ڈاکٹر ایم عارف_ بتیا_ مغربی چمپارن _بہار ،رابطہ 7250283933
( نوٹ) جدید دورکےصاحب کتاب سے معذرت کے ساتھ____
ہمارے عہد کے انسان ہیں ذہین بہت
ضمیر بیچ کر شہرت خرید لیتے ہیں-
ہم اس جدید دور میں بڑی ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں بے عملی کا ثبوت دیتے ہوئے، اپنے ضمیر کا گلا گھوٹتے ہیں ،اپنی آ نکھوں سے دیکھی ہوئی چیز پر یقین نہیں کرتے بلکہ دوسروں سےسنی سنائی بات پر یقین ہی نہیں ایمان لے آ تے ہیں_سچ بات پر بہرے بن جاتے ہیں_ بے یقینی پر یقین کر لیتے ہیں_ خوابوں کی دنیا میں سیر کرتے ہیں _ ہم جہاں ہیں، جس جگہ ہیں، جس ماحول میں ہیں ،خوابوں کے لئے مرتے ہیں ، اسی کے لئے جیتے ہیں،اور اپنی خوابوں کی تعمیر کےلئے سازش کرتے ہوئے مارے بھی جاتے ہیں_
ہم کیا ہیں_؟ ہمارا ماحول کیا ہے،اور ہمارا کام کیا ہے؟ ہم کس لئے دنیا میں بھیجے گئے ہیں پتہ ہے بھی یا نہیں_؟ ہم مردہ ضمیر بن کر اس طرح زندگی گزار رہے ہیں کہ مردوں کے لئے لڑتے ہیں اور مردوں کو زندہ آدمی سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئےسازشی دماغ کو کام میں لاتے ہوئے مردوں کے نام پر زندوں کو مار ڈالتے ہیں اور مذہب کے نام پر،سیاست کے نام پر، قدیم وجدید تہذیب وثقافت کے نام پر، انسانیت کے نام پر انسانوں کو مارتے ہوئے جہنم کے کس غار میں چلے جارہے ہیں پتہ بھی نہیں_ انسانیت سے حیوانیت کی طرف، روشنی سے اندھیرے کی تہ تک پہنچ جاتےہیں کہ نفرت ہی نفرت کو فروغ دیتے ہیں اور انسانیت کے نام پر ،مذہب کے نام پرنفرت کو فروغ دیتے ہوئے مارنے،مارکھانے، خون بہانے، اور مرمٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں _
قدیم و جدید تہذیب وتمدن میں پلنے والے ہم ادیب بھی ایسے ہی سازشی ماحول میں سانس لے رہے ہیں_ جہاں ادب کے نام پر رجحان اور نظریہ کا گٹ بندی ہے _ بے ادبی تنقید ہے، تنقیدبرائے تخریب ہے، ادبی تنظیم اور تحریک کے نام پر جدیدیت ،ترقی پسندی ، مابعد جدیدیت،نسوانیت کے جنجال ہیں_ تعصبات کی فرمان ہے_ ادب میں تخریب کاری کا اعلان ہے_
عصر حاضر کی اس نفرتی دنیا میں کہیں بھی سازش سے چھٹکارا نہیں_ ہر جگہ تعصبات کی کج
آدائی اور تخریب کاروں کی حکمرانی ہیں_ ہر شعبہ اس رنگ میں خوش فہمیوں،خود غرضیوں اور ہم چین دیگرے نیست میں مست ہے __جہاں مضمون کی اہیمت نہیں وہاں مجموعہ مضامین کی اہمیت پر زورہے_یہ تعصباتی ادبی دنیا کو کون سمجھائے کہ بوند بوند سے تالاب بنتا ہے_حرف حرف کے ملنے سے الفاظ بنتے ہیں_ الفاظ کے ملنے سے جملےاورجملوں کے مجموعہ کا نام افسانہ،ناول،داستان،مقالہ،مضمون،غزل
،رباعی،نظم ،قطعہ یعنی شعری ونثری ادب ہے
_اس طرح ہرلفظ کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے_ورنہ نہ افسانہ ہے نہ مضمون _ طنز ومزاح ہےنہ غزل _ نظم ہےنہ نثر – شاعری ہےنہ مضامین کا مجموعہ _ نہ شاعری کی کتاب ہے_ نہ آ پ صاحب کتاب ہیں،مالک کتاب ہیں،نہ خالق کتاب ،مصنف ومولف ہیں_ اب ہم کیا کریں_ ادب کے ایسی دنیا میں بسنے پر مجبور ہیں جہاں خوابوں کی دنیا ہے جس کا تعبیر کچھ بھی نہیں_جو ہم خود اپنے لئے بناتے ہیں،خود اپنے لئے سجاتے ہیں اور جب دوسرا اس راستے پر عمل کرے تو اسے برا بھلا کہتے ہیں اور اس کا راستہ بھٹکانے کےلئے اسے سبز باغ دکھلاتے ہوئے احساس کمتری کے خوب صورت جال میں پھنساتے ہیں_ مضمون کی کوئی اہمیت نہیں مجموعہ مضامین کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مالک مضمون نہیں خالق کتاب اور شاعر کتاب پر فخر کرتے ہیں_احساس کمتری کا شکار بناتے ہوئے اپنے آپ کو خوش فہمیوں میں مبتلا کرتے رہتے ہیں_زندگی کےناتجربات کو بانٹتے ہیں_پریشانیوں میں مبتلا ہوکر بھی مخالفین کو خوشی دکھاتے ہیں_
مجھے خود اعتمادی اور خوشی اس بات کی تھی کہ میرے مضامین ،افسانہ اور انشائیہ وغیرہ زمانہ طالب علمی میں ردی کی ٹوکری کی نذر ہوا کرتے تھے_مدیران حضرات اپنے ڈسٹ بن کے پیٹ بھرا کرتے تھے اور دیمک حضرات بڑے شوق سے میرے مضامین کو اپنے حافظہ میں محفوظ کرتے ہوئے چٹ کر جایا کرتے تھے_ مگر اب ڈسٹ بن نہیں،دیمک کے حافظہ میں نہیں بلکہ اخبار،رسائل ،اور قاری کے پیٹ بھرنے کے کام آ نے لگے ہیں تو میرے ہی کرم فرما شاعر وادیب ،دل وجان سے چاہنے والے ہردل عزیز محترم جو خود احساس کمتری میں مبتلا تھے مجھے احساس برتری کا شکار دیکھکر ہمت افزائی کرتے ہوئے صاحب کتاب ہو جانے کا مشورہ دے ڈالے_
” آ ج تک آ پ کا کوئی ادبی اولاد نہیں_ اب تو ایک دو اولاد آ جانا چاہئے_ میری کتاب تو بتیس سال کی عمر میں اگئی تھی،اور کچھ صاحب اولاد کرم فرماؤں کا فرماں ہے کہ ” بہت جلد میری کئی کتابیں آ نے والی ہیں”
کہاں اپنی تخلیق کو ڈسٹ بن کی جگہ رسائل کی زینت دیکھکر خوشی میں دن عید اور رات شب برات منارہا تھا _اب کہاں میرے کرم فرمانوں کا شائع شدہ تخلیق دیکھکر یہ ناراضگی کہ آ پ ابھی تک صاحب کتاب نہیں بنے کیوں_؟ اب آ پ جلد سے جلد صاحب کتاب بن جائیں_یہ ہمارے سینئر تھے جو بہت ہی تجربہ کار،حربہ نگار اور ادب سے ریٹائر منٹ کے بہت ہی قریب، اس لئے ان کے فرمان کو سبق،نصیحت اور عملی تجربہ گاہ کا منجھا ہوا کھلاڑی سمجھکر ان کی باتوں کوعملی تجرٻہ کی بات جان کر اس پر عمل کرنا شروع کیا_اب مضمون نہیں کتاب تیار کرنے میں لگ گیا_ صاحب کتاب ہونے کے چکر نے کئی کتابوں کاچکر پہ چکرلگانے پر مجبورہوا _ بار بار صاحب کتاب ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہا_اپنی ناتجربہ کاری اور اپنے دور کے سینئر تجربہ کار ادیبوں کا مشورہ کچھ کام نہ آیا_کتاب کے خالق ومالک بننے کے چکر میں مضمون کا مالک بننا بھی ہاتھ سے جاتارہا_ مجھے کیا پتہ تھا کہ مضمون کے مجموعہ کا نام کتاب ہے_ اور کچھ مضامین کے کاغذ کو ایک جگہ جمع کردینےکانام مجموعہ _آدھ جوانی اور آ دھا بڈھاپے کے بعد تجربہ بھی ہاتھ آ یا تو کس کام کا _جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کے کام نہ آ ئے_
شادی کےبعد صاحب اولاد ہونا اور ادیب وشاعر ہونے کے بعد صاحب کتاب ہونا شادی شدہ ہونے اور ادیب ہونے کی پہچان ہے_ جو مرد و زن،شاعر و ادیب ان چیزوں سے مرحوم ہیں دور جدید کے ادبی فارمولے کے مطابق نہ وہ شاعر ہیں، نہ وہ ادیب ، اور نہ ہی صاحب بیگم اورصاحب شوہر کے لائق_ جس طرح شادی شدہ ہونے کے لئے اولاد پہلی شرط ہے ٹھیک اسی طرح ادیب وشاعر کہلانے کے لئے صاحب ادبی اولاد لازمی ہے_ جس طرح بغیر اولاد کے میاں بیوی دونوں بانجھ ہیں اسی طرح بغیر کتاب کے شاعر وادیب ادب میں بانجھ کہلانے کے لائق ہیں_ یہ میرا قول نہیں میرے شہر کے ایک دانشور،شاعر وادیب کا فرمان ہے_
دور موجود میں لفظ دانشوری نے بڑی تباہی مچائی ہے_جو انسانی ذہن کی کمزوری ،ناکامیابی،مایوسی، زندگی سے فرار کا راستہ اپناتے ہوئے احساس کمتری اور دوسروں سے کم تر خیال کرتے ہوئے اپنے تدبیر سے سب پر بھاری ہونے کاایک نیا فلسفہ ڈھونڈلیا ہے_ ایک صاحب کتاب تعصب سے بھر پور شاعر وادیب اور جدید دور کے خود کو دانشور وفلسفی کہلانےوالے کا کہنا ہے کہ آ پ ادب میں لاکھ ہاتھ پاؤں چلاتے رہئے، مضامین پر مضامین شائع پر شائع ہوتے رہئے_
اشعار پر اشعار پیش کرتے رہئے_ لیکن جب تک آپ صاحب کتاب نہیں ,ادیب کہلانے کے حقدار نہیں_
میرے کرم فرماؤوں کو میرے شائع شدہ مضامین دیکھنے کی خواہش نہیں بلکہ میری کتاب دیکھنے کی آ رزو ستانے لگی_ ان کی آنکھیں میری کتاب دیکھنے کےلئے بچین وبیقرار رہنے لگی_ یہاں تک کہ میرے گمنام کتاب کی رسم اجرا کا دعوت نامہ بھی مجھے دے دی _ جس کتاب کی پیدائش کا مجھے علم ہی نہیں_ادبی صاحب اولاد ہونے کا مجھے وہم وگمان بھی نہیں_
ادب اورادیب کا رشتہ بڑا ہی نازک ہوتا ہے_ ادب سماج کا صرف آئینہ نہیں ہوتا بلکہ سماج ادب کا ائینہ ہوتا ہے_ اس طرح ادب صرف کتاب تک محدود نہیں بلکہ انسان دوستی تک قائم و دائم ہے_ انہیں محبت سے سنبھالیں_ خوش حال ازدواجی زندگی کےلئے اولاد کوئی پیمانہ نہیں_اسی طرح ادب میں صاحب اولاد(کتاب )ہونا کوئی مسلہ نہیں_کتاب اعتماد حاصل کرنے کا ذریعہ بھی نہیں_بغیر کتاب کے ادب میں خود اعتمادی آ پ کی ادبی زندگی میں خوشی ،مسرت ونشاط لاسکتی ہے_ صاحب کتاب ہونےکے باوجود بے اعتمادی آ پ کی ادبی زندگی کے دامن سے خوشی چھین سکتی ہے_
آ پ کی قدر کتاب سے نہیں انسانیت سے ہے_آپ سے کتاب ہے_ کتاب سے آ پ نہیں_ آ پ ہیں تو کتاب ہے_ قلم ہے_ قدر وعزت ہے ورنہ سب کےسب بیکار کی چیزیں ہیں _آپ اس کے پیچھے اپنی بنی بنائی ساکھ
کو نہ گوائیں _ نیا فلسفہ دوڑاکر اپنی خوش فہمی اور غلط فہمی،زندگی کے ناتجربہ کاری کو بڑی خوش اسلوبی سے نئی نسل،نئی روشنی میں اجاگر نہ کریں_ادب کو کتاب کے جنجال میں پھنساکر اسے مجروح نہ ہونے دیں_ اسی میں ہم سب شاعر وادیب کی بھلائی ہے ورنہ اپنی خود غرضانہ کمائی ہے_
جس طرح ہم روٹی کےلئے دن رات روزی کےچکر میں لگے رہتے ہیں _ یہاں تک کہ روٹی کھانے کا وقت ہی نہیں ملتا_ ٹھیک اسی طرح ہم صاحب کتاب بننے کےچکر میں مضمون لکھنا ہی بھول جاتے ہیں_ کیا بغیر مضمون لکھے،غزل کہئے،افسانہ لکھے آ پ صاحب کتاب بن سکتے ہیں_ ہرگز نہیں_پھر ہم سب صاحب اولاد کےچکر میں بیگم کو کیوں بھول جائیں
ہمارے شہر میں ایک ایسے بھی حساس ادیب ہیں جو
پہلی اولاد کی ولادت کے وقت بیگم محترمہ کی.
دردوکرب اور پریشانی کو دیکھ کر اس قدر جذباتی ہوگئے کہ ترک اولاد کی جو قسم کھائی_بیگم محترمہ کےلاکھ قسم توڑوانے کی کوشش کے باوجود_ شوہر محترم نے بیگم محترمہ کی محبت میں ایک نہ سنی_کرب ودرد بیگم محترم کے برعکس اس شدت سے محسوس کیاکہ دوسری اولاد ابھی تک ہونے نہ دی_ترک اولاد کی محافظ اس انابت نامے پر قائم رہے_
اسی طرح ایک ادیب محترم نے ادب میں تین اولاد پیدا کرنے کےبعد جو تلخ تجربہ کئے_کس کس کی جوتی صاف نہ کی_اور خوشآمد نہ کرنے پڑے_کاتب سے لےکر پبلی کیشنزتک_مبصر سے لےکر امدادی ادارے تک_قاری سے لےکر اعزازی ادارے تک کس کس کی خدمت میں نثری وشعری قصیدہ نہ لکھنا پڑا _ یہ عملی تجربہ کےبعد کتاب نہ شائع کروانے کی جو قسم کھائی_ ہزاروں نگارشات کے شائع ہونے کےباوجود تین ہی کتاب کے منصنف نظر آ ئے_ا ور آخری دم تک اپنے قسموں کو نبھاتے ہوئے ترک قسم کرنہ سکے_
جب میرے کرم فرماؤں کا کتاب شائع کروانے کاشدت کے ساتھ اصرار پر اصرار ہونے لگا تو اب ٹالنے کی جگہ کتاب لکھنے کا ذہن بنانا پڑا_مضامین کےلئے زیادہ مطالعہ کی ضرورت نہ پڑی مگر ناتجربہ کاری کی وجہ سے کتاب کےلئے مطالعہ پر مطالعہ کرنے پڑے_کچھ قدیم کتابیں جو بوسیدہ حالت میں تھیں جس پر مصنف کا نام و پتہ نہیں ہاتھ آ ئیں _کچھ نا معلوم شاعر کا اشعار ملا_ تو کچھ گمنام شخصیت کا پتہ لگا_ کچھ ضعیف ادیب وشاعر ڈسٹ بین کے کچرے میں پڑے ملے_ کیونکہ ان کے گھر میں کوئی اولاد ایسا نہیں جو اردو زبان سے واقف ہو_ جو ان کے مرنے کے بعد تعارف کرا سکے_جدید دور کے جدید ناقد کچھ اس انداز سے ملے کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے ادیبوں کے علاوہ ادب کو جانتے ہی نہیں_ کچھ نثری شاعر ایسے نظر آۓ جو اپنی شاعری کے علاوہ کچھ سمجھتے ہی نہیں_کچھ اردو ادب کی تاریخ لکھنے والے ایسے بھی ملے جو آ سانی سے ہاتھ آ جائے وہ اردو ادب کی تاریخ میں شامل کیا اور جو ہاتھ نہیں آ ئے اردو ادب سے خارج کیا_
کچھ اردو نثرکے مورخ ایسے نا اہل ملے جو فحش ادب کو نثر جانا لیکن جاسوسی ادب کو نہ پہچانا_جنسیات کو اردو نثر جانا لیکن اسلامیات کو اردو نثر سے باہر کی چیز گردانہ _ خدا جھوٹ نہ بولوائے_ اگرجدید دور کے پیشہ ور اردو کےخدمت گار، پروفیسر،نقاد،ادیب اور دانشور اردو نے ادب کو کچھ سمجھا ہے_ جانا ہے _ کچھ پڑھنے’ لکھنے’اور معلومات انہیں ہاتھ ایا ہے تووہ سمینار کی رحمتوں اور سرکاری سمپوزیم اور مذاکرے کی برکتوں کی برسات کی وجہ سے ورنہ دور حاضر کے پروفیسر اور ادیب کواتنا مطالعہ کا ذوق وشوق اورفرصت کہاں کے مطالعہ ادب میں غرق رہے_بلکہ ادب کو علامتی فکشن کی طرح نہ سمجھنے والی چیز سمجھتے رہے_
ایک وہ زمانہ تھا جب صاحب کتاب اور مصنف کتاب بہت کم ہوا کرتے تھے_انہیں ادیب ہونے کی وجہ سے ادب کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا_ایک یہ زمانہ آیا کہ ہر شخص صاحب کتاب ہے_کتاب کی بوجھ سے کوئی شاعروادیب خالی نہیں_آج میں بھی صاحب کتاب ہونے والا ہوں _اردو ادب میں صاحب اولاد کی کمی نہیں _ہر ادیب وشاعر اولاد کی تعداد کے اضافہ کے چکر میں لگا ہوا ہے _لیکن اردو قارئین کے اضافہ کا کسی کو فکر نہیں_خاصی تعداد میں کتابیں شائع ہورہی ہیں شاید کتابوں کی پیداوار کی تعداد قارئین کی تعداد سے زیادہ ہو_مگر ان کتابوں میں کتنی چیزیں ایسی ہے جو ردی کی ٹوکڑی سے زیادہ کی اہمیت رکھتی ہے_؟جوقاری کےدل ودماغ میں چند منٹوں کےلئے ہی سہی رہنے کے لائق ہو_؟جو قابل قبول نہ سہی قابل ذکر ہی ہو_؟کیا ان تصانیف کے انبار میں کوئی شاہکار بھی ہے_؟ شاہکار نہ سہی اس خس وخاشاک کے ڈھیر میں قابل ذکر چیز تو ہو_جو ہم جیسے کم علم طالب علم کے ذہن میں چند گھنٹوں کے لئے نہ سہی چندمنٹوں کے لئے ہی رہنے کے لائق ہو_اس نام ونمود،خالق ومالک اور مصنف ومولف بننے کے دور میں کتاب کے معیار کا کسی کو خیال نہیں _کتاب کی تعداد بڑھانے کا اور صاحب کتاب ہونے کا سب کو خیال ہے_اگر اس دور میں چچا غالب موجود ہوتے تو ردی کی ٹوکری میں اپنی رد کی ہوئی غزلیں چن رہے ہوتے اور ڈسٹ بن سے چن چن کرکئی دیوان کے خالق ومالک بنے پھرتے،لیکن غالب غالب نہ ہوتے_
اس جدید دور کے کتابی میلہ میں معیاری کتاب کم اور غیر معیاری کتاب کا بھر مار ہے_جس کی وجہ سے لوگ کتاب کا نام اور خالق کتاب کو جانتے بھی نہیں_اگر غلطی سے کچھ کو نذدیک سے جانتے بھی ہیں تو خالق کتاب مانتے بھی نہیں _ اب معیاری ادب،معیاری تخلیقات،معیاری کتاب بندہوچکی ہے_ صرف معیاری ادیب رہ گئے ہیں جو خود کونمایاں کرنےکےلئے بغیر سوچے، بغیر سمجھے،بغیر مطالعہ کئے کچھ لکھ رہے ہیں_ ادب میں اپنے آپ کو عیاں کرنے کی جو بیماری لگ گئی ہے نہ_اس لئے ہم ادب میں کچھ دیکھ نہیں رہے ہیں بلکہ اپنے آپ کو دکھا رہے ہیں _کیا اب ادب میں خود کے علاوہ کچھ باقی بھی ہے_اس لئے اب ادب میں ادب نہیں کاغذ کا پلندہ جمع کرکے صاحب کتاب بنا جارہا ہے _دور جدید کے ادیب ادب سے دور ہوتے ہوئے اپنی راہ بھولتا جارہا ہے_ اب ادب کی جگہ ادیب کو دیکھا جارہا ہے_ ادب مرتا جارہا ہے اس کا اثرات انسانی آبادی پر کچھ بھی نہیں_ لیکن ادیب سلامت ہے_
آج میں بھی صاحب کتاب ہونے کی کوشش میں ہوں !! صاحب کتاب بننے سے پہلے کیا کیا پاپڑ بیلنے نہ پڑے_بڑا تلخ اورعملی تجربہ ہاتھ بھی آیا جو صاحب کتاب کبھی اسے عریاں نہیں کرتے کیونکہ اسے عیاں کرکے خود بھی ننگا ہوجانےکاجو ڈر ہے_پہلے تو صاحب کتاب ہونے کے لئے باہمی امداد ،تعاون اور مدد لیتے ہوئے کئی شاعر وادیب سے مشورہ پرمشورہ،کتاب پر کتاب اس سے بھی کام نہیں چلا تو کچھ مضامین بھی امداد کے طور پر لیا تاکہ اس کرونا کےسال میں کرونا جیسے مہلک مرض سے چھٹکارا ملےاور ادھر کتاب جیسےچھوت کی بیماری سے بھی مکتی پاؤں _سرکاری امداد حاصل کرنے کے لئے صاحب مال نہیں صاحب کنگال بننا پڑا_باہمی تعاون اور مدد لینے کے لئے کئی امدادی اداروں کو مسودہ بھیجا _اپنوں سے خوش آمدد پر خوش آمدکرائی_ جبکہ خوش آمد،سفارش اور چاپلوسی میرا مزاج اورشیوہ نہیں، معیار تخلیق پر کسی سے سمجھوتہ نہیں، پھر بھی مرتا کیا نہ کرتا_
زمانہ جاہلیت میں کوئی چیز خاص نہیں ہر روش عام ہے_ گوہر نایاب پر کسی کی نگاہ نہیں_ فن پرکسی کی نظر نہیں_مقصد پر کسی کا دھیان نہیں، سب کو تعلقات کا خیال ہے_ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو_جھوٹی دعوی،
غلط فیصلے، مفاد کے پیش نظر ضمیر کی خود کشی کرتےہوئے چاپلوسانہ روش_ غرض سچائی،حقیقت کی تلاش اور اخلاق کہیں بھی نظر نہیں آتا_ ایسے ادب سے سماج کو کیا مطلب_ سچ بولنے کی ہمت نہیں، سچائی لکھنے کی جرآت نہیں_ درد وغم ،رنج والم،
ظلم وستم ، سماج ،معاشرے اورموجودہ ماحول سےکسی کو لینا دینا نہیں_
ایک دور وہ تھا لوگ کسی سے کوئی اچھی کتاب لیتے تو دینا نہیں چاہتے تھے_یہاں تک کے اچھی کتابیں چوری کرنا جائز قرار دیا جاتا تھااور خدا نہ خواستہ چوری کرتے پکڑے جاتے تو فخر محسوس کیا جاتا تھا_مگر اب دور ایسا آ گیا ہے کہ اسکول کے بچے بھی اسکول میں کتاب لے جانا ظلم عظیم تصورکیا کرتے ہیں اور کتاب سے پڑھنا عیب عظیم سمجھتے ہیں _ہماری جمہوری سرکار نے کتاب سے پڑھنا قانونی جرم قرار دیا ہے _کتاب چوری کی تو اب بات ہی چھوڑئیے _ کتاب تحفہ میں لینا بھی کوئی گوارا نہیں کرتا _حال ہی میں ہمارے شہر میں کئی نئی کتابوں کا وجود ہوا بہت سارے ادیب صاحب اولاد( کتاب) ہوئے_رسم پیدائش ( رسم اجرا) کی ادائیگی بڑی دھوم دھام سے ہوئی_اسٹیج پر شہر کے مشہور ومعروف ہستیاں موجود تھیں_ رسم اجرا کی ادائیگی کے وقت سب کے ہاتھوں میں کتاب تھی لیکن رسم تصویر کشی کی ادائیگی کے بعد صاحب اسٹیج اس طرح اسٹیج سے( رفو چکر)غائب ہوگئے کہ ان کی جگہ رسم اجرا والی کتابیں رہ گئی تھیں_ اردو کے صاحب قلم ،صاحب مطالعہ ،ریسرچ اسکالر،شاعر وادیب،ناقد ومحقق،جانثار اردو، محافظ اردو کا کتاب سے دشمنی کہوں یا عشق بازی سمجھوں ہم جیسے کم عقل کوکچھ سمجھ میں نہیں آیا تو ساری کتابیں جمع کرکے اپنی ذاتی لائبر یری کے لئے لے آیا تاکہ ایک کتاب کا مالک ، صاحب کتاب( صاحب اولاد)نہیں بن سکا تو صاحب لائبریری یعنی مجموعہ کتاب کا مالک بن کر اپنے شہر کے شاعروادیب اور دانشوروں پر لائبریری کی تصویر فیس بک پر ڈال کر اپنے مطالعہ کا روب اور دھونش جما سکوں_ باتیں تو کتاب کی ہے اس لئے عہ.
یوں ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا
اور کیسے ختم کروں ختم نہیں ہوتا
عقلمند را اشارہ کافی است
بہت بہت شکریہ آ پ سب کا کہ آ ج کے اس کتاب سےدشمنی اور مطالعہ سے بے وفائی کے دور میں اس مضمون کو برداشت کیا_ شکریہ
( ختم شد. _______ غیر مطبوعہ )_
##############################
ڈاکٹر ایم عارف_ کالی باغ بتیا_ مغربی چمپارن بہار_رابطہ 7250283934