عبد الماجد نظامی
پڑوسی ملک پاکستان ان دنوں جس طرح سے سیلاب کی زد میں ہے اور بے شمار انسانی زندگیاں اس کا شکار ہوچکی ہیں وہ نہایت تکلیف دہ معاملہ ہے۔ حالیہ دنوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے بھیانک اثرات آسٹریلیا، اٹلی، یونان و ترکی سے لے کر جاپان، افغانستان، سوڈان، بنگلہ دیش اور پاکستان ہر جگہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ عالمی قائدین ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل پر بحث کرنے اور ان کا مؤثر حل ڈھونڈنے کے لئے اقوام متحدہ کی قیادت میں مسلسل میٹنگیں کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود زمینی سطح پر کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی ہے اور مستقبل قریب میں بھی کچھ بدلنے کا امکان بہت کم ہی نظر آ رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلہ پر سنجیدگی سے کام کرنے اور اس کے سنگین نتائج سے دنیا کو آگاہ کرنے والی سویڈن کی معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے ماحولیات کے مسئلے پر عالمی قائدین کے کھوکھلے دعووں اور وعدوں کو کئی بار بے نقاب بھی کیا ہے اور انہیں وعدوں کے بجائے عملی کوششوں کی طرف راغب کرنے کی سعی کی ہے۔ اگر مسئلے سے وقت رہتے نمٹنے کی سنجیدہ جدوجہد نہیں کی گئی تو آئندہ نسلوں کا مستقبل تاریکی میں گْم ہوجائے گا اور روئے زمین پر انسانی زندگیاں مزید سنگین آفات و مشکلات کا شکار ہوتی رہیں گی۔ ہمارا خطہ جو جنوبی ایشیا کے نام سے معروف ہے وہ دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے جن پر گلوبل وارمنگ کے اثرات سب سے زیادہ پڑنے والے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کا جو طوفان آیا ہے اس میں ماحولیاتی تبدیلی کا اثر صاف نظر آ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے مہلک نتائج صرف پاکستان تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے خطہ کو متاثر کریں گے۔ اس لئے اس کی روک تھام کے لئے اقدامات بھی مشترکہ طور پر کئے جانے چاہئے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو دوشنبہ کی شام کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعہ جو پیغام پاکستان کو بھیجا ہے وہ نہایت مستحسن قدم ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعہ سیلاب سے متاثر ہوکر موت کا شکار ہوجانے والوں کی تعزیت کرکے یہ پیغام بھیجا ہے کہ سرحدیں گرچہ الگ ہیں لیکن انسانی درد کو مٹانے اور پڑوسی کے مسائل کو حل کرنے کی خاطر تعاون اور ہمدردی پیش کرنا عین مطلوب امر ہے۔ وزیر اعظم کا یہ قدم اس لئے بھی قابل تعریف ہے کیونکہ کئی ہفتوں سے جاری قدرتی آفات کے اس قہر پر طویل خاموشی کے بعد یہ ٹوئٹ سامنے آیا ہے۔ پاکستان کے اس سیلاب کو کسی بھی پڑوسی ملک میں رونما ہونے والے اب تک کے سب سے خطرناک قدرتی آفات میں شمار کیا جا رہا ہے۔ اب تک اس کے نتیجہ میں گیارہ سو سے زیادہ جانیں تباہ ہوچکی ہیں۔ ایک کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہیں۔ سرکاری افسران کے مطابق پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے۔ جو گھر، سڑکیں اور دیگر عوامی وسائل کے سامان تباہ ہوئے ہیں ان کی قیمت تقریباً دس ارب ڈالر سے زیادہ لگائی جا رہی ہے۔ سیلاب کی زد میں آکر فصلیں بھی تباہ ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے غذائی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔ سطح آب میں کمی آنے لگی ہے لیکن ایک دوسرا بڑا خطرہ یہ منڈلا رہا ہے کہ بیماریاں تیزی سے پھیلیں گی اور اس کی وجہ سے صحت اور دوا علاج کے مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا۔ مسائل کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کی اپیل کی ہے۔ برطانیہ، امریکہ، چین، ترکی، قطر، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک نے تو اپنی امدادی کھیپیں پاکستان کے لئے روانہ بھی کر دی ہیں جب کہ بہت سے دیگر ممالک نے امداد بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر قرض فراہم کرنے کرنے کے لئے اپنی منظوری دے دی ہے۔ واضح رہے کہ اقتصادی بحران سے دوچار پڑوسی ملک پاکستان طویل مدت سے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لئے بات چیت کر رہا ہے۔ چونکہ پاکستان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے، اس لئے پاکستان کے وزیر مالیات مفتاح اسماعیل نے دو شنبہ کو یہ بیان جاری کیا ہے کہ وہ ہندوستان پر عائد تجارتی پابندی کو ہٹاکر وہاں سے غذائی اجناس، سبزیوں اور دیگر ضروری اشیاء بر آمد کرنے پر غور کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستان کے اندر اعلیٰ سطح پر میٹنگ بھی ہو رہی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2019 میں ہندوستان کے ذریعہ جموں و کشمیر کی تشکیل نو کے بعد پاکستان نے ہندوستان پر تجارتی پابندی عائد کر دی تھی۔ اب تک صرف کووڈ کی تباہ کاری کی روک تھام کے لئے مطلوب دوائیاں منگوانے اور افغانستان کو امداد فراہم کروانے جیسے دو ہی ایسے موقعے رہے ہیں جب پاکستان نے رعایت دی ہے۔ یہ شاید تیسرا موقع ہوگا جب ہندوستان سے ضروری اشیاء کی برآمدگی کی راہ ہموار ہوگی۔ شاید قدرتی آفات دلوں کی ان دوریوں کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوں جو تقسیم ہند کے بعد سے آج تک مزید بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اس کو جنوبی ایشیا کی بدقسمتی ہی کہیں گے کہ یہاں دلوں میں دوریاں پیدا کرنے والے لیڈران تو بہت پیدا ہوئے ہیں لیکن ان کے درمیان الفت و محبت اور قربت کے جذبات بھرنے والے قائدین اب تک نہیں ابھر سکے ہیں۔ ہندوستان کے لئے یہ اچھا موقع ہے کہ وہ پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی میں مثالی کردار ادا کرے۔ ہندوستان نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کے مسائل کے حل کے لئے سب سے پہلے اقدام کرتا ہے اور سری لنکا، مالدیپ، نیپال اور افغانستان جیسے پڑوسی ممالک کی مدد کرکے اس نے اپنے دعویٰ پر دلیل بھی پیش کی ہے۔ لیکن اگر ایسے موقع پر پاکستان کی مدد کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو یہ بڑے دکھ کی بات ہوگی۔ ساتھ ہی یہ پاکستان کا بچکانہ پن اور اس کی تنگ نظری سمجھی جائے گی اگر وہ اپنی داخلی سیاست کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہندوستان کی مدد کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اگر پیسے کمانے کے لئے کرکٹ کے مقابلے کرائے جاسکتے ہیں تو قدرتی آفات سے متاثرین کی مدد کے لئے فراہم کی جانے والی ضروری اشیاء کو قبول کرنا اس سے زیادہ اہم معاملہ ہے کیونکہ یہاں قیمتی انسانی زندگیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ وقت دونوں ملکوں کے لیڈران کے لئے محاسبہ کا ہے۔ انہیں اپنی تلخیوں کو بھلا کر مشکل گھڑی میں شانہ بہ شانہ کھڑا ہونا چاہئے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام پر مثبت اثر پڑے اور عداوت اور بے جا نفرت کی جگہ باہم تعاون کا جذبہ فروغ پائے اور جنوبی ایشیا ترقی کی ان بلندیوں تک پہنچ سکے جو ہر انسان کا مطمح نظر ہے۔ ابھی ہاتھ سے ہاتھ ملانے اور آفات سے متاثر افراد کا سہارا بننے کا وقت ہے۔ اس کا پورا امکان ہے کہ اگر میڈیا نے اپنا کردار مثبت ڈھنگ سے نبھایا تو ہند و پاک کے درمیان دوسرے مسائل کے حل کی راہیں بھی مستقبل میں ہموار ہو سکتی ہیں۔ اس وقت امن و امان، اقتصادی ترقی اور سماجی آہنگی کی جتنی ضرورت اس خطہ کو ہے وہ کسی اور قطعۂ ارضی کو نہیں ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف جب ازبکستان میں ایس سی او کی میٹنگ میں اس مہینہ ملاقات کریں گے تو اسی جذبہ کے ساتھ دوسرے پیچیدہ مسائل کو بھی حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]