علیزے نجف
کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں مرد و زن دونوں کا ہی نمایاں کردار ہوتا ہے اور ان کے باہمی تعاون اور جدو جہد سے ہی ایک بہتر نظام کی تعمیر ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ دونوں کو با اختیار بنانے والے مواقع یکساں طور پر حاصل نہیں ہوتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کئی صدیوں تک معاشرے میں مردوں کی حکمرانی ہونے کی وجہ سے اسے مردوں کا معاشرہ سمجھنے کی سوچ باقاعدہ ایک ذہنیت کی صورت اختیار کر چکی تھی جس میں وقت کے بدلتے تقاضوں نے شگاف ضرور ڈالے ہیں لیکن اب بھی بیشتر علاقوں اور خاندانوں میں اس قنوطیت کے اثرات بآسانی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔
خواتین کو با اختیار بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں ان کے ہونے کے احساس کو زندہ رہنے دیا جائے اور خود اعتمادی کے ساتھ انھیں اپنی ذاتی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہو اور انھیں زمانے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی حاصل ہوں۔ با اختیاری کا عمل پسماندہ لوگوں کے لئے بھی بنیادی مواقع اور حقوق کے حصول میں معاون ہوتا ہے یہ خواتین کا انسان ہونے کی حیثیت سے بنیادی حق ہے اس میں حصول تعلیم کے لئے ملنے والے مواقع کو سر فہرست رکھا جا سکتا ہے کیوں کہ تعلیم خواتین کو صحیح معنوں میں با اختیار بناتی ہے سوچنے کا سلیقہ سکھاتی ہے اس کے بغیر خواتین کے با اختیار بنانے کی ہر کوشش بے سود ہے۔
خواتین کی خودمختاری اور اس کے بنیادی حق خود ارادی کے حصول میں آسانی کسی بھی معاشرے کی ترقی اور آسودہ حالی کے لئے ایک تعمیری عنصر کا کردار ادا کرتی ہے۔ ہر دور میں ہی خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ ہر میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ان کو اس طرح پزیرائی اور قبولیت حاصل نہیں ہوئی جو اس طرح کے کردار ادا کرنے والے مردوں کو حاصل ہوئی اس کے پیچھے صدیوں سے چلی آ رہی وہ ذہنیت کارفرما رہی ہے جس میں عورتوں کو محکوم خیال کیا جاتا رہا ہے اور ان کے مطابق عورتوں کو اپنے حقوق اور تحفظ کے حصول کے لئے مردوں پر انحصار کرنا چاہئے ان کی مرضی ان کی رائے ان کے خیالات ایک ثانوی چیز ہیں جو کہ چنداں اہمیت نہیں رکھتے یہ ایسی ذہنیت تھی جس نے صدیوں معاشرے پر حکمرانی کی ہے لیکن اب چوں کہ وقت کی تہذیب و تمدن میں غیر معمولی تبدیلی آنے کی وجہ سے اس ذہنیت کو رد کرنے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں لیکن اب بھی اس کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ کہیں کہیں لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے کیوں کہ اس ذہنیت نے مردوں کو ایسے احساس برتری میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ اپنی اس خودساختہ ’عظمت‘ کے حصار سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے یہی وجہ ہے کہ اکثر تعلیم یافتہ اور مہذب خاندانوں میں عورتوں کو عدم مساوات نا انصافی اور بے اختیاری جیسی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے معاشرے کی ساری تبدیلی صرف ان خاندان کے مردوں کے گرد ہی گھوم رہی ہیں۔ عورتوں کے ساتھ عدم مساوات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ خاندان اپنے گھر کی عورتوں کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے انھیں زمانے کے ساتھ چلنے کا ہنر سکھاناتو چاہتے ہیں لیکن ان کے اندر لوگ کیا کہیں گے کا خوف اس شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی اس خواہش کو اپنے خوف کی بھینٹ چڑھا کر متوسط طرز زندگی کو ہی اپنائے رہ جاتے ہیں۔ کبھی لڑکیوں کو وسائل کے ہوتے ہوئے بھی اعلیٰ تعلیم سے محض اس لئے روک دیا جاتا ہے کہ انھیں اگلے گھر جا کر کتابی علم سے زیادہ گھرداری سے سابقہ پڑنے والا ہے اس لئے ان کو پڑھا کر وقت اور وسائل کو ضائع کرنے کے بجائے امور خانہ داری میں طاق کر کے انھیں رخصت کر دیا جائے۔ بعض مرتبہ ایسی بھی صورتحال دیکھنے میں آتی ہے جب لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول سے باز رکھنے کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ یہ ہوتی ہے کہ زیادہ پڑھ لکھ جائیں گی تو تعلیم یافتہ شریک حیات کا انتخاب ایک مسئلہ بن جائے گا۔ اس مسئلے کا سامنا کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے پر وں کوہی تراش دیں۔ یہ سارے ایسے مسائل ہیں جن پہ اگر وقت رہتے قابو پانے کی کوشش نہ کی گئی تو گزرتے وقت کے ساتھ اس کے منفی نتائج نسلوں کو برباد کر سکتے ہیں اور رشتوں اور معاشرے میں عدم توازن پیدا کر سکتے ہیں۔ مسلمان عورتوں میں ناخواندگی کی شرح غیر مسلموں سے کہیں زیادہ ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم بے بنیاد روایتوں کو سینے سے لگائے وقت کے بدلتے اقدار کو حتی الامکان نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وقت بے رحمی کے ساتھ ہماری شناخت کو مسخ کرنا شروع کر دیتا ہے تو طوعاً و کرہاً ہم کم سے کم تقاضوں کو ہی ماننے پر اکتفا کر کے رہ جاتے ہیں نتیجتاً ہم مسلمان خواتین کی پسماندگی کے پیمانے میں کوئی خاص فرق پیدا نہیں ہوتا۔
تعلیم اس لئے ہی نہیں ضروری ہے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے تعلیم اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ انسان کو باشعور ہونے میں مدد دیتی ہے اور سوچنے کا سلیقہ سکھاتی ہے وقت کی نزاکتوں سے روشناس کراتی ہے تعلیم صحیح معنوں میں کسی بھی قوم اور انسان کا سب سے بڑا اثاثہ ہے تربیت تعلیم ہی کا ایک لازمی جزو ہے بدقسمتی سے اسے تعلیم سے علیحدہ خیال کرنے کی وجہ سے تعلیم کھوکھلے پن کا شکار ہو گئی جو کہ ایک الگ موضوع ہے اور یہ طویل بحث کا متقاضی ہے۔ بحیثیت مجموعی اعلیٰ تعلیم وقت کی ضرورت ہے ہمیں گذارے بھر کے علم کے بجائے آگے بڑھ کر تحقیق و تخصیص کے میدان میں بھی اترنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے معاشرے کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے ایسے میں خواتین کی با اختیاری کے بغیر ملک اور قوم کو با اختیار بنانے کا تصور ہی محال ہے لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں اب تک خواتین کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے معاشرے میں بروئے کار لانے کا موقع نہیں فراہم کیا جا سکا۔ لیکن خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ صورتحال پہلے سے کہیں بہتر ہے پچھلی کچھ دہائیوں میں حقوق نسواں کے نظریات کو دنیا کے تمام گوشوں میں باقاعدہ بڑے بڑے فورم کے ذریعہ عام کرنے کی کوشش کی گئی جس نے خواتین کی سماجی و معاشرتی حیثیت میں زبردست تبدیلی پیدا کی ہے۔ حقوق نسواں کی فہرست میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی آزادی پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ بیشک عورتوں کی تعلیم کے بغیر معاشرے میں تعلیمی توازن پیدا کرنے کا خواب دیکھنا کسی لایعنی خیال سے کم نہیں وقت کا تقاضہ ہے کہ خواتین کی تعلیم و تربیت پر اتنی ہی توجہ دی جائے جتنی کہ مردوں کی تعلیم و تربیت کو ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
تعلیم و تربیت ہر دور میں ہی ضروری رہی ہے لیکن موجودہ دور میں اس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے کیوں کہ موجودہ دور کی زندگی کی پیچیدگیاں پہلے سے کہیں زیادہ ہیں خواہ وہ معاشرتی سطح پہ ہو یا خاندانی نظام کے تحت ہوں بچوں کی تربیت رشتوں کی نزاکت معاشی تنگی معاشرتی تبدیلی ان سب کو بہتر طرز سے ہینڈل کرنے کے لئے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ازحد ضروری ہے لیکن ہمارے مرد اساس معاشرے میں اب بھی اس کو نظر انداز کرنے والے لوگ موجود ہیں وہ اپنی حاکمانہ طبیعت کی تسکین کے لئے عورتوں کو ہمیشہ اپنے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں انھیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر پڑھ لکھ جائیں گی تو اپنے حقوق کے لئے سوال اٹھائیں گی اور اپنے خلاف کی گئی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کریں گی اور ہماری ذمہ داریوں پہ بھی سوال اٹھائیں گی ان کا یہی بے جا خوف انھیں تعلیم نسوان کا دشمن بنائے ہوئے ہے جب کہ انھیں یہ علم نہیں کہ اگر ان کے گھر کی عورتیں ناخواندہ ہوں گی تو ان کی اولاد ان کی آغوش میں رہ کر اعلی تعلیم و تربیت سے روشناس نہیں ہو سکے گی ایک عورت ایک گھر ایک معاشرہ کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتی ہے ایک تعلیم یافتہ عورت رشتوں کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف دیہی علاقوں میں ہی ناخواندگی کی شرح پائی جاتی ہے بلکہ شہروں میں بھی خواتین اپنے پسند کے شعبے کا انتخاب کرنے کا حق نہیں رکھتیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق 17.22 کروڑ مسلمان یہاں رہتے ہیں جو ہندوستان کی ابادی کا 14.23 فیصد ہیں۔ ہماری آبادی کا بڑا طبقہ غربت بیروزگاری اور ناخواندگی جیسی اذیت کا شکار ہے۔ 50 فیصد سے زیادہ ہندوستانی مسلم خواتین ناخواندگی کے زمرے سے تعلق رکھتی ہیں اور اگر عورتوں کے اعلی تعلیم کے حصول کی بات کی جائے تو نیشنل سیمپل سروے 2009 تا 2011 کے مطابق 100 میں سے صرف 11 مسلمان ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کا رخ کرتے ہیں عورتوں میں یہ تعداد اور بھی کم ہو جاتی ہے ناخواندگی اور جہالت با اختیاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے لازمی ہے کہ انھیں نہ صرف تمام حقوق دینے جائیں بلکہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی تربیت سازی اور تعلیم کے لئے مواقع فراہم کئے جائیں عورتوں کے با اختیار ہونے سے ملک کی معاشی و اقتصادی صورتحال بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ ’بیٹی بچاؤ۔ بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ دے کر حکومت ہند نے بھی اس سمت پیش رفت کی ہے اس سلسلے میں اس نے کئی اسکیموں کی شروعات بھی کی ہے جس میں ہندوستان کے تمام 33 آرمی اسکولوں میں لڑکیوں کے داخلے کی منظوری بھی شامل ہے جس کے ذریعہ ہم مثبت نتیجے کی امید رکھ سکتے ہیں۔
[email protected]
خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے اعلیٰ تعلیم ضروری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS