مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی
انسانی زندگی میںحق گوئی کی صفت اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ معاشرہ کے لوگ حق گوئی جیسی عظیم صفت کے حامل انسان پرعزت و تکریم کی نگاہ ڈالتے ہیں اور اس کی کہی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہی وہ صفت ہے جس سے تقریبا سارے انبیاء متصف رہے ہیں۔ ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندگی کے ہر معاملہ میں سچائی اور حق گوئی کو مضبوطی سے تھامے رہے اور سینہ سپر ہوکر باطل کے سامنے ڈٹے رہے۔ اسی عمدہ صفت کی وجہ سے نبوت سے پہلے ہی آپ ،،الصادق الامین،، کے لقب سے معروف ہوگئے اور نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد بھی اسی دیانت و صداقت اور فطری خلوص کی بنا پر لوگوں نے آپ کی باتوں کو تسلیم کیا اور بہت کم عرصہ میں وہ مشرکین جو کل تک ہاتھا پائی کرنے پر تلے ہوئے تھے جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ انسانی اب تک قاصر ہے۔
شاہِ حبشہ نجاشی کی حق گوئی :مکہ مکرمہ میں جب مسلمانوں کو اپنے دین پر چلنا مشکل ہوگیا اور ان پر عرصہ حیات تنگ سے تنگ تر ہوتا چلاگیا، کفار کی طرف سے ظلم و ستم بڑھتے ہی رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سینکڑوں مسلمان مرد و عورت حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ جب کفار مکہ نے مسلمانوں کو چین و سکون کی زندگی بسر کرتے ہوئے سنا یا دیکھا تو ان کو غصہ آیا اور تحفے تحائف دیکر نجاشی شاہ حبشہ کے پاس ایک وفد بھیجا اس وفد نے جاکر اول حکام و پادریوں سے ملاقات کی اور ہدیے دے کر ان سے بادشاہ کے نام اپنی سفارش کا وعدہ لیا اور پھر بادشاہ کی خدمت میں یہ وفد حاضر ہوا، اول بادشاہ کو سجدہ کیا اور پھر تحفے پیش کرکے اپنی درخواست پیش کی اور رشوت خور حکام نے تائید کی، انہوں نے کہا اے بادشاہ! ہماری قوم کے چند بے وقوف لڑکے اپنے قدیم دین کو چھوڑ کر ایک نئے دین میں داخل ہوگئے جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ جانتے ہیں اور آپ کے ملک میں آکر رہنے لگے ہیں، ہم کو شرفا ء مکہ نے اور ان کے باپ و ماں نے بھیجا ہے کہ ان کو واپس لائیں، آپ ان کو ہمارے سپرد کردیں۔
بادشاہ نے کہا کہ جن لوگوں نے میری پناہ پکڑی ہے بغیر تحقیق کے ان کو حوالے نہیں کرسکتا۔ اول ان سے بلاکر تحقیق کرلوں اگر یہ صحیح ہوا تو حوالے کردوں گا اس لئے اس نے مسلمانوں کو بلایا، مسلمان بادشاہ کے پاس حاضر ہوئے، وہاں پر بادشاہ کے سامنے مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام پیش کرنے کے قبل کے حالات اور اسلام کے ظاہر ہونے کے اثرات کا ذکر کیا بادشاہ کے طلب پر حضرت جعفر نے بادشاہ کے دربار میں سورئہ مریم کی اول کی آیتیں پڑھیں جن کو سن کر بادشاہ بھی اور اس کے پادری بھی بہت روئے یہاں تک کہ داڑھیاں تر ہوگئیں، اس کے بعد بادشاہ نے کہا کہ خدا کی قسم! یہ کلام اور جو کلام حضرت موسیٰ لے کر آئے تھے ایک ہی نور سے نکلے ہیں اور ان لوگوں سے صاف انکار کردیا کہ میں ان کو تمہارے حوالہ نہیں کرسکتا وہ لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ بڑی ذلت اٹھانا پڑی، باہمی مشورہ میں ایک شخص نے کہا کہ کل میں ایسی تدبیر کروں گا کہ بادشاہ ان کی جڑہی کاٹ دے ساتھیوں نے کہا بھی کہ ایسا نہیں چاہئے یہ لوگ اگرچہ مسلمان ہوگئے مگر پھر بھی رشتہ دار ہیں۔
مگر اس نے نہ مانا دوسرے دن پھر بادشاہ کے پاس گئے اورجاکر کہا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، ان کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے بادشاہ نے پھر مسلمانوں کو بلایا۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ دوسرے دن کے بلانے سے ہمیں اور بھی زیادہ پریشانی ہوئی۔ بہرحال بادشاہ نے پوچھا کہ تم حضرت عیسیٰ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ مسلمانوں کی جانب سے جواب دیاگیا کہ ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے نبی پر ان کی شان میں نازل ہوا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں، اس کے رسول ہیں، اس کی روح ہیں اور اس کے کلمہ ہیں جس کو خدانے کنواری اور پاک مریم کی طرف ڈالا۔ نجاشی نے کہا حضرت عیسیٰ بھی اس کے سوا کچھ نہیں فرماتے پادری لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ نجاشی نے کہا کہ تم جو چاہو کہو اس کے بعد نجاشی نے ان کے تحفے واپس کردئیے اور مسلمانوں سے کہا تم امن سے رہو جو تمہیں ستائے گا اس کوتاوان دینا پڑے گا اور اس کا اعلان بھی کرادیا کہ جو شخص ان کو ستائے گا اس کو تاوان دینا ہوگا۔ شاہ نجاشی کی اس حق گوئی کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمانوں کو بھی چین نصیب ہوگیا اور اہل حبشہ کی ایک بڑی تعداد حق کی حمایت پر بھی مستعد ہوگئی اور خود بھی ایمان میں داخل ہوگئی۔
روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین حبشہ نے مدینہ طیبہ جانے کا ارادہ کیا تو نجاشی شاہ حبشہ نے ان کے ساتھ اپنے ہم مذہب نصاریٰ کے بڑے بڑے علما ء و مشایخ کا ایک وفد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا جو ستر آدمیوں پر مشتمل تھا جن میں باسٹھ حبشہ کے اورآٹھ حضرات شام کے تھے۔ یہ وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک درویشانہ اور راہبانہ لباس میں ملبوس ہوکر حاضرہوا، آپ نے ان کو سورہ یسین پڑھ کر سنائی جسے سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، سب نے کہا کہ یہ کلام اس کلام کے کتنا مشابہ ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل ہوتا تھا اور یہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ ان کی واپسی کے بعد شاہ حبشہ نجاشی نے بھی اسلام کا اعلان کردیا اور اپنا ایک خط دے کر اپنے ایک صاحبزادے کو وفد کا قائد بناکر بھیجا مگر اتفاق سے یہ کشتی دریا میں غرق ہوگئی۔ الغرض حبشہ کا بادشاہ ، حکام و عوام دونوں نے حق کا اعتراف کیا مسلمانوں کے ساتھ حق پرستی سے کام لیتے ہوئے شریفانہ اور عادلانہ سلوک کیا اور خود بھی مسلمان ہوگئے یہ ہے نتیجہ حق گوئی اور حق پرستی کا۔
موجودہ دور میں دانشمندی اور حق گوئی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ایک عجیب قسم کے بھنور میں پھنس چکا ہے۔ لوگ دین اسلام جیسا امن و سکون والا مذہب اپنانے کے باوجود متشدد ہوگئے ہیں،آپسی مراسم بڑی تیزی سے ختم ہورہے ہیں،اور ہر شخص اپنی انانیت کے سایہ میں اندھاہوکر الٰہی فرامین کو خودساختہ زیور تصور کرنے لگا ہے۔ لوگ ذراسی نوک جھوک پر دانشمندی سے صلح کرنے کے بجائے مزید بڑھاوا دینے میں مصروف ہیں۔ اور اب سماج سے معافی، چشم پوشی ،حق گوئی اور ہوشمندی پوری طرح اٹھ گئی ہے۔
اگر آج بھی ہم حق بیانی اور صحیح ڈھنگ سے اسلام کی صداقت اور انسانیت پر مبنی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کریں گے تو بہت جلد غیروں میں بھی اسلام کے تئیں ایک مثبت فکر اور نیک خیالات پیدا ہوسکتے ہیں اور تیزی سے دین اسلام کی تشہیر ہوسکتی ہے۔ جو اسلام کا مطالبہ اور موجودہ دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اللہ ہمیں حق گوئی اور حکمت و دانائی کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ (آمین)