شام کی خانہ جنگی: کیا ترکی کو توڑ دے گی؟

0

اس سوال کی اہمیت بڑھ گئی ہے کہ شام کی خانہ جنگی کیا ترکی کو توڑنے کی وجہ بن جائے گی، کیونکہ ایک طرف تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجر شامیوں کو پناہ دینے سے ترکی کی معیشت پر اثر پڑا ہے اور دوسری طرف شامی کردوں کو مسلح کرنے سے یہ خطرہ بڑھا ہے کہ علیحدگی پسند ترک کردوں کی علیحدگی پسندی میں کبھی بھی شدت آ سکتی ہے۔ اسی لیے ترک حکومت شام کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئی ہے اور وہ اس بات کی مخالف ہے کہ شامی کردوں کو مسلح کیا جائے، اس بات پر امریکہ کا بھی اس سے اختلاف ہے اور امریکہ سے ترکی کے کسی حد تک دوری بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے جبکہ اس سے پہلے امریکہ ترکی کا خیال کرتا رہا ہے۔ ترکی کا خیال کرنے کی وجہ سے بھی عراق کی تقسیم نہیں ہوئی جبکہ امریکہ کے عراق کے خلاف جنگ چھیڑنے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش عراق کو تین حصوں میں بانٹ دیں گے، کیونکہ اس جنگ میں کردوں نے امریکہ اور اس کے اتحادی فوجیوں کی ایک طرح سے حمایت کی تھی۔ صدام حسین کو تختۂ دار پر چڑھانے میں بھی کردوں نے اہم رول ادا کیا تھا مگر جلد ہی جارج ڈبلیو بش کو غالباً یہ احساس ہو گیا تھا کہ عراق کی تقسیم ایران کو اور مضبوط بنا دے گی اور ترکی سے امریکہ کے رشتے میں کبھی نہ پاٹی جا سکنے والی ایک خلیج کی بنیاد رکھ دے گی، اس لیے عراق کی تقسیم نہیں ہو سکی۔ کردستان ایک الگ ملک نہیں بن سکا مگر عراق جنگ کے وقت کرد کافی مضبوط ہوگئے تھے، ان کی پیش مرگا فوج نے اپنی طاقت میں کافی اضافہ کر لیا تھا۔ اسی لیے آج تک ترکی کو ان سے نمٹنے کے لیے وقتاً فوقتاً فوجی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ امریکہ نے عراق جنگ کے وقت ترکی کی سیکورٹی کا خیال رکھا تھا اور غالباً اسی لیے عراقی کردوں کی وفاداری کے باوجود انہیں ایک آزاد ملک کردستان کا تحفہ اس نے نہیں دیا تھا تو پھر شام کے کردوں کو مسلح کرنے سے وہ کیوں خلاف نہیں ہوا؟ اس کی وجہ دنیا کے حالات کی تبدیلی ہے۔ ایک وقت تھا کہ سوویت یونین کے کیوبا میں ایٹمی میزائلوں کی تنصیب کا جواب دینے کے لیے اس نے ترکی کا بھی سہارا لیا تھا، ترکی ناٹو کے ممبر کے طور پر ہمیشہ کھڑا رہا مگر اسرائیل سے ترکی کی دوری اور ایک حد سے زیادہ امریکہ کی اسرائیل نوازی نے حالات بدلے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی کا خیال کرتے وقت امریکہ اسرائیل سے اپنے رشتے کو نظرانداز نہیں کر پا رہا ہے اور اسی لیے شامی کردوں کو مسلح کیے جانے کی مخالفت اس نے نہیں کی مگر اس کی وجہ سے ترکی اور اس کے مابین تلخی بڑھی ہے اور اس کا فائدہ روس نے اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ ترک صدر کو غالباً یہ احسا س ہے کہ انہیں عرب ملکوں کی طرح ترکی کو امریکہ تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، اس کے لیے متبادل کھلے رکھنے چاہئیں۔ پھر یہ کہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ لاکھ کوششوں کے باوجود ترکی کو یوروپی یونین میں شامل نہیں کیا گیا،اس لیے بھی وہ اس حد تک ترکی کو روس کے قریب رکھنا چاہتے ہیں کہ یوروپی ملکوں کو یہ احساس دلا سکیں کہ ترکی کے روس کے ساتھ آنے کا مطلب ان کے لیے کیا ہے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS