محمد عباس دھالیوال
گزشتہ 15 اگست کو جیسے ہی گجرات میں بلقیس بانو اجتماعی زیادتی کے مجرمین کو رہائی ملی اور جیل کے باہر آتے ہی جس طرح سے ان کا پر جوش استقبال کیا گیا ہے اس کو لیکر انصاف پسند لوگوں میں ایک تشویش و ڈر کا ماحول پنپنے لگا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لگاتار جس طرح سے رہائی کے وقت کی سواگتی ویڈیوز سوشل میڈیا پہ وائرل ہو رہی ہیں ان کو دیکھ کر بھی لوگوں کے دلوں میں عورت کی عصمت کی حفاظت کو لے کر طرح طرح کے شک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں مذکورہ بالا حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے ساحر لدھیانوی کی ایک نظم کے چند مصرعے ذہن میں آ رہے ہیں کہ
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
یہاں قابل ذکر ہے مذکورہ بلقیس بانو والا معاملہ ایک مرتبہ پھر ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ جس طرح سے گجرات میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے بلقیس بانو اجتماعی زیادتی اور قتل کے سزا یافتہ قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے، اس کو لیکر مذکورہ متنازعہ فیصلہ پر ملک کے ساتھ ساتھ اب عالمی سطح پر بھی ردِ عمل سامنے آنے لگا ہے۔ اس ضمن میں امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسے غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔
ایک نیوز رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے وائس چیئرمین ابراہم کوپر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کمیشن 2002 میں گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور کئی افراد کے قتل کے معاملے میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے قیدیوں کی غیر منصفانہ اور قبل از وقت رہائی کی مذمت کرتا ہے۔ دریں اثناء یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر اسٹفن شنیک نے سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں کہا کہ قیدیوں کی رہائی انصاف کا مذاق ہے اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح ہندوستان میں اقلیت مخالف تشدد کے ملزموں کو بچایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق 2002 کے گجرات فسادات کے ذمہ داروں کو جواب دہ بنانے میں ناکامی انصاف کے منافی ہے۔ یہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں ملوث افراد کو سزا سے بچانے کے سلسلے کا ایک نمونہ ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی ریاستی حکومت کی ایک کمیٹی نے 1992 کے قانون کے تحت ان قیدیوں کو معافی دینے کے ضابطے کا جائزہ لیا اور کہا کہ انہوں نے چوں کہ 14 سال کی جیل کاٹ لی ہے اور جیل میں ان قیدیوں کا اخلاق بھی اچھا تھا۔ اس لیے ان کو رہا کیا جاتا ہے۔
جبکہ ادھر مذکورہ کمیٹی کے ایک رکن اور گودھرا سے بی جے پی کے رکن اسمبلی سی کے راول جی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قیدیوں کے بارے میں کہا کہ وہ برہمن ہیں اور اعلیٰ کردار اور اقدار کے مالک ہیں۔ انہوں نے ان کے جرم کے ارتکاب پر شبہے کا اظہار کیا اور کہا کہ ممکن ہے کہ اس فرقہ وارانہ ماحول میں انہیں مذکورہ جرم کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہو۔
راول جی کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے قیدیوں کو رہا کرنے کی سفارش کی تھی۔
ایک رپورٹ کے مطابق قابل ذکر ہے کہ مذکورہ معاملہ میں سپریم کورٹ کی جانب سے مئی میں اس پر غور و خوض کرنے کی ہدایت کے بعد چار مرتبہ کمیٹی کا اجلاس ہوا اور بالآخر پھر یہ سفارش کی گئی۔
ادھر کمیٹی کے سربراہ پنچ محل کے ضلع مجسٹریٹ سوجال میترا تھے جب کہ گودھرا کے پرنسپل ضلع سیشن جج، ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر افسر، پنچ محل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور گودھرا جیل کے سپرنٹنڈنٹ اس کے ارکان میں شامل رہے۔
ادھر مذکورہ کمیٹی کی ایک خاتون رکن نے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ سے گفتگو میں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ اکثریتی فیصلہ تھا۔ ہمیں اس خاتون (بلقیس بانو) سے ہمدردی ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ قیدیوں کے گھر پر بھی خواتین ہیں جو بغیر کسی جرم کے پریشانی جھیل رہی ہیں۔
جبکہ دوسری طرف اس رہائی کو لیکر متعدد تنظیموں اور سول سوسائٹی کے ارکان کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف دیش میں مسلسل مظاہروں کی خبریں آ رہی ہیں یہ سب فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ بھی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی قریب چھ ہزار سے زائد شخصیات نے ایک مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ سے گجرات حکومت کے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کے سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ منسوخ کرنے اور انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ادھر گجرات سے کانگریس کے تین ارکان اسمبلی غیاث الدین شیخ، عمران کھیڈا والا اور جاوید پیرزادہ نے صدر دروپدی مرمو کے نام ایک خط میں گجرات حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی اور اسے واپس لیے جانے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی سے ہر انصاف پسند شخص کو صدمہ پہنچا ہے۔
ادھر صوبائی سرکار کے مذکورہ فیصلہ پر بلقیس بانو کے شوہر یعقوب رسول نے میڈیا ادارے ’دی کوینٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ انصاف کے لیے 18 سالہ لڑائی ضائع ہو گئی۔
ان کے مطابق بلقیس بہت مایوس ہیں۔ ان کے دل کو دکھ پہنچا ہے جب کہ وہ خوف زدہ بھی ہیں۔
جبکہ ادھر بلقیس بانو کیس کے قیدیوں کو سزا سنانے والے جسٹس یو ڈی سالوی نے قیدیوں کو رہا کیے جانے کی مخالفت کی ہے اور اسے ایک غلط مثال قائم کیے جانے سے تعبیر کیا ہے۔ ان کے مطابق اب اجتماعی زیادتی کے معاملوں میں سزا پانے والے دوسرے قیدی بھی اسی طرح رعایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ اس ضمن میں انہوں نے ایک نیوز ویب سائٹ ’بار اینڈ بینچ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے وسیع تر مضمرات برآمد ہوں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ گجرات حکومت نے یہ فیصلہ اس دن کیا، جب وزیر اعظم نریندر مودی عوام سے خواتین کے خلاف نفرت چھوڑنے اور ان کے احترام کی بات کر رہے تھے۔ وزیر اعظم نے خواتین کو بااختیار بنانے کی بھی بات کی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے 1992 کی معافی کی پالیسی کے استعمال پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو 1992 کی پالیسی کے تحت ان مجرموں کی درخواستوں پر غور کرنے کا حکم دیا تھا البتہ ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت ایسا فیصلہ کرنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے۔
انہوں نے مجرموں کی رہائی کے بعد مٹھائی اور ہار کے ذریعے ان کے استقبال کی مذمت کی اور کہا کہ وہ نہیں سمجھ پا رہے کہ ایسے لوگوں کا خیرمقدم کیوں کیا جا رہا ہے۔ یہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
ادھر بی جے پی کے لیڈر اور مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ فڑنویس نے کہا ہے کہ بلقیس کے مجرموں کی رہائی کے بعد ان کااستقبال کرنا صحیح نہیں ہے۔ فڑنویس نے منگل کو کہا کہ گجرات کے 2002 کے بلقیس بانو کیس کے قصورواروں کو سپریم کورٹ کے حکم کے بعد رہاکیا گیا تھا ، لیکن کسی جرم کے ملزمین کاخیرمقدم کرنا غلط ہے اور اس طرح کے عمل کوجائر نہیںٹھہرایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ملزم تو ملزم ہوتاہے اور اس عمل کو جائز نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔ اس سے قبل مجرموں کو سزاسنانے والے سابق جج نے رہائی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہاتھا کہ سیاستدانوں کے ذریعہ ہار پہناکر ان مجرموں کا خیرمقدم کرنا بالکل مناسب نہیں ہے۔ بامبے ہائی کورٹ سے ریٹائرڈ جسٹس یو ڈی سالوی نے کہا کہ جس نے بھی یہ فیصلہ لیا ہے اسے ہی اس پر غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ اس معاملے میںساری کارروائی کی تعمیل کی گئی تھی اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ 11 مجرموں کو ٹھوس ثبوتوں کی بنیادپر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جسٹس سالوی نے کہا کہ سرکار کو رہا کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن پہلے اسے تمام حقائق پر غور کرنا چاہئے۔ اسے سوچنا چاہئے کہ اس فیصلے سے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا۔ مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ سرکار نے پوری کارروائی کی تعمیل کی بھی ہے یا نہیں۔
ادھر بلقیس بانو گینگ ریپ کے 11زانیوں کو رہا کیے جانے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے ایک پٹیشن پر سنوائی کے دوران سخت طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمیںیہ دیکھنا ہوگا کہ زانیوں کی رہائی کے فیصلے میں دماغ کا استعمال کیا گیا یا نہیں۔ اس عدالت نے زانیوں کی رہائی کا حکم نہیں دیا تھا۔ حکومت کو صرف رہائی کی پالیسی کے اصول پر عمل کرنے کا کہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے اس معاملے میں رہا کئے گئے 11 زانیوں کو بھی پارٹی بنانے کا کہا ہے۔
اب تازہ رپورٹ کے مطابق قریب 134 ریٹائرڈ نوکر شاہوں کی طرف سے نئے چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک مکتوب لکھ کر مذکورہ مجرموں کی رہائی کے فیصلے کو مکمل طور پر غلط قرار دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فیصلہ کو درست کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس مکتوب میں جن شخصیتوں کے نام ہیں ان میں دہلی کے سابق ایل جی نجیب جنگ، سابق کابینہ سیکرٹری ایم چندر شیکھر، سابق خارجہ سیکرٹری شیو شنکر مینن، سجاتا سنگھ اور سابق ہوم سکریٹری کے پلئی وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قصورواروں کی رہائی ایک طرح سے ملک کے ساتھ زیادتی ہے۔ n
[email protected]
بلقیس بانو معاملہ پھر سرخیوں میں…
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS