یوگیندر یادو
ہندوستان کے انتخابی نقشے کی تین اہم بیلٹوں کی جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج بی جے پی کا پورے سیاسی منظرنامے پر مکمل غلبہ ہے۔ اب این ڈی اے نام کا ہی بچا ہے۔ 2024کے انتخابات اس کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوں گے۔
’’ہندوستان کی تاریخ اصل میں بہار کی تاریخ ہے۔‘‘ جیسے ہی کامریٹ دلیپ سنگھ نے سنا کہ نتیش کمارنے بی جے پی کا ہاتھ چھوڑ کر سرکار بنانے کے لیے آر جے ڈی سے ہاتھ ملا لیا ہے ان کی منھ سے یہی جملہ نکلا اپنی پتنگ بازی میں مشغول۔ انہوںنے اپنی بات جاری رکھی۔ بودھ کے زمانے سے ہی اس ملک میں ہر بڑی اتھل پتھل بہار سے ہی شروع ہوئی ہے۔ آج نتیش نے ایک انقلاب شروع کیا ہے جو مودی سرکار کا خاتمہ کردے گا۔ کامریڈ دلیپ کی بات کاٹ کر میں ان سے الجھنا نہیں چاہتا۔ ویسے بھی ان دنوں سیکولر خیمہ میں امید کے نام کی چڑیاں کہیں دکھائی نہیںدیتی ہے۔ وہ یہ امید بھی نہیں رکھتے کہ آپ اصول کی چاشنی میں ڈوبے ان کی بڑی بڑی باتوں پر یقین کرلیں۔ وہ بس آپ کو چھیڑ دیتے ہیں کہ آپ کا سوچنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اس معاملہ میں وہ کامیاب ہیں۔
دراصل بہار میں ہوئے تخت پلٹ نے ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ عین ایسے وقت میں 2024کے بارے میں تسلیم کر لیا گیاتھا کہ اس کا فیصلہ تو ہو ہی چکا ہے اور اسی روپ میں پیش بھی کیا جا رہاتھا ۔ ٹھیک ایسے وقت میں جب صدر اورنائب صدر کے عہدوں کے چنائو ں میں ہار کے بعد اپوزیشن پارٹی کے کندھے جھک گئے تھے۔ بہار کے واقعات نے ظاہرکر دیا ہے کہ میدان ابھی کھلا ہوا ہے۔ بازی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ 1970 کی دہائی میں بہار نے ایسے ہی راستہ دکھا یا تھا۔ بہار آندولن سے ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کی شروعات ہوئی تھی جو 1977کے انتخابی نتائج میں سامنے آئی تھی۔ 1990کی دہائی میں بہار نے ہندوستان کی سیاست میں منڈل دور کا آغاز کیا تھا۔ بہار ایک پھر سے راستہ رہنمائی کر دکھائی دے رہا ہے۔ بہار آندولن کا نعرہ ……’’ اندھیرے میں پرکاش (روشنی) جے پرکاش جے پرکاش۔‘‘ آج اس جملے کے نئے معنی اخذ کیے جارہے ہیں اور ہندوستانی جمہوریت کی 75سالگرہ پر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بہار سے روشنی کی ایک سنہری کرن دکھائی دے رہی ہے۔
کیا میں بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہوں۔ جبکہ بات اتنی سی ہے کہ ایک ریاست میں پارٹی نے اپنا پالا بدل لیا ہے۔ ایسے کسی فیصلہ پر پہنچنے سے پہلے اچھا ہوگا کہ وہ پرانا کرتا چشمہ پہن لوں جو میں چنائو کے تجزیہ پیش کرنے کے دوران بیٹھتا تھا اور اس پرانے روپ کو اختیار کرکے میں کچھ حساب کتاب پیش کردوں۔
2024کا مقابلہ بی جے پی کے لیے ہر حال میں مشکل ہوگا
آئیے ہندوستان کے انتخابی منظر نامہ کو تین بیلٹوں میں تقسیم کرکے دیکھتے ہیں۔ ان میں سے پہلی بیلٹ ساحلی علاقوں کی ہے جو مغربی بنگال سے لے کر کیرل تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں آپ پنجاب اور کشمیر جیسے کچھ صوبوں کو جوڑ دیں تو آپ کو پورا علاقہ ایک ہی طرح کا دکھائی دے گا جس میں بی جے پی کوئی بااثر سیاسی طاقت نہیں ہے۔ اس علاقہ میں لوک سبھا کی کل 190سیٹیں ہیں۔ پچھلی بار بی جے پی اس پٹی میں صرف 36سیٹوں پر جیتی تھی۔ (اگر بی جے پی کے حلیف پارٹیوں کو شامل کرلیں تو کل بی جے پی او راس کے حلیفوں کی جیت صرف 42سیٹوں پر ہوئی تھی)ان میں سے 18سیٹیں بنگال سے ہاتھ لگی تھیں جہاں اسمبلی الیکشن میں چاروں خانے چت ہونے کے بعد بی جے پی کو پانچ سیٹیں بھی مل جائیں تو مانا جائے گا کہ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی بھلی۔ تلنگانہ میں بی جے پی کو کچھ سیٹیوں کا فائدہ مل سکتاہے۔ جبکہ اڑیسہ میں اس کی سیٹیں کم ہوجائیں گی او ریہ معاملہ برابر برابر کا مان کر چلیں تو بی جے پی کو اس پوری پٹی میں تقریباً 25سیٹیں ہاتھ لگ سکتی ہیں۔ بی جے پی کے لیے دیگر بچی ہوئی 353سیٹوں میں سے تقریباً 250 سیٹوں پر جیت حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ جب یہ بڑا مشکل کام ہے۔ یہ باتیں شاید آپ تسلیم کریں گے ہی ۔
بی جے پی کی زیادہ تر سیٹیں
بی جے پی کی زیادہ تر سیٹیں اس کے مکمل اثرورسوخ والے اس شمالی مغربی علاقوں سے ہاتھ لگیں گی جس میں ہندی پٹی کے بھی صوبے شامل ہیں لیکن شمال مغربی اس پورے علاقے بہار اور جھاڑ کھنڈ کو ہٹا کر اور گجرات کو جوڑ دینا ہوگا۔ بی جے پی نے اس علاقہ میں بھاری جیت کرائی تھی۔ علاقہ میں بی جے پی کی سیدھی ٹکر 2014اور 2019دونوں دفعہ اس کے کٹر حریف (یوپی کو چھوڑ کر باقی جگہوں پر کانگریس)سے ہوئی ۔ بی جے پی نے علاقہ کی کل 203سیٹوں میں سے ایک 182سیٹیں جیتیں۔ (جس میں اس کے حلیف پارٹیوں کو ملی 3سیٹیں شامل ہیں)آئیے ہم فیاضی دیکھاتے ہوئے ہم یہ مان کر چلیں کہ اس علاقے میں بی جے پی کا غلبہ برقرار رہے گا اور ہریانہ ، ہماچل پردیش ، مدھیہ پردیش اور اترپردیش میں ووٹوں کے چھوٹے موٹے چھڑکائو سے پارٹی (بی جے پی)کو بس معمولی سا نقصان ہوگا۔ حالانکہ کانگریس کے اندر تھوڑی سے بھی جان آگئی تو یہ نظریہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ ایسا ہوتا ہے تو بھی بی جے پی کو اسی علاقہ میں 150سیٹیں مل جائیں گی۔ یہ مان کر چلتے ہیں۔
