صرف بلقیس بانو ہی نہیں ملک کی ہر خاتون کی تذلیل ہوئی ہے

0

عبدالماجد نظامی

ہم بہت ہی عجیب ملک میں رہتے ہیں۔ یہاں ایسے حادثات و واقعات روز رونما ہوتے ہیں جن سے کبھی اچانک امید پیدا ہوتی ہے تو کبھی بالکل اگلے ہی لمحہ مایوسی اور ماتم کا ماحول چھا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اس سال ہندوستان کے یوم آزادی کے موقع پر دیکھنے اور سننے کو ملا۔ ایک طرف جہاں ہندوستان کے 76ویں یوم آزادی کے موقع پر مغلیہ عظمت کے نشان تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم نریندر مودی نے اس مناسبت سے کی جانے والی اب تک کی اپنی سب سے طویل تقریر میں ہندوستان کو آئندہ پچیس سالوں میں ترقی یافتہ ملک بنانے کا عزم ظاہر کیا، وہیں انہوں نے بڑے اونچے الفاظ اور آواز میں ملک کی خواتین کے تحفظ اور ان کی ترقی کا دم بھرتے ہوئے ملک کو اس بات کے لیے تیار کیا کہ وہ عورت کی قوت یا ’’ناری شکتی‘‘ کو پہچانیں اور ان کا احترام کریں۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بطور خاص اس بات کا ذکر کیا اور عوام کو ابھارتے ہوئے ان سے اس بات کا عہد کرنے کو کہا کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے عورت کی تحقیر ہوتی ہو یا ان کے مقام عزت و احترام پر فرق پڑتا ہو۔ اس کے بعد ہندوستان کی جنگ آزادی میں نمایاں کردار نبھانے والی ہندوستانی خواتین کا ذکر بڑے پرجوش انداز میں کیا۔ ان کی اس تقریر کو سننے کے بعد یقینا کرناٹک کی اسکول اور کالج جانے والی بچیوں کے دل میں یہ خیال ابھرا ہوگا کہ شاید اب ان کی ترقی کی راہوں میں روڑے نہیں اٹکائے جائیں گے۔ میڈیا اور اخبارات یا دیگر علمی شعبوں سے وابستہ مسلم خواتین نے چین کی سانسیں لی ہوں گی کہ اب سُلی ڈیل کے نام سے ان کی عزت کی نیلامی سرِعام نہیں کی جائے گی اور اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے گی جو مستقبل کے اوباشوں کے لیے درس عبرت ثابت ہوگی۔ گھروں اور دفتروں میں کام کاج کرنے والی خواتین کے من میں بھی اس تصور نے ایک پل کے لیے انگڑائی لی ہوگی کہ شاید پورے وقار اور عزت نفس کے ساتھ وہ اپنا کام کرپائیں گی اور کوئی انہیں ذلیل نہیں کرے گا۔ ہاتھرس کے طرز پر عزت اور جان دونوں کی بلی چڑھا دی جانے والی گاؤں کی بیٹیوں نے بھی سوچا ہوگا کہ لگتا ہے اب ہمارا آزاد ملک ذات پات کے مصنوعی سماجی معیار پر نہیں چلے گا بلکہ یہ وہی راستہ اختیار کرے گا جو کائناتی اصولوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ انصاف و ترقی اور سماجی برابری کا وہ دور آئے گا جو آج تک اس ملک کی بیشتر خواتین کے لیے صرف آوارہ کا خواب ثابت ہوتا رہا ہے۔ ماؤں کی کوکھ میں ہی قبل از وقت موت کی نیند سلا دی جانے والی ننھی جانوں کے نازک دل و دماغ میں خوشی اور امنگ کا یہ ترانہ گونج گیا ہوگا کہ اب باہر کی دنیا میں اس کے ساتھ کوئی بھیدبھاؤ نہیں ہوگا اور اسے یکساں طور پر باوقار انداز میں زندگی اور ترقی کی راہیں طے کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ یہ احساسات بھلا ہندوستان کی بیٹیوں اور بچیوں کے ذہن میں کیسے نہیں ابھرے ہوں گے؟ آخر اس ملک کا ایک ایسا مضبوط لیڈر اور اپنے زور خطابت کے ساتھ ساتھ اپنی قوت ارادی کے لیے معروف لیڈر یہ بات کہہ رہا تھا جس کو عوام میں بڑی مقبولیت حاصل ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ وزیر اعظم کی اس تقریر کا کوئی خاص اثر ہوتا اسی دن ایک ایسا سنگین اور دل دوز واقعہ پیش آگیا جس نے ایک لمحہ میں ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ہندوستان کی خواتین اور بچیاں دوبارہ سے مایوسی اور خوف کے اسی اندھیرے غار میں لوٹ گئیں جہاں برسوں نہیں بلکہ صدیوں سے وہ جیتی آئی ہیں۔ یہ دل دوز واقعہ گجرات میں پیش آیا۔ یہ وہی گجرات ہے جس کے وزیراعلیٰ کے بطور نریندر مودی نے پندرہ سال گزارے ہیں اور اسی گجرات کی موہوم اور خیالی ترقی کا حوالہ دے کر میڈیا پروپیگنڈہ کی مدد سے وزارت عظمیٰ تک پہنچے ہیں۔ یہ وہی گجرات ہے جہاں ان کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے 2002 میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور مسلم خواتین کی رداء عصمت کو تار تار کیا گیا۔ جن مسلم خواتین کی انتہائی حیوانیت پسندی کے ساتھ عصمت دری کی گئی تھی، ان میں سب سے نمایاں نام بلقیس بانو کا ہے۔ بلقیس بانو کی عصمت دری کرنے والے ان کے گاؤں کے پڑوسی تھے اور جن کے ساتھ ان کا اور ان کے اہل خانہ کا روز مرہ کا سماجی تعلق تھا۔ لیکن اس کے باوجود بلقیس بانو کا ریپ ان حیوان صفت انسانوں نے کیا۔ جب ان کا ریپ کیا گیا تھا تب وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ ریپ کے علاوہ ان کے اہل خانہ میں سے14افراد کا بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا جن میں ان کی تین سالہ معصوم بچی بھی شامل تھی۔ ان کی فیملی کے چھ افراد کی لاش تک نہیں ملی تھی۔ جب حالات کی سنگینی میں کسی قدر تخفیف پیدا ہوئی تو بلقیس بانو اور ان کے شوہر نے ہمت و جرأت کی انوکھی مثال قائم کی۔ انہوں نے اس ملک کے نظام عدل پر پورا اعتماد ظاہر کیا اور طویل مقدمہ کے بعد 2008 میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے گیارہ مجرموں کو عمرقید کی سزا سنائی۔ یہ مقدمہ کتنی مشکل سے پورا ہوا تھا اور قانون کے مطابق انہیں سزا دلوانا کتنا دشوار کن مرحلہ تھا، اس کی تفصیل سے اس واقعہ پر نظر رکھنے والے لوگ واقف ہیں۔ بس اتنا اشارہ کرنا کافی ہوگا کہ اس معاملہ کو گجرات کی سی آئی ڈی سے لے کر سی بی آئی کو سونپا گیا تھا اور گجرات سے اس کیس کو منتقل کرکے ممبئی مہاراشٹر میں لایا گیا تھا تاکہ گجرات سرکار کی من مانی کا عمل دخل اس میں نہ رہے۔ آخرکار اس معاملہ میں ملوث ایسے خطرناک مجرمین کو دوبارہ سماج میں آزاد چھوڑنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس ملک کی خواتین اور بچیاں کھوکھلے جملوں کی بدولت ایک آزاد شہری کی طرح عزت کی زندگی گزارنے کا خواب دیکھ سکتی ہیں؟ ان مجرمین کی قبل از وقت آزادی سے سماج میں بہت منفی اثر پڑے گا اور بلقیس بانو کی طرح ملک کے الگ الگ حصوں میں ظلم کا شکار ہونے والی خواتین اور بیٹیاں خود کو غیرمحفوظ محسوس کریں گی۔ ساتھ ہی ان کی نفسیات پر اس عمل کا بڑا گہرا اور مہلک اثر پڑے گا۔ گجرات کی حکومت نے1992کے جس قانون کا سہارا لے کر ان مجرمین کو رہا کیا ہے، اس قانون کو 2014 میں بدلا گیا تھا اور قبل از وقت رہائی سے متعلق ایسے شروط شامل کیے گئے تھے جو قابل تعریف تھے۔ اگر تعدیل شدہ ان شرطوں کو دھیان میں رکھا جاتا تو یہ مجرمین کبھی رہائی کا منہ نہیں دیکھ پاتے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ گجرات حکومت اس فیصلہ پر نظرثانی کرے اور ان مجرمین کو وہیں پہنچائے جہاں ان کی اصل جگہ ہے تاکہ سماج میں امن و امان کا ماحول قائم ہوسکے۔ خواتین احساس تحفظ کے ساتھ جی سکیں۔ ملک میں قانونی بالادستی کا ماحول پیدا ہوسکے اور وزیراعظم کی باتوں کی لاج رہ جائے جن کا گہرا تعلق گجرات کی سرزمین سے ہے۔ 2002 کا خوفناک بھوت دوبارہ زندہ ہوگا تو سماج کا توازن ایک بار پھر خطرہ میں پڑ جائے گا۔ اس کے علاوہ بلقیس بانو کے پاس بھی یہ قانونی حق باقی ہے کہ وہ ملک کی اونچی عدالتوں سے رجوع کریں اور ان مجرمین کی آزادی کو دوبارہ قید میں تبدیل کرائیں۔ مجھے امید ہے کہ بلقیس بانو جب بھی حصول انصاف کا یہ راستہ اختیار کریں گی انہیں مایوس نہیں کیا جائے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS