پنکج چترویدی
پنجاب میں اس بار جون میں تو بارش ہوئی نہیں اور جولائی میں جیسے ہی جھڑی لگی، پودے لگنے لگے۔ مانسون آنے میں دیر ہوئی تو جن علاقوں کی روزی روٹی ہی کھیتی سے چلتی ہو، وہ بوائی-روپائی میں دیر نہیں کرسکتے، ورنہ اگلی فصل کے لیے تاخیر ہوجائے گی۔ کوئی ساڑھے بارہ لاکھ ٹیوب ویل گزشتہ ایک ماہ سے دن رات زمین کی لامحدود گہرائیوں سے باقی ماندہ پانی کو نکالتے رہے۔ حکومت نے خوب تشہیر کی لیکن کسان دھان-باسمتی سے لگاؤ کو چھوڑ نہیں پایا۔ ویسے ہر سال پورے ملک میں دھان کا رقبہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 13.39 فیصد کم رہا ہے لیکن پنجاب میں گزشتہ سال 30.66 لاکھ ہیکٹیئر کے مقابلے میں اس بار بھی 30 لاکھ سے کم نہیں ہے دھان کا رقبہ۔ یہی نہیں حکومت نے کسانوں کی راست بوائی کے لیے حوصلہ افزائی کی جس میں روایتی دھان کی کھیتی سے کوئی 30 فیصد کم پانی لگتا ہے لیکن وہ بھی کامیاب نہیں رہا۔ اس بار 12 لاکھ ہیکٹیئر میں راست بوائی کا ہدف طے کیا گیا تھا لیکن اصل میں بمشکل 82 ہزار ہیکٹیئر ہی رہا۔ اس کے لیے ریاستی حکومت نے 1500 روپے فی ہیکٹیئر کی امداد کا بھی اعلان کیا تھا۔ بڑی رقم اشتہارات میں بھی خرچ ہوئی لیکن نہ کسان نے دھان چھوڑا نہ ہی راست بوائی کی۔ واضح ہو کہ ملک میں دھان کی کل پیداوار کا 11.2 فیصد پنجاب میں ہوتا ہے۔
بے حساب دھان کی کھیتی نے زمین کے رحم کو نہ صرف خشک کر دیا ہے بلکہ اس کے آنچل کی پیداواری صلاحیت بھی ختم ہو رہی ہے۔ یہی نہیں ٹھنڈ شروع ہوتے ہی دہلی این سی آر میں جس دم گھوٹنے والے اسماگ اور اس کی وجہ پرالی جلانے پر چرچہ ہوتی ہے، اس کی بھی بنیادی وجہ دھان کی کھیتی اور اس کی بوائی میں تاخیر ہے۔ کھیتی-کسانی ہندوستان کی معیشت کی مضبوط بنیاد ہے اور اس پر زیادہ پانی خرچ ہونا لازمی ہے، لیکن ہمیں اگر فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے تو پانی کے تحفظ کی بات بھی کرنی ہوگی۔ جنوبی یا مشرقی ہندوستان میں اچھی بارش ہوتی ہے۔ وہاں کھیت میں بارش کا پانی بھرا جا سکتا ہے، لہٰذا روایتی طور پر وہیں دھان کی کھیتی ہوتی تھی اور وہیں کے لوگوں کی بنیادی خوراک چاول تھی۔ پنجاب-ہریانہ وغیرہ علاقوں میں ندیوں کا جال رہا ہے۔ وہاں کی زمین میں نمی رہتی تھی، اس لیے چنا ، گیہوں، راجما جیسی فصلیں یہاں ہوتی تھیں۔
بدقسمتی ہے کہ ملک کی زرعی پالیسی نے محض زیادہ منافع کمانے کے خواب دکھائے اور ایسی جگہوں پر بھی دھان کی اندھادھند کاشت شروع ہوگئی جہاں اس کے لائق پانی دستیاب نہیں تھا۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ہریانہ-پنجاب جیسی ریاستوں کا زیادہ تر حصہ زیر زمین پانی کے معاملے میں ’ڈارک زون‘ میں بدل گیا ہے اور حالات ایسے ہیں کہ زمین کے خشک ہونے کی وجہ سے اب ریگستان کی آہٹ اس طرف بڑھ رہی ہے۔ بات پنجاب کی ہو یا پھر ہریانہ یا گنگا جمنا کے دوآب کے درمیان آباد مغربی اترپردیش کی، صدیوں سے یہاں کے معاشرے کی خوراک میں کبھی چاول تھا ہی نہیں، لہٰذا اس کی پیداوار بھی یہاں نہیں ہوتی۔ سبز انقلاب کے نام پر کچھ کیمیائی کھاد-دوا اور بیجوں کی تجارت کرنے والی کمپنیوں نے بس پانی کی دستیابی کو دیکھا اور وہاں ایسی فصلوں کی کاشت شروع کر دیا جس نے وہاں کی زمین بنجر کی، زیر زمین پانی سمیت پانی کے ذخائر خالی کر دیے، کھیتی میں استعمال کیمیکل سے آس پاس کی ندی-تالاب اور زیر زمین پانی کو آلودہ کر دیا۔ حالات ایسے ہوگئے کہ پینے کے پانی کا بحران سنگین ہو گیا۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے پاس دستیاب کل پانی کا سب سے زیادہ استعمال کھیتی میں ہوتا ہے۔
دو سال پہلے ہریانہ حکومت نے ’میرا پانی-میری وراثت‘ اسکیم کے تحت ڈارک زون میں شامل علاقوں میں دھان کی کھیتی چھوڑنے والے کسانوں کو سات ہزار روپے فی ایکڑ امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔ پڑوسی ریاست پنجاب کی حکومت نے بھی خریف فصل میں دھان کی بوائی، راست بوائی اور مکئی کی کھیتی کی زیادہ حوصلہ افزائی کے لیے زرعی مشینری کی خریداری پر 50 فیصد تک کی سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
کبھی پنجاب میں پانچ سدا بہار ندیاں تھیں جو اب پانی کے بحران کی وجہ سے ریگستان میں تبدیل ہونے کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ پنجاب میں کھیتوں کے لیے سالانہ پانی کی مانگ 43.7 لاکھ ہیکٹیئر میٹر ہے اور اس کا 73 فیصد زمینی پانی سے لیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں ریاست کی ندیوں میں پانی کی دستیابی بھی ایک کروڑ 70 لاکھ ایکڑ فٹ سے کم ہوکر ایک کروڑ 30 لاکھ ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ جب حکومت نے زیادہ پانی پینے والی فصلوں اور زمین کا سینہ چیر کر پانی نکالنے والی اسکیموں کی خوب حوصلہ افزائی کی تو پانی کی کھپت کے تئیں عام لوگوں میں لاپروائی میں اضافہ ہوا اور ملک کے اوسط پانی کا استعمال-150لیٹر فی شخص یومیہ حد یہاں دوگنی سے بھی زیادہ 380 لیٹر ہوگئی۔
پنجاب سوائل کنزرویشن اور سینٹرل گراؤنڈ واٹر لیول بورڈ کے مشترکہ سیٹیلائٹ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ اگر ریاست اسی رفتار سے زیر زمین پانی کا استحصال کرتی رہی تو آنے والے 18 برسوں میں صرف پانچ فیصد رقبے میں ہی زیر زمین باقی رہے گا۔ زمینی پانی کے تمام ذرائع پوری طرح خشک ہو جائیں گے اور آج کے بچے جب جوان ہوں گے تو انہیں نہ صرف پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ زمین کے تیزی سے ریت میں بدلنے کے مسئلے کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔1985 میں پنجاب کے85 فیصد حصے کی کوکھ میں لبالب پانی تھا۔ سال 2018 تک اس کے 45 فیصد میں بہت کم اور 6 فیصد میں تقریباً ختم کے حالات بن گئے ہیں۔آج وہاں 300 سے ایک ہزار فٹ گہرائی پر ٹیوب ویل کھودے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جتنی گہرائی سے پانی لیں گے اتنی ہی بجلی کی کھپت میں اضافہ ہوگا۔
بجلی، پانی کے بعد دھان والے علاقوں میں ریگستان کی آہٹ کا اشارہ اسرو کی ایک ریسرچ میں سامنے آیا ہے۔ ریسرچ کے مطابق ہندوستان کی کل 328.73 ملین ہیکٹیئرزمین میں سے105.19 ملین ہیکٹیئر زمین بنجر ہو گئی ہے جبکہ82.18 ملین ہیکٹیئر زمین ریگستان میں تبدیل ہو رہی ہے۔ یہ ہمارے لیے تشوش کی بات ہے کہ ملک کے ایک چوتھائی حصے پر آنے والے سو سال میں صحرا بننے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اندھا دھند آبپاشی اور زیادہ فصلیں اُگانے کے برے نتائج کی مثال پنجاب ہے جہاں دو لاکھ ہیکٹیئر اراضی دیکھتے ہی دیکھتے بنجر ہو گئی۔ بھٹنڈہ، مانسا، موگا، فیروزپور، مکتسر، فرید کورٹ وغیرہ میں زمین میں ریڈیو ایکٹو عنصر کی مقدار حد پار کرچکی ہے اور یہی ریگستان کی آمد کا اشارہ ہے۔
دہلی میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی مہلک اسماگ کی جڑ میں بھی دھان کی زیادہ بوائی ہے۔ ہریانہ-پنجاب میں دھان کی بوائی 10 جون سے پہلے نہیں کی جاتی ہے۔ اس کی تیاری میں 140 دن لگتے ہیں، پھر اس کی کٹائی کے بعد گیہوں کی فصل لگانے کے لیے کسان کے پاس اتنا وقت ہوتا ہی نہیں ہے کہ وہ فصل کی باقیات کا نمٹارہ حکومت کے قانون کے مطابق کرے۔ جب تک ہریانہ-پنجاب میں دھا ن کی فصل کا رقبہ کم نہیں ہوتا، دہلی کو پرالی کے بحران سے نجات نہیں ملے گی۔
حکومت ہند کے بفراسٹاک میں دھان مناسب مقدار میں موجود ہے اور اب صرف مقبولیت کی وجہ سے ہی ریاستی حکومتیں اندھادھند دھان خریدتی ہیں اور اوسطاً ہر سال خریدے گئے دھان کا دس فیصد تک بغیر مناسب ذخیرے برباد ہو جاتا ہے۔ واضح ہوکہ یہ صرف دھان ہی برباد نہیں ہوتا بلکہ اس کو اگانے میں خرچ ہونے والا پانی بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ ابھی تک ریاستی حکومتوں نے جو بھی اسکیمیں بنائیں، ان سے دھان کی کاشت کی حوصلہ شکنی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے لیکن اگر ہمیں اناج پیدا کرنے والی اپنی ریاستوں کو بچانا ہے تو اس کے لیے کچھ سخت فیصلے بھی لینے پڑ سکتے ہیں۔
[email protected]