امرت مہوتسو اور مسلم مجاہدین آزادی

0

ڈاکٹر سید احمد قادری

ملک کی آزادی کو 75 سال ہو گئے، جو ہم تمام ہندوستانیوں کے لیے باعث فخر ہے ۔ اس جشن آزادی کو حکومت ہند نے ’ امرت مہو تسو ‘ کا نام دیا ہے ۔ اس جشن پر حکومت ہندکی جانب سے ’ہر گھر ترنگا‘ کی مہم چلائی گئی ہے۔ حالانکہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے خاص موقع پر ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سبھی فخر کے ساتھ ملک کا پرچم اپنے مکانوں، دوکانوں پر لہراتے ہیں۔ یہ عمل کسی کے کہنے یا مہم کے تحت نہیں ہوتا آیا ہے ۔ بلا شبہ بیگم ثریا طیب کا ڈیزائن کردہ یہ قومی پرچم امن اتحاد، ہم آہنگی، یکجہتی اور قومی اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ امرت مہوتسو کے اس جشن پر ’گھر گھر ترنگا‘ مہم اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ جن لوگوں نے اس قومی پرچم کی اہمیت اور تقدس کو 52 برسوں تک نہیں سمجھا، وہ بھی اس مہم میں پیش پیش ہیں۔ آزادی کے 75 سال کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کم نہیں ہیں۔ اسی ملک کے ایک بادشاہ شیر شاہ نے صرف پانچ سال کی مدت میں ملک کی ایسی کایا پلٹی تھی کہ آج بھی ان کے بنا ئے نشانات پر ہم آگے بڑھ رہے ہیں، اس لیے بہتر ہوتا اگر اس آزادیٔ ہند کے جشن پر محاسبہ کرتے کہ اتنے برسوں میںہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ ملک کی آزادی کے لیے جن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں، انہیں یاد کیا جاتا تاکہ نئی نسل اور آنے والی نسل کے دلوں میں حب الوطنی کے احساسات و جذبات میں اضافہ ہوتا لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت ہر ایسے موقع کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے اور گزشتہ چند برسوں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ آزادی میں مسلمانان ہند کی قربانیاں شامل نہیں ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ آزادیٔ ہند کے اس جشن پر تاریخ کے ان اوراق کوپلٹا جائے جنہیں مسلم مجاہدین آزادی نے اپنے خون جگر سے لکھا ہے۔
ہندوستان پر زبردستی قابض ہونے والے اور ہندوستانیوں کو اپنا غلام بنانے والے انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور قربانیوںکومنصوبہ بند طور پر فراموش کرنے کی کوششیںکی جاری ہیں اور جنگ آزادی کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ نصاب سے جنگ آزادی کے ایسے رہنماؤں کو خارج کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ملک کو انگریزوں کے ناپاک چنگل سے آزاد کرانے میں مسلمانوں کی جو قربانیاں رہی ہیں ،وہ ملک کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ ایسی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں کامیاب ہونا مشکل ہے کہ مسلمانان ہند کے لہو سے لکھی گئی یہ تاریخ ملک اور بیرون ممالک کی لائبریریوں اور آرکائیو میں موجود ہیں۔ ہاں! ملک کے نصاب سے جنگ آزادی کے ایسے رہنماؤں کو خارج کر کے معصوم بچوں کے معصوم ذہن کو ضرور پراگندہ کیا جا سکتا ہے۔
اس امر سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے اور جاننے والے بھی بخوبی واقف ہیں کہ آزادیٔ ہند کے لیے ملک کے مسلمانوں نے کیسی کیسی قربانیاں دی ہیں۔ ہم اس بات سے بھی قطعی انکار نہیں کر سکتے کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے اہل وطن کی بھی قربانیاں رہی ہیں لیکن جنگ آزادی کی بھرپور اور غیر متعصبانہ تحقیق کی جائے تو یہ بات پوری طرح عیاں ہو جائے گی کہ مسلمانوں کی قربانیاں ان کے مقابلے کہیں زیادہ رہی ہیں۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ جس وقت ملک پر انگریزوں نے اپنا تسلط قائم کیا تھا، اس وقت اس ملک میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی جنہیں بتدریج بے دست و پا کر کے انگریزوں نے ملک پر ناجائز اور ناپاک قبضہ کیا تھا، اس لیے انگریزوں کی نگاہ میں یہاں کے مسلمان ہی ان کے لیے سب سے بڑے دشمن تھے ۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ 1857 کی بغاوت باضا بطہ انگریز حکمرانوں کے خلاف پہلی کھلم کھلا بغاوت تھی۔ گرچہ بظاہر یہ بغاوت ناکام ہوئی اور اس بغاوت کی پاداش میں اس وقت 106 مسلمانوں کو پھانسی دی گئی تھی،29 مسلم مجاہد آزادی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن اس بغاوت کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ انگریز حکمرانوں کے ظلم واستبداد اور بے رحمانہ سلوک سے جو خوف ہندوستانیوں پر غالب تھا، وہ کسی حد تک دور ہوا تھا اور حکومت برطانیہ سے نجات کی کوششوں میں تیزی آتی گئی۔ اس بغاوت کے( بظاہر) اثرات کے کم ہو جانے کے بعدجب دلی شہر کے شہریوں نے واپس آنا شروع کیا، تو اس وقت ان شہریوں میں ہندوؤں کو واپس آنے کی پہلے اجازت دی گئی اور ان کے بعد مسلمانوں کو 18 اپریل 1858 کو اپنے شہر واپس آنے کا حکم دیا گیا تھا اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اپنی جائیداد کا 25 فیصد ٹیکس انگریز حکومت کو ادا کرنا ہوگا۔ اس طرح کے کئی ایسے واقعات سامنے آئے ، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ حکومت برطانیہ کی نگاہ میں سب سے بڑے اور سامنے کے دشمن بھارت کے مسلمان ہی تھے۔ یہی وجہ تھی انگریزوں کے ہمیشہ خاص نشانہ بھارت کے مسلمان ہی رہے۔ ان پر ظلم و زیادتی کی انتہا ہوتی رہی۔ انہیں کبھی توپ کے دہانے سے باندھ کر اڑایا گیا اور کبھی سیکڑوں کی تعداد میں علما اور مسلم مجاہدین آزادی کو انگریزوںکے حکم عدولی پر پھانسی پر لٹکایا گیا ۔
مسلم مجاہدین آزادی کے ایسے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ 1857 کے انقلاب کے بعد آزادی کے متوالوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا اور 1921 میں احمدآباد کانفرنس میں یہ حسرت موہانی ہی تھے ، جنہوں نے ’ مکمل آزادی‘کی پہلی بار تجویز رکھی تھی، جسے شد و مد کے ساتھ موتی لعل نہرو، مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو نے 1929 میں آخر کار مان لیا تھا۔ یہ حسرت موہانی ہی تھے، جنہوں نے 1940 میں کانپور میں مزدوروں کے ایک جلوس کی رہنمائی کرتے ہوئے پہلی بار ’ انقلاب زندہ باد ‘ کا نعرہ دیا تھا۔ آج ہم بڑے فخرسے ملک کے لیے سرفروشی کی تمنا کی بات کرتے ہیں اور ’سرفروشی تمنا اب ہمارے دل میں ہے؍ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘ سنا سنا کر مجاہدین آزادی کے دلوں میں ملک کے لیے محبت اور سرشاری کا جذبہ جگانے کے لیے جھوم جھوم کر ایسے اشعار سنایا کرتے تھے۔ اس کے خالق بسمل عظیم آبادی تھے۔ اپنے ملک سے اپنی محبت اور وابستگی کے جذبے کے اظہار کے لیے لوگوں کی زبان پر ’جے ہند ‘ جیسے الفاظ آزاد ہند فوج سے تعلق رکھنے والے عابد حسین صفرانی کے ہی دیے ہوئے ہیں۔ اسپیس سے راکیش شرما کو ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘کہنے کا حوصلہ علامہ اقبالؔ نے دیا تھا ۔
ملک کے لیے انگریزوں کے قہر و بربریت کا شکار ہونے والے ، ہنستے ہنستے دار پر چڑھنے والے، جیل کی اندھیری کوٹھریوں کو آباد کرنے والے، اپنے جسم و دل پر زخموں کا پھول سجانے والے ایسے مسلم مجاہدین آزادی سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ ایسے مجاہدین آزادی پر ایک اچٹتی سی بھی نظر ڈالیں تو ہمیں بے اختیار ٹیپوسلطان، حیدر علی خاں، عظیم اللہ خاں، بدرالدین طیب جی، رحمت اللہ ایم سیانی، پیر علی، شیخ بھکاری ، شیخ محمد گلاب، بی اماں، شوکت علی، محمد علی، محمد علی جوہر، شیر علی، مولانا منصور انصاری، محمد اشفاق اللہ خاں، پروفیسر عبدالباری، سیف الدین کچلو، مولانا حفظ الرحمن، محمد سلیمان انصاری، خالد سیف اللہ انصاری، شفیق الرحمن قدوائی، حکیم اجمل خاں، حضرت محل، قاضی محمد حسین، مظہر الحق،مختار احمد انصاری، آصف علی،حاجی بیگم، مولانا عبد