ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
ہندی میں کہاوت ہے کہ ’ اندھا بانٹے ریوڑی، اپنے-اپنے کو دے۔‘ اپنے سیاستدانوں نے اپنے طرزعمل سے اس کہاوت کو یوں بدل دیا ہے کہ ’اندھا بانٹے ریوڑی، صرف خود کو ہی دے۔‘ صرف خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہی آج کل ہماری حکمراں پارٹیاں سرکاری ریوڑیاں بانٹتی رہتی ہیں۔ آج کل ملک کی تقریباً سبھی سیاسی پارٹیاں تھوک میں ووٹ حاصل کرنے کے لالچ میں رائے دہندگان کو طرح طرح کی چیزیں تحفتاً تقسیم کرتی ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر بھی کروڑوں لوگ آرام سے گزربسر کرسکتے ہیں۔ کئی ریاستی حکومتوں نے اپنی خواتین ووٹروں کو مفت ساڑیاں، سونے کی چین، برتن، مکسر گرائنڈر اور بچوں کو کمپیوٹر، ڈریسز، کھانا وغیرہ تقسیم کیے ہیں۔ کئی ریاستی حکومتوں نے مفت سائیکلیں بھی تحفے میں دی ہیں۔ کیا یہ سب چیزیں زندہ رہنے کے لیے بہت ضروری ہیں؟ نہیں ہیں، پھر بھی انہیں مفت میں اسی لیے تقسیم کیا جاتا ہے کہ حکومتوں اور لیڈروں کی شبیہ بنتی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ یہ ہوتا ہے کہ ہماری صوبائی حکومتیں گلے گلے تک قرض میں ڈوب جاتی ہیں۔ وہ ڈوب جائیں تو ڈوب جائیں، مفت ریوڑیاں بانٹنے والے لیڈر تو سیراب ہوجاتے ہیں۔ آج کل ہماری صوبائی حکومتیں تقریباً 15 لاکھ کروڑ روپے کے قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ وہ ریوڑیاں بانٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے بے چین ہورہی ہیں۔ بعض حکومتوں نے تو اپنے شہریوں کو بجلی اور پانی مفت میں دینے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ خواتین کے لیے بس کا سفر مفت کر دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتیں ملک کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ ملک میں غربت، بے روزگاری، بیماری اور بھکمری کا عروج ہے۔ اسی سے متعلق سپریم کورٹ میں ان دنوں زبردست بحث جاری ہے۔ ایک عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کو غیرقانونی قرار دے دیا جانا چاہیے، جن کی حکومتیں مفت کی ریوڑیاں بانٹتی ہیں۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا موقف ہے کہ یہ طے کرنا عدالت کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا کام ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں مرکزی حکومت کے علاوہ کئی اہم اداروں کے نمائندے اپنے مشورے دیں گے۔ الیکشن کمیشن نے اس کا رکن بننے سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ وہ ایک آئینی ادارہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے۔ حکومتیں اگر راحت کی سیاست نہیں کریں گی تو ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہ جائے گی۔ اگرسیلاب زدہ علاقوں میں حکومتیں اشیائے خوردونوش کی تقسیم نہیں کریں گی تو ان کا رہنا اور نہ رہنا ایک برابر ہی ہوجائے گا۔ اسی طرح وبا کے دوران80کروڑ لوگوں کو دیے گئے مفت اناج کو کیا کوئی رشوت کہہ سکتا ہے؟ درحقیقت ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تعلیم اور طب کوقابل رسائی بنانے کے لیے عوام کو جو بھی راحت دی جائے،وہ قابل ستائش سمجھی جانی چاہیے لیکن باقی تمام ریوڑیوں کو پروسے جانے سے پہلے انصاف کے ترازو پر تولا جانا چاہیے۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]