شاہد زبیری
سیاست کی ڈائری میں وفاداری کا لفظ شامل نہیں ہے اس لئے کسی لیڈر کو کسی دوسری پارٹی سے عشق ہو جا ئے تو کوئی مضائقہ نہیں سیاسی لیڈر پارٹیاں ایسے بدلتے ہیں جیسے کپڑے بدلے جاتے ہیں پارٹی بدلتے ہی دامن پر لگے فرقہ پرستی کے داغ دھل جاتے ہیں۔ لیڈرسیکولر ہوجاتا ہے اور سیکولر زم کی دہائی دینے والے لیڈر کو سیکولرزم میں کیڑے دکھائی دینے لگتے ہیں اس کی بہت سی مثالیں ہماری سیاست میں موجود ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس پارٹی میں کوئی لیڈر کتنے سال سے ہے یا تھا، ہماری سیاست وفا سے عاری، خوشامد اور چاپلوسی اور ہوسِ اقتدار کی بیماری میں مبتلا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ جوکوئی بھی لیڈر کسی پارٹی کو چھوڑتا ہے تو اس کوبی جے پی میں جائے پناہ ملتی ہے چونکہ بی جے پی اقتدار میں ہے کل یہی حیثیت کانگریس پارٹی کی تھی اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو نصف صدی کانگریس میں رہ کر اقتدار کا مزہ لینے کے بعد غلام نبی آزاد نے کانگریس چھوڑی ہے تو اس میں کیا حیرت کی بات ہے۔سوال اگر ہے تو وہ آزاد کے استعفیٰ دینے کی ٹا ئمنگ پر ہے۔ ٹائمنگ کی اہمیت سیاست میں ہمیشہ اہم مانی جاتی رہی ہے ۔آزاد نے اس وقت کانگریس چھوڑی جب وزیر داخلہ امت شاہ کے کشمیر کے دورہ کا دوسرا دن تھا، دوسری بات جموںو کشمیر میں دفعہ 370اور 35A کے ہٹائے جا نے کے بعد وہاں اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں، تیسری اور آخری بات یہ کہ کانگریس کی 7ستمبر سے ملک میں بھارت جوڑو یاترا شروع ہو نے والی ہے جو کسی بینر اور جھنڈے کے بغیر ہو گی یہ یاترا 3ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرے گی۔ یاترا کا مقصد اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے ۔’ بھارت جوڑو یاترا‘ نفرت کی اس سیاست کے خلاف شروع ہو رہی ہے جو ملک کے تانے بانے کو توڑ رہی ہے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ کانگریس کی ’بھارت جوڑو یاترا‘کتنی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی ہے ہوتی بھی ہے کہ نہیں، لیکن عین اس وقت آزاد کا کانگریس چھوڑنا سوال تو کھڑے کرتا ہے۔ آزاد کے کانگریس چھوڑنے سے کانگریس کو کوئی بڑا نقصان تو بظاہر ہوتا دکھائی نہیں دیتا لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار آزاد کے استعفیٰ سے ضرور فائدہ اٹھائے گی اور اس کو اٹھانا بھی چا ہئے۔ آزاد کے بی جے پی میںجانے کے امکانات پر قیاس بھی لگائے جا رہے ہیں اور تب سے لگا ئے جارہے ہیں جب انہوں نے کانگریس نہیں چھوڑی تھی وہ وقت تھا راجیہ سبھا سے آزاد کی الوداعی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر اور آزاد کی قصیدہ خوانی ، قصیدہ خوانی کرتے وقت ہمارے وزیر اعظم کا گلا رندھ گیا تھا اور آنکھ سے آنسو چھلک پڑے تھے۔ آزاد شاید ایسے پہلے خوش نصیب مسلمان تھے جس کے لئے وز یر اعظم کی آنکھیں نم ہوئی ہیں۔ اس موقع پر وزیر اعظم کی تقریر اور ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ آزاد وزیر اعظم کی گڈ بک میں ہیںورنہ وزیر اعظم اور کانگریس میں تو چھتیس کا آنکڑہ ہے وہ کسی کانگریس کے لیڈر کے لئے کیوں آنسو بہا ئیں گے۔ آزاد ہمارے ان لیڈروں میں شامل ہیں جن کا زمین پر تو کچھ نہیں ہوتا اوروہ کبھی میونسپلٹی کا الیکشن بھی جیت کر نہیں آتے لیکن اقتدار میں رہ کر وہ بڑے قد کے لیڈر بن جاتے ہیں۔ آزاد کا کانگریس میں ہمیشہ دبدبہ رہا۔ راجیو گاندھی کی سرکار میں نمبر دو کا درجہ حاصل تھا اور چار بار کانگریس کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا کے رکن رہے ، اندرا گاندھی کی سرکار سے لے کر کانگریس کی ہر وزارت میں وہ شامل رہے ہیں ، جمو ںوکشمیر کا وزیر اعلیٰ ہونے کا شرف بھی ان کو حاصل رہا ہے۔ پارٹی میں یوتھ کانگریس کے قومی صدر رہنے کے علاوہ پارٹی کا قومی جنرل سکریٹری کا اعزا ز بھی ان کو ملا ہے لیکن آزاد نے اپنے 5صفحات کے استعفیٰ میں کانگریس کی اس دریا دلی اور مہربانی کا تو رتی بھر اعتراف نہیں کیا تین صفحات میں نہرو خاندان اور کانگریس پر اپنے احسانات ضرور گنوائے ہیںاور سارا غصہ راہل گاندھی پر نکا لا ہے۔ راہل گاندھی کے کام کر نے کے طور طریقوں پر پارٹی میں سوال اٹھتے رہے ہیں یہاں ہم اس کی تفصیل میں نہیں جا تے۔
کانگریس کے زوال کا سبب صرف راہل گاندھی نہیں ہیں اس کے دوسرے اسباب بھی ہیں ان میں سب سے بڑا سبب کانگریس کا نظریاتی دیوالیہ پن ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کانگریس میں مسلم ،سکھ اور عیسائی لیڈروں کی قدر تھی اور ان کا وقار تھا اور وہ پارٹی اور سرکار میں بڑے عہدوں اور مناصب پر فائز تھے صدر جمہوریہ سے لے کر وزیر اعظم تک ان کی نمائندگی رہی ہے تب کانگریس کی تصویر ایک سیکو لر پارٹی کی تصویر تھی ،کانگریس کے کسی بڑے چھوٹے لیڈر کو انتخابات میں یہ ثابت نہیں کرنا پڑتا تھا کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ کانگریس کی یہ سیکولر شبیہ اس وقت دھندلی ہونا شروع ہو گئی تھی جب ایمر جنسی کے بعد وہ اقتدار سے بے دخل ہو گئی اور اقتدار میں واپسی کے لئے اندرا گاندھی نے ہندو کارڈ کھیلا سنگھ پریوار کی باچھیں کھل گئیں۔اندرا گاندھی دہشت گردی کا شکار ہو گئیں اور ملک بھر میں سکھ مخالف فساد پھوٹ پڑا اور سکھوں کے خلاف ملک بھر میں نفرت کا بازار گرم ہوگیا۔ راجیوگاندھی نے پولورائزیشن کے سہارے اقتدار سنبھالا اس وقت بھی سنگھ پریوار کانگریس کی پشت پرتھا اسی کا نتیجہ تھا کہ راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالہ کھلوایا اور پھر رام مندر کا شیلا نیاس بھی کیا اور نر سمہا رائو کی سرکار کے آتے آتے بابری مسجد ڈھادی گئی ۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی نے ہی ہندو کارڈ نہیں کھیلا 2014میں سونیا نے بھی کانگریس کی شبیہ کوسدھارنے کے لئے پارٹی کو مشورہ دیا کہ پارٹی پر مسلم چھاپ نہ پڑنے پائے لیکن باوجود اس کے کانگریس کو شکست فاش ہوئی اور بی جے پی خلافِ توقع مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آگئی تب سے لے کر آج تک کانگریس زیادہ تر انتخابات میں شکست کے صدمہ کو اٹھاتی چلی آرہی ہے اور اپنے وجود کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس کے لئے اس کے لیڈر خود کو ہندو ثابت کر نے میں لگے ہیں۔ ہر چند کہ راہل گاندھی کانگریس کی تنہا ایسی آواز ہیں جو سنگھ پریوار کے خلاف بول رہے ہیں لیکن انتخابات میں ان کو بھی جنیو دھاری اور تلک دھاری رو پ دھارن کرنا پڑا، پرینکا گاندھی واڈرا جن کی شادی ایک عیسائی خاندان میں ہوئی ہے وہ بھی انتخابات کے دوران مندروں کا طواف کرتی نظر آئیںیہ اسی نانا نہرو کی نواسی ہے جن کو ٹرین ،جہاز یا کسی سرکاری منصوبہ کے افتتاح کے وقت ناریل پھوڑنا بھی گوارہ نہیں تھا ۔سنگھ پریوار ایسا ہی چاہتا تھا بھی تھا سنگھ پریوار اور بی جے پی کا نعرہ تھا کہ جو ’ہندو ہت کی بات کرے گا دیش پر وہی راج کرے گا ‘کانگریس بھی دوسری سیکولر پارٹیوں کی طرح سنگھ پریوار کے ٹریپ میں پھنس چکی ہے ۔کانگریس کو اس ٹریپ سے نکلنا ہوگا اور سیکولرزم کی حقیقی پٹری پر چلنا ہوگا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سنگھ پریوار اور بی جے پی کو اگر ملکی سطح پر کسی پارٹی سے خطرہ ہے تو وہ کانگریس ہے سنگھ پریوار جہاں کانگریس کے حصّے بخرے کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اس نے سیکولرزم کو بھی گالی بنا دیا ہے تاکہ کانگریس اپنی اصل شکل باقی نہ رکھ سکے۔ اسی لئے سنگھ پریوار اور بی جے پی کا نگریس مکت بھارت کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہماری نظر میں کانگریس کو غلام نبی آزاد کے جانے سے کوئی خطرہ نہیں اگر خطرہ ہے توسیکولرزم سے اس کی دوری اور تنظیمی ڈھانچہ کی کمزوری سے ہے۔
[email protected]