خواجہ عبدالمنتقم
سبکدو چیف جسٹس سی وی رمن نے جس طرح نظام عدل کی خامیوں کی نشاندہی کی اور جہاں جہاں حکومت کو گوش گزار کرنے کی ضرورت پڑی بڑی دیانتداری و بلا خوف و لاگ لپیٹ کے حکومت کی توجہ مرکوز کرائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انھوں نے اپنے بیانات اور فیصلوں میں جن امورر کا احاطہ کیا ان میں انصاف میں تاخیر، انتظامیہ کے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی اور شہریوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکامی کی صورت میں عدلیہ کی ذمہ داری میں اضافہ،پارلیمنٹ میں قوانین سے متعلق بلوں پر پہلے کی طرح مکمل اور معیاری بحث نہ ہونا، پارلیمنٹ میں بنائے جانے والے قوانین میں ابہام اور عدالتوں کو قوانین کی غرض وغایت کا اندازہ لگانے اور ان کی تعبیر کرنے میں دقت پیش آنا،ججز کے خلاف ذاتی تبصرے پر ناپسندیدگی مگر فیصلوں پر اظہار رائے کی آ زادی، ججز کی وقت پر تقرری نہ ہونا، معقول انفرا اسٹرکچر کا فقدان، ججز کی تعداد میں اضافہ کی ضرورت، عدالتوں کی تعداد اور آبادی کے مابین غیر اطمینان بخش تناسب (دس لاکھ کی آبادی کے لیے ایک جج)، قانونی بیداری بڑھنے کے سبب زیر التوا معاملات کی ہر سطح پر بے حد اضافہ، وکلا کی بڑھتی ہوئی فیس ،مالی اعتبار سے کمزور افراد کے لیے عدالت تک رسائی مشکل،غیر اطمینان بخش لسٹنگ نظام، بغیر نمبر کے معاملات کا عدالت کے روبرو لسٹ کیا جانا،عدالتی کارروائی کا براہ راست ٹیلی کاسٹ جس کی ابتدا ان کی مدت کار کے آخری دن ہو گئی تھی ،مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) یعنی کمپیوٹر سے انسانی دماغ کا کام لینے اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع کا بھرپور فائدہ نہ اٹھانا۔
نئے چیف جسٹس آف انڈیا سے توقعات:
جسٹس سیکری کے بعد جسٹس اودے اومیش للت (یو۔یو۔للت)وہ واحد شخصیت ہیں جنھیں وکلا میں سے جج بننے کے بعد اس اعلیٰ عہدے پر پہنچنے کا موقع ملا ہے اور وہ بھی صرف 74دن کے لیے مگر کارہائے نمایاں کی انجام دہی کے لیے توچند دن ہی کافی ہوتے ہیں۔ جس طرح لمحوں کی خطا کا خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے اسی طرح قلم کی ایک نوک سے دستخطی لمحاتی فیصلہ بھی عہد آفریں ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے سامنے ایسے بہت سے تعزیری، سیاسی، اقتصادی و مالیاتی نوعیت کے معاملے زیر التوا یا زیر سماعت ہیں اور نئے چیف جسٹس جو قانونی بیداری و قانونی امداد سے متعلق اداروں سے وابستہ رہے ہیں اورکمزور طبقات کے لیے نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں اپنے پیش رو چیف کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے ساتھ سا تھ ا ن تمام معاملات کے جلد فیصلہ کے لیے آئینی بینچز کی تشکیل کا ارادہ رکھتے ہیں اور اب یہ سلسلہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ اوقات کار بڑھا دیے گئے ہیں۔ ہر بنچ کے سامنے بغرض سماعت پیش کیے جانے والے معاملات کی تعداد بڑھا دی گئی ہے اور انھوں نے اپنے روبرو سب سے زیادہ معاملے لسٹ کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ ویسے بھی چونکہ موصوف وکیل رہ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر بحیثیت وکیل ان کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنے موکل کے معاملے کی پیروی کرنے کے تئیں سو فیصد انصاف کریں تو اسی طرح جب کسی کو منصف کا رول دیا جاتا ہے تواسے اس کردار کو بھی اتنی ہی ایمانداری سے نبھانا پڑتا ہے۔
انھوں نے یہ بات بھی کہی ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھیں گے کہ معاملات کو سماعت کے لیے ترتیب وار لسٹ کیا جائے کیونکہ ایسا نہ کرنا مستحقین کو قطار میں کھڑا کرنے کے مترادف ہے مگر قانونی و حساس معاملوں کی فوری سماعت کے لیے مینشننگ کا نظام تو باقی رہنا ضروری ہے۔ البتہ اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور اس کے لیے معقول وقت دیا جا سکتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ کمزور سے کمزور شخص کی عدالت تک رسائی کو آسان بنایا جائے ۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ عدلیہ کے سامنے سب سے بڑی چنوتی معاملات کے بلا تاخیر فیصلوں کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی تیار کرنا ہے تا کہ تقریباً 5کروڑزیر التوا معاملوں (بشمول سپریم کورٹ کے روبرو زیر التوا71,000 معاملے) میں قابل قدر کمی آئے، فیصلوں پر عمل درآمد ہواورقانون کی حکمرانی ہو۔
اتنی تعداد میں معاملات کو نمٹانے کے لیے نہ صرف مزید ججوں بلکہ اضافی وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ وہائی کورٹ کے علاوہ ہماری نچلی عدالتوں کی صورت حال بھی زیادہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ آج ہماری نچلی عدالتوں میںایسے معاملات کی تعداد5 کروڑ کو پار کرچکی ہے اور ان کے نمٹانے کے لیے بھی نہ صرف ججوں کی تعداد میں اضافہ بلکہ اضافی وسائل بھی درکار ہیں۔ حکومت کو حاصل جانکاری کے مطابق تاخیر کی وجوہات 47% معاملات میں دیر سے فیصلہ دیا جانا، 15% معاملات میںعدالتوں میں بد عنوانی اور 10%معاملات میںعدالتوں کے نامناسب فیصلے ہیں۔ اس طرح کی شکایات سپریم کورٹ کے علم میں لانے کے باوجود ابھی تک اس مسئلہ کا حل نہیں نکل پایا ہے ۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت ہند نے عدلیہ کو یہ سجھاؤ بھی دیا تھا کہ ہر ہائی کورٹ National Legal Service Authority کی طرز پر عوام کی شکایات سے متعلق ایک Public Grievance Portal ؓٓقائم کرے جس میں ہر شکایت کی تازہ ترین صورت حال درج ہو،شکایت کا ازالہ نہ ہونے کی صورت میں بھی شکایت کنندہ کو معقول جواب دیا جائے،جواب کی ایک نقل مرکزی حکومت کے محکمۂ انصاف کو بھیجی جا ئے اوران شکایات سے متعلق کارروائی کے لئے ہر ہائی کور ٹ میں ایک Nodal Officer مقرر کیا جائے ۔ضلعی سطح پر موصول ہونے والی شکایات کی مانیٹرنگ کی ذمہ داری متعلقہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو سونپی جائے۔کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے بھی موجودہ عدالتی نظام، خاص کر تعزیری نظام،کی سست رفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پورے کے پورے نظام میں اصلاح کرنے کا مشورہ دیا تھا اور ہر صورت حال میںقانون کی بالادستی کو برقرار ررکھنے کی بات کہی تھی۔
نئے چیف جسٹس کی فعالیت کے مد نظرکچھ اہم معاملات جیسے حجاب تنازع، تیستا سیتلواڈ و صدیق کپن کی ضما نت اور دیگر اہم معاملات میں جلد از جلد کارروائی و فیصلوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موصوف کو اپنے مشن میں کہاں تک کامیابی حاصل ہوتی ہے۔مختصر مدت کار کوئی معنی نہیں رکھتی۔ Lily پھول،جسے نرگس یا سوسن کہا جاتا ہے اورجس کی عمر بہت کم ہوتی ہے یعنی صرف ا یک رات مگروہ ایک رات میں ہی اپنے حسن کی دوبالگی کا ثبوت دے دیتا ہے جبکہ بلوط کئی سوسال تک بڑھتا رہتا ہے اور آخرکار اس کا بے سود وجود اپنی نباتاتی زندگی کے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے یہ سوال کیا تھا کہ اغراض انصاف کو پورا کرنے کے لیے بنیادی فرائض کو بنیادی حقوق کی طرح کیوں نہ قابل نفاذ (justiciable)بنایا جائے۔ اگر پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اس تصور کو آئینی قوت بخش دے تو یہ ہماری جمہوریت کے استحکام کے لیے میل کا پتھر ثابت ہو سکتا ہے مگرصیاد کبھی اپنے دام میں نہیں آتا۔ امید کی جانی چاہیے کہ 74دن کی اس مدت میں عوام، انسانی حقوق کے علمبرداروں و جہدکاروں،قانونی تجزیہ کاروں اور ذرائع ابلاغ کو نئے نئے فیصلوں و قانونی موضوعات پربحث و مباحثے کے لیے غذائیت سے بھر پور تشہیری و تجزیاتی مواد ملتا رہے گا
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]