی احتجاج کو جارحانہ طریقے سے تشدد کے زور پر کچلنے کی کوشش کی تھی۔ یہ عوامی احتجاج نوجوانوں کے ایک گروہ کی حمایت میں کیاگیاتھا جسے اہل اقتدار کے خلاف آواز اٹھانے اور نعرہ لگانے کے جرم میں شام کے جنوبی ٹاؤن دارا سے گرفتار کیا گیا تھا۔ عوام کی آواز کو تشدد کے ذریعے دبانے کا یہ واقعہ بتدریج انقلاب کا طوفان بن گیا اور باغیوں نے انصاف کے لیے حکومت وقت کے خلاف ہتھیار اٹھالیے۔ واضح کرتا چلوں کہ کسی بھی ملک میں بغاوت کی آندھی یوں ہی نہیں اٹھتی۔ اقتدار پر قابض لوگ جب بے لگام ہوجاتے ہیں اور ملک کا نظام مطلق العنانیت کا شکار ہو جاتا ہے تبھی اٹھتی ہے بغاوت کی آواز اور اکثر اس آواز میں سیاست اپنی آواز ملا دیتی ہے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی جنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کچھ دیگر بڑی طاقتیں میدان میں کودپڑتی ہیں اور اپنے مفاد ومقاصد کی خاطر آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتی ہیں۔ شام کی زمین پر بھی یہی سب ہوا ہے۔ بڑی طاقتوں نے اس ملک کو اپنی اَنا اور برتری کی لڑائی کے لیے میدان جنگ کی طرح استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد وادیٔ اموات کی دھند میں گم ہوگئے اور لاکھوں لوگ گھر سے بے گھر ہوکر آس پاس کے پرائے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ شام کی جنگ یاخانہ جنگی میں اپنی جانیں گنوانے والوں میں بڑی تعداد میں بچے اورخواتین بھی شامل ہیں۔ بموں کی بارش اور بندوق کی گولیوں کاشکار ہوکر انسانی زندگیوں کے لقمہ اجل بننے کاتماشہ دنیانے بڑے قریب سے دیکھاہے۔
2019 کے اختتام تک قریب ایک کروڑ 32 لاکھ شامی اپنے وطن سے ہجرت کرکے دوسرے ملکوں میں منتقل ہوگئے تھے۔ ان میں سے تقریباً 67 لاکھ لوگوں نے حالات کی سنگینی کے سبب ترک وطن کیا تھا۔ آج ان میں سے آدھے سے زیادہ لوگ ترکی میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ شام ہی میں ایک شہر سے دوسرے شہر نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، قریب ایک لاکھ 20 ہزار مہاجرین فلسطین کے ہیں جو ماضی میں فلسطین سے ہجرت کرکے شام میں آبسے تھے۔ یو این ایچ سی آر کے ایک ڈاٹا کے مطابق قریب 34 لاکھ مہاجرین ترکی میں پناہ گزیں ہیں۔ 10 لاکھ لبنان میں ہیں، 6 لاکھ 60 ہزار اردن میں اور ڈھائی لاکھ عراق میں ہیں۔ اس کے علاوہ قریب 10 لاکھ پناہ گزیں یوروپ کے مختلف ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ بہت سے مہاجرین مشرق وسطیٰ میں جابسے ہیں۔ ایک رپورٹ کے بموجب 60 لاکھ سے زیادہ لوگ اندرون ملک گھر سے بے گھر ہوچکے ہیں اور شدید بدحالی کے شکار ہیں۔ گزشتہ آدھی صدی کی تاریخ میں کسی ملک کے اتنے لوگ اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لیے کسی دوسری جگہ منتقل نہیں ہوئے۔ انسانوں کی نقل مکانی کی یہ بے حد افسوسناک کہانی ہے۔
آج شام کے ان پناہ گزینوں کی زندگی بہت سارے مسائل سے دوچار ہے۔ مختلف ممالک کے کیمپوں میں یہ لوگ دردانگیز حالت میں زندگی گزاررہے ہیں۔ ایک طرف اپنے وطن سے بچھڑنے کا غم تو دوسری جانب غیریقینی مستقبل کا اندھیرا۔ ان کے سامنے پیچھے کنواں تو آگے کھائی ہے۔ کلفت وکرب کے حصارمیں قیدبہت سے مہاجرین وطن لوٹنے کی خواہش رکھتے ہیں اوران میں سے کچھ لوٹ بھی چکے ہیں مگر پہلا سوال یہ ہے کہ ان کے ہمدرد کتنے لوگ ہیں اور شاید اس کا جواب یہ ہوگا کہ ہمدردوں کی تلاش ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ وطن میں اب ان کے لیے رکھاکیاہے؟ سب کچھ تو دوبڑی طاقتوں کی لڑائی کی آگ میں جل کر خاک ہوچکا ہے۔ گھر، دکان، کھیت کھلیان، اسکول، ہسپتال زندگی اہم ضرورتوں سے جڑی یہ تمام چیزیں بارود کے دھماکوں میں ٹوٹ پھوٹ کر خاک ہوچکی ہیں۔ ہرچند کہ عالمی برادری ان مہاجرین کی طرف رحم کی نگاہ سے دیکھتی ہے اوراس بات کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ ان کی زندگیاں دوبارہ معمول پر لائی جائیں مگریہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔
بہت سے شامی مہاجرین اپنے وطن لوٹنا نہیں چاہتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شام کی زمین کا بہت بڑاحصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ وہاں کی گلیاں، بستیاں اوربازار اب اپنی پرانی حالت میں نہیں ہیں۔ وہاں کی فضاؤں میں ایک خوش حال ملک کے تباہ ہونے کا منظر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں کی آب وہوا میں روتے ،بلکتے، سسکتے بچے اور اپنوں کی لاشوں پرچھاتی پیٹتی خواتین کی چیخیں سنی جاسکتی ہیں۔ ان مہاجروں کے لیے ان کا وطن اب ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اکثرچھوٹے ملکوں کا استعمال کرتی ہیں اور کبھی کبھی اپنے فائدے کے لیے انہیں برباد بھی کر دیتی ہیں۔ ماضی میں ایران عرا ق کی جنگ ہو یا افغانستان سے طالبان حکومت کا تختہ پلٹنے کا معاملہ یا پھر عراق پر کیمیکل ہتھیار رکھنے کا الزام لگاکر ناٹو کے ممبران ممالک کی فوجوں کا ہوائی حملہ جس میں عراق تباہ ہوکر رہ گیاتھا، ان تمام خونیں کھیل کے پس پردہ کون لوگ تھے؟ صدام حسین کو تختہ دار تک کس نے پہنچایاتھا؟ اور آج کے تناظر میں دیکھیں تو ایران اور دوایک دیگراسلامی ممالک کس کے نشانے پر ہیں؟ فلسطین کے جوحالات ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ سفیدنقاب کے پیچھے کے ان سیاہ چہروں کو آج کی دنیا بخوبی جانتی ہے۔ دراصل یہی لوگ شام کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ شام کے لاکھوں افراد دیگر ممالک میں ہجرت کرکے جو آج بدحالی کی زندگی گزاررہے ہیں، دراصل یہی طاقتیں ان مہاجرین کی مجرم ہیں۔
ہم جانتے اورمانتے ہیں کہ شام کے جلنے کی شروعات خانہ جنگی سے ہوئی تھی مگرخانہ جنگی کے شعلوں کو ہوا کس نے دی تھی؟ کسی بھی ملک میں سول وار از خود نہیں ہوتا۔ اس کے کچھ اسباب ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی خود اس ملک کا بدعنوان اور تاناشاہ سسٹم ہوتا ہے اور کبھی کبھار کچھ باہری طاقتیں بھی کسی ملک کے باغی گروہ کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرکے خانہ جنگی کی آگ بھڑکاتی ہیں۔ شام کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج کے حالات یہ ہیں کہ شامی مہاجرین کچھ ممالک کے لیے سنگین مسئلہ بن گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ ممالک ان مہاجروں کو ان کے وطن واپس بھیج دینا چاہتے ہیں۔ اس ایشو پر عالمی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ان پناہ گزینوں کے مسائل تین طریقوں سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ نمبر ایک ،ان کی اپنی مرضی اورخوشی سے انہیں شام واپس بھیجا جائے۔ نمبردو، دوسرے ملکوں میں انہیں مستقل طور پر آباد کرایا جائے اور نمبر تین، جس ملک میں وہ فی الحال رہ رہے ہیں وہیں انہیں بسایاجائے اورشہریت دی جائے۔ ان میں سے پہلا طریقہ یعنی بخوشی واپسی ایک معقول اورپائیدار حل ثابت ہوسکتاہے بشرطیکہ شام کے حالات موافق اورپرامن ہوں۔ وضاحت کی ضرورت نہیں کہ کوئی شخص، خاندان یا سماجی گروہ اپنے ملک سے تبھی ہجرت کرتا ہے جب وہاں کے حالات اس کی زندگی کے لیے خطرناک ہوتے ہیں اور اسے اپنی جان گنوانے کا خوف ہوتا ہے۔ ایسے میں مہاجروں کو دوبارہ ان کے اپنے ملک میں بسانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں سماجی، سیاسی اور معاشی سہولتیں اور حقوق مہیا کرائی جائیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ کچھ امیرممالک آگے آئیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے مشترکہ طورپر کوئی مضبوط قدم اٹھائیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ اپنی جڑوں سے اُکھڑکر بکھرنے کا دکھ ایک ایسا دکھ ہوتا ہے جو انسان کو بے جان کر دیتا ہے۔n
(مضمون نگارفلم رائٹر اور تجزیہ کار ہیں)
[email protected]