اب باقی بچی وہ تیسری اور وسطی علاقہ کی پٹی ہے جس میں کرناٹک ، مہاراشٹر ، جھار کھنڈ اور بہار (اس میں آسام ، تریپورہ، میگھالیہ اور منی پور شامل کرلیں )کو شامل مان سکتے ہیں۔ کیونکہ اس علاقہ میں بی جے پی کو منقسم اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2019میں اس پٹی میں بی جے پی نے 130سیٹیں جیتی تھیں۔ جس میں سے 88سیٹیں سیدھی ان کی جھولی میں گئی تھیں۔ اس پٹی میں بی جے پی کے ساتھی پارٹیوں کے سبب ہار جیت کا اعدادوشمار میں بڑا فرق آیا۔ شیو سینا کو 18سیٹیں ملی تھیں۔ جے ڈی یو او ر ایل جے پی کو بالترتیب16اور 6سیٹیں ۔ یہ بات تو اب ظاہر ہی ہے کہ اب کی بار یہ تیسری پٹی میں بی جے پی کے لیے سردرد کا سبب بننے والی ہے۔
کرناٹک کے ہاتھ سے کھسکنے کی حالت میں بی جے پی کے لیے اس ریاست میں 28میں سے 25سیٹیں پھر سے جیت پانا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اگر کانگریس اور جے ڈی ایس کی درمیان مفاہمت ہو جاتی ہے تو بی جے پی اس بار ملنے جارہی سیٹیوںکی تعداد پہلے کے مقابلے میں آدھی ہوسکتی ہے۔ (نتیش کمار کے پالا بدلنے کا دیو گوڑا نے فوراً ہی خیر مقدم کیا ہے اس سے ممکنہ بدلتے حالا ت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ) اودھے ٹھاکرے کی سرکار زوال کے واقعات سے یہ بات طے لگتی ہے کہ 2024میں مہا وکاس اگاڑی متحد ہو کر الیکشن لڑے گی اگر ایسا ہوتا ہے تو بی جے پی شندے کی جوڑی کے لیے بی جے پی شیوسینا اتحاد کا 2019کی کارکردگی کا دہرایا جانا مشکل ہے۔ تب بی جے پی ، شیوسینا نے 48میں سے 41سیٹیں جیتی تھیں۔ اگر ہم یہ بات مان لیں تو بی جے پی آسام اور شمال مشرقی علاقوں میں دوبارہ 2019کی کارکردگی کو دہرا دے گی۔ تب بھی بی جے پی کو اس تیسری پٹی میں 2019کے مقابلے کم از کم 10سیٹوں کا خسارہ ہونے جارہا ہے۔ اگر اس کی حلیف جماعتوں کو بھی شامل مان کر چلیں تو سیٹوں کا نقصان 25کے عدد کو پہنچ سکتا ہے۔
سارا فرق بہار سے پڑتا ہے۔ ہم نے اب تک لوک سبھا کی 503سیٹوں کا احاطہ کرلیا ہے۔ اگر ہم سچائی کے نزدیک آجاتے ہیں تو اس تجزیے کو ٹھیک مان کر چلیں تو بی جے پی کو اس کے موجودہ غلبہ کی حالت میں بھی 503سیٹوںمیں سے 235سیٹو ں سے کچھ زیادہ ہاتھ نہیں لگنے والا ہے اور اس وجہ سے بہار کی اہمیت بی جے پی کے لیے بہار کی سبھی 40سیٹوں پر کامیاب ہونا ضروری ہوگیا ہے۔ یا زیادہ ٹھیک ہوگا یہ کہنا اکثریت کے ہند سے پہنچنے کے لیے بی جے پی کو 40میں سے 37سیٹیں جیتی ہوں گی۔ پچھلی بار بی جے پی نے نتیش کمار اور آنجہانی رام ویلاس پاسوان کو ساتھ لے کر ایسا کر دکھا یا تھا۔ تب این ڈی اے نے ایک سیٹ کو چھوڑ کر باقی ساری سیٹیں جھٹک لی تھیں۔ بی جے پی کو 17سیٹیں ملی تھیں۔ 16 سیٹیں جنتا دل یو کے جھولی میں گئیں اور ایل جے پی کو 6سیٹیں ملی تھیں اتنی سیٹیں جیت پانا اس بار مشکل سا لگ رہا ہے اور نتیش کمار کے پالا بدلنے کے بعد تو اب یہ ناممکن ہوگیا ہے ۔ بی جے پی کے حق میں لہر چلانے کی جگہ اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہوا کا رخ الٹ کر آر جے ڈی ، جے ڈی یو کی قیادت والے مہا گٹھ بندھن کے حق میں ہوسکتا ہے۔اس اتحاد میں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں کے شامل ہونے کا امکان ہے۔
آئیے بہار کے انتخابی حساب کتاب زیادہ قریب سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
اگر لوک سبھا کے الیکشن تک نتیش اور تیجسوی کا اتحاد قائم رہتاہے تو بہت ممکن ہے کہ انتخابی مقابلہ مہا گٹھ بندھن (آر جے ڈی ، جے ڈی یو، کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیاں) اور این ڈی اے (بی جے پی ، ایل جے پی) کے درمیان ہو۔ ریاست میں اس قسم کے انتخابی مقابلے یا پھر آر جے ڈی ، جے ڈی یوبنام بی جے پی کی سیدھی کا امکان نظرنہیں آتا ہے لیکن حال ہی کے کچھ الیکشن پر نظر ڈالیں تو اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کسی پارٹی کی انتخابی طاقت کتنی ہے ۔ بی جے پی سب سے زیادہ ووٹ پانی والی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ اس کا اپنا ووٹ شیئر اسمبلی الیکشن میں 20فیصد تک اور لوک سبھا کے الیکشن میں 25فیصد تک رہا ہے۔ آر جے ڈی کا ووٹ شیئر پچھلے اسمبلی انتخابات میں 23فیصد کا رہا لیکن لوک سبھا الیکشن میں اس کے ووٹ بینک میں تھوڑی گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ جے ڈی یو کاووٹ شیئر اسمبلی اور لوک سبھا دونوں میں تقریباً 15فیصد رہا ہے۔ دیگر پارٹیوں کا ووٹ شیئر 10فیصد سے کم رہا ہے۔ جیسے کانگریس کا ووٹ فیصد 7سے 9کے درمیان ، کمیونسٹوں کا ووٹ فیصد 4سے 5فیصد اور ایل جے پی کا 6فیصد ۔
تو پھر ظاہر ہے کہ اس موٹے حساب کتاب کی بنیاد پر مانا جاسکتا ہے کہ مہا گٹھ بندھن کو 45فیصد کا ووٹ شیئر حاصل ہے اور این ڈ ی اے اپنی 35فیصد کا ووٹ شیئر کے ساتھ (یہ مانتے ہوئے کہ بی جے پی ، ایل جے پی اور کچھ دیگر پارٹیوں کو اپنی ساتھ جوڑیں گی۔) اس سے پیچھے ہی رہنے والا ہے۔ اگر ہم ان دونوں اتحادوں کے سماجی بنیادوں پر غور کریں تو دکھائی دے گا کہ انتخابی لڑائی اعلیٰ ذات بنام پسماندہ ذات ہونے جارہی ہے اور بہار جیسے صوبے میں اس کا ایک ہی نتیجہ نکلنے اورظاہر ہونے والا ہے۔ پچھڑوں کی دھماکہ خیز جیت ۔ اس کا مطلب کے انتخابی مقابلے میں بی جے پی خیمے پوری طرح اکھڑ جانا ہے۔ اگر بی جے پی کے خلاف پچھلے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کے مخالف اپنی وجو د کو بچانے کے لیے ترس گئے تھے تو اس بار بی جے پی کو بہار میں چند سیٹوں کے لیے بھی ترسنا پڑسکتا ہے۔
بی جے پی کے سامنے پہاڑ جیسی مشکل چنوتی
آئیے ذرا وسطی علاقوں میں بی جے پی کے انتخابی امکان کا جائزہ لیتے ہیں۔ جہاں سے 150سیٹیں ہاتھ لگنے کی بات اس سے پہلے کہی گئی ہے۔ یہ مان کر بی جے پی او راس کے ساتھیوں کو بہار میں 5اور ہاتھ لگنے والی ہے۔ اس پورے علاقے(یعنی وسطی علاقے) بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد گھٹ کر 88سے 65کے ہند سے پر آکر رک سکتی ہے۔ (یا پھر بی جے پی یااس کی حلیف پارٹیوں کو ایک ساتھ ملا کر دیکھیں تو ایک ڈرامائی گراوٹ کے ساتھ سیٹوں کی تعداد 130سے گھٹ کر 75پر آسکتی ہے۔
اب ذرا غور کیجئے کہ قومی منظرنامے پر کیا تصویر بنتی ہے۔ اگر اوپر میںجو اعدادوشمار بتائے گئے ہیں ان میں ذرا بھی کم لگے تو یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہے کہ بی جے پی کو ملنے جارہی کل سیٹوں کی تعداد 240 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ یعنی اکثریت کا ہند سہ (272سیٹ) اس سے دور ہی رہنے والا ہے۔ بہار میں ہونے جارہے 30 سیٹوں کے نقصان سے اتنا بڑا فرق پیدا ہوجائے گا۔
کیا این ڈی اے اتحاد اس گھاٹے کو پورا کرپائے گا؟ بات یہ ہے کہ این ڈی اے میں اب بس این ڈی اے کا نام ہی بچا ہے۔ اس کے اندر کچھ اور نہیں بچاہے۔ اکالی دل نکل چکا ہے۔ اے آئی اے ڈی ایم کے میں تقسیم ہوچکی ہے، شیو سینا کو تو خیراغوا ہی کرلیا گیا ہے اور اب جے ڈی یو کے نکل جانے سے این ڈی اے میں زیادہ کچھ نہیں بچا ہے۔ سوائے شمال مشرق کے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ۔ ان کے سہارے زیادہ سے زیادہ 10-15 سیٹیں ہاتھ لگ سکتی ہیں لیکن اتنی نہیں کہ بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ ساتھ ہی پارٹیوں کو ہضم کر جانے کی بی جے پی کی حکمت عملی ، خودکشی والے نتیجے آخر دکھائی دینے لگے ہیں۔
کامریڈ صاحب اب مسکرا رہے تھے ، پوپلے منھ پر اب مسکراہٹ صاف دکھائی دے رہی تھی۔ انہوںنے کہاکہ ہم تو پہلے ہی بتا رہے تھے۔ میں نے جلدی جلدی میں وضاحت پیش کی۔ میں کوئی انتخابی نتیجوں کی پیشن گوئی نہیں کررہا ہوں۔ جب الیکشن 22ماہ دور ہے ایسا کرنا بے وقوفی ہے۔ اس بنیادی قسم کے حساب کتاب سے اتنا پتہ چلتاہے کہ بہار میں اس بدلائو سے قومی سطح پر طاقت کا توازن کتنا متاثر ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کے جھانسے میں نہ آئیں ۔ سال 2024کے انتخابی مقابلے کا میدان ابھی بھی بی جے پی کے لیے بہت مشکل ثابت ہونے والا ہے۔ بی جے پی کو اکثریت کے ہندسے پہنچنے کے لیے بالا کوٹ جیسا کوئی کارنامہ انجام دینا ہوگا ۔ ہاں اپوزیشن خود ہی ایک کنارہ ہو کر بی جے پی کو راستہ دے دے تو یہ ایک الگ بات ہے۔
مضمون نگار سوراج انڈیا سوراج ابھیان کے بنیاد گذار اور رضاکار ہیں۔
نتیش کمار بدل سکتے ہیں 2024کے الیکشن کا رخ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS