محمد حنیف خان
نظامتعلیم وہ بنیادی ڈھانچہ ہے جس پر کسی بھی ملک کی بنیاد ہوتی ہے۔یہ ڈھانچہ جس قدر مضبوط ہوگا اسی اعتبارسے ملک کا مستقبل روشن اور تابناک ہوگا۔ہمارا نظام تعلیم اب تک کیسا رہا ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکیسیوں صدی میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 74.04فیصد افراد ہی تعلیم یافتہ ہیں،جن میں مرد 82.14فیصد اور عورتیں 65.46 فیصد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔ریاستی سطح پر اتر پردیش 66.95 اور بہار 63.82 فیصد تعلیم یافتہ ہے ۔ہندوستان کی تعلیم کا یہ وہ فیصد ہے جو حکومت دنیا کو بتاتی ہے لیکن زمینی حقیقت بہت بھیانک ہے۔ایسے ایسے دیہی علاقے ہیں جہاں تعلیم کی روشنی ابھی تک نہیں پہنچی ہے۔اور اگر کہیں اسکول بھی قائم ہوگئے ہیں تو ان میں پڑھائی کا جو عالم ہے اس سے ہندوستان ہزاروں برس تک تعلیم یافتہ نہیں ہوسکتا۔ایسا اس لئے کہ حکومتیں اعلانات تو کردیتی ہیں لیکن تعلیم کو اپنے منصوبوں کے مرکز میں نہیں رکھتی ہیں۔
ابھی تک یہ تھا کہ ابتدائی تعلیم میں ہی عوام الناس سرکاری اسکولوں سے دور بھاگتے تھے لیکن اب اعلیٰ تعلیم سے حکومت خود طالب علموں کو دور بھاگنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اس طرح دونوں سطحوں پر بچوں اور ملک دونوں کا مستقبل تاریکی کی طرف جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔نئی تعلیمی پالیسی کے نام پر جہاں حکومت اعلیٰ تعلیم میں مداخلت کر رہی ہے جسے در اندازی سے تعبیر کیا جانا چاہئے وہیں وہ پرائمری سطح پر نظام کو بہتر نہ بنا کر عوام کی محنت کا پیسہ اور ان کا مستقبل تباہ کر رہی ہے۔ان پرائمری اسکولوں میں آمدن ،نشستن اور برخاستن سے زیادہ کچھ نہیں ہو رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان اسکولوں میں سرکاری افسران کے بچوں کا پڑھنا تو دور کی بات ہے گاؤں میں تھوڑا بھی خوشحال لوگوں کے بچے بھی نہیں دکھائی دیتے ہیں۔دوسری طرف نئی تعلیمی پالیسی کے نام پر حکومت نہ صرف اعلیٰ تعلیم کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے بلکہ تعلیم حاصل کرکے زندگی کے خواب بننے والے طلبا کے خوابوں پر شب خون مار رہی ہے۔جس طرح منتظمہ میں ’لٹرل انٹری ‘ کے نام پر حکومت نے اپنی پسند کے افرادکو سکریٹریٹ میں پہنچا دیا ہے بالکل اسی طرح طرز پر اب تعلیمی اداروں میں بھی ان کو تقرری دی جائے گی۔ابھی تک یہ منصوبہ صرف تجویز کی حد تک تھا لیکن اب یوجی سی نے ’’پروفیسر آف پریکٹس‘‘ کے نام سے اسے منظوری دے دی ہے۔جس کے تحت کسی بھی مرکزی،ریاستی اور ڈیمڈ یونیورسٹیوں میں غیر تعلیم یافتہ (رسمی)افراد کی تقرری کی جا سکتی ہے۔دلیل یہ دی گئی ہے کہ چونکہ یہ اپنے موضوع کے ماہرین ہوں گے اس لئے تعلیم کو مزید بہتر بنانے کے لئے ان کی بطور استاد (پروفیسر) خدمات لی جائیں گی۔ جس کے لئے پی ایچ ڈی اور نیشل ایلیجبلٹی ٹیسٹ (نیٹ) کا ہونا ضروری نہیں ہے۔یعنی ایک طالب علم جو پی ایچ ڈی کرتا ہے اور یوجی سی نیٹ کا امتحان پاس کرتا ہے، اس کے مقابلے اس مزعومہ ماہر کی خدمات کو ترجیح دی جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کوئی تعلیم کیوں حاصل کرے؟ کیونکہ اس اعلیٰ تعلیم کا ایک بنیادی مقصد ملازمت بھی ہوتی ہے تو اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
اسی طرح اعلیٰ تعلیم میں حکومت نے 25فیصد سیٹیں غیر ملکی طلبا کے لئے مختص کردی ہیں ،جن کو ان سیٹوں پر داخلہ کے لئے کوئی ٹیسٹ بھی پاس کرنا نہیں ہوگا لیکن دوسری طرف ہندوستانی طلبا بغیر داخلہ ٹیسٹ کے ان میں داخلہ نہیں پا سکیں گے۔اس نئے ضابطے کے مطابق اگر غیر ملکی طلبا کے لئے مختص سیٹیں خالی رہ جاتی ہیں تو ان کو پُر بھی نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کو خالی ہی رکھا جائے گا۔ حکومت نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ بیرون ملک اس کی ساکھ بن سکے۔یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مستقبل کی تباہی پر غیر ملک میں ساکھ بنانا کتنی عقل مندی ہے؟ ہندوستانی طلبا کا مستقبل کیا حکومت کے لئے اہمیت نہیں رکھتا ہے؟لیکن حکومت کو اس کی فکر نہیں ہے۔دوسری طرف وہ طلبا تنظیمیں بھی یوجی سی کے اس فیصلے پر خاموش ہیں جو ان کی انگلی کٹنے پر طوفان کھڑا کردیتی ہیں۔ 25فیصد سیٹوں کا غیر ملکیوں کے لئے الاٹمنٹ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبا کے ساتھ ہی طلبا تنظیموں کو اس کے خلاف میدان میں آنا چاہئے تھا اور حکومت کو یہ باور کرانا چاہئے تھا کہ ہم اس سے خوش نہیں ہیں کیونکہ اس سے ہندوستانی طلبا کا مستقبل تاریک ہوگا اور جس طرح سے غیر ملکی طلبا کو داخلہ ٹیسٹ نہ دینے کی رعایت دی گئی ہے وہ بھی نہ صرف غلط ہے بلکہ اپنے ہی نظام تعلیم پر سوالیہ نشان کھڑا کرنا ہے کہ غیر ملکی تو بغیر ٹیسٹ کے داخل ہوسکتا ہے لیکن ایک ہندوستانی اتنی اہلیت اور قابلیت نہیں رکھتا ہے کہ اس کو اعلیٰ تعلیم میں بغیر ٹیسٹ کے داخلہ مل جائے۔حکومت کا یہ ایک ایسا قدم ہے جس کی مخالفت ہر سطح پر کی جانی چاہئے تاکہ ہندوستانی طلبا کا حق چھین کر کسی دوسرے کو نہ دیا جا سکے کیونکہ اس پر سب سے پہلا حق ایک ہندوستانی طالب علم کا ہے۔
اترپردیش کی ریاستی حکومت نے بھی حال ہی میں ایک فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اب 40آئی ٹی آئی کالجوں کی نجکاری کی جائے گی۔پہلے مرحلے میں 16کالجوں کو نجی ہاتھوں میں دیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میں 24کالج دیے جائیں گے۔ اس سے طلبا کا کتنا نقصان ہوگا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سالانہ فیس 480 روپے سے بڑھ کر 26ہزار روپے تک پہنچ جائے گی۔نئے تعلیمی سیشن سے آئی ٹی کا خواب دیکھنے والے طالب علموں کو سرکار نجی کالج میں پہنچا دے گی جن کو تقریباً 54گنا اضافی فیس ادا کرنا ہوگی۔اس وقت اتر پردیش میں 307 سرکاری،12لڑکیوں کے اور 2931پرائیویٹ آئی ٹی آئی کالج ہیں۔حکومت نے نجکاری کی دلیل یہ دی ہے کہ ان سرکاری آئی ٹی آئی کالجوں میں تعلیم کا معیار حد درجہ نیچے آگیا ہے جس میں اصلاح اور بہتر تعلیم کے لئے ایسا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن کیا حکومت کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ جس ادارے یا شعبے کو پرائیویٹ سیکٹر بہتر بنا سکتا ہے اور وہ معیاری تعلیم دے سکتا ہے اس میں حکومت بہتری کیوں نہیں لا سکتی؟کیا ایک اسٹیٹ سے زیادہ صلاحیت، پاور اور پیسہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہے؟اس کا جواب نفی میں ہوگا۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ حکومت کے منصوبوں میں کم خرچ میں اچھی تعلیم مہیا کرانا بالکل نہیں ہے اس لئے وہ ایسا کر رہی ہے۔اگر حکومت یہ عملی سطح پر یہ تسلیم کرلے کہ مفت یا کم خرچ پر تعلیم ہر بچے کا حق ہے تو وہ سب کچھ کر سکتی ہے لیکن وہ تو دستاویزی سطح پر علاج و معالجہ اور تعلیم وغیرہ مفت یا کم خرچ پر شہریوں کا حق مانتی ہے لیکن عملی سطح پر یہ دونوں سب سے زیادہ مہنگے ہیں ،جو حکومت کے قول وفعل کا تضاد سامنے رکھتے ہیں۔
سرکاری اداروں میں تعلیم کا بہتر نہ ہونا اس کی ناکامی کی دلیل ہے۔حکومت یہ کہہ کر نہیںبچ سکتی ہے پرائمری یا آئی ٹی آئی کالجوں کے اساتذہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان دونوں کا معیار خراب ہوا ہے۔کیونکہ اس کی ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ اپنے سبھی اداروں کو بالکل چاق چوبند رکھے اور جن مقاصد کے تحت وہ وجود میں آئے ہیں ان کو پورا کریں۔حکومت کے پاس ایک میکنزم ہے، اساتذہ کے اوپر افسران کی ایک کھیپ ہے جن کی تقرری ہی اس نظام کو بہتر بنانے کے لئے کی گئی ہے جو اس کے لئے تنخواہ کی صورت میں موٹی رقم وصول کرتے ہیں اور سرکاری مراعات اس سے الگ ہیں۔ان افسران کو درست کرنے کے لئے اس شعبے کے وزیر اور ان کی نگرانی کے لئے وزیر اعلیٰ ہیں ۔اگر یہ سب مل کر نظام کو بہتر نہیں کرسکتے ہیں توان کو اپنی آئینی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجانا چاہئے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور سرکاری اداروں میں کسی بھی طرح کے مفاد کے لئے در اندازی کے بجائے طلبا کو معیاری تعلیم مہیا کرائے۔
[email protected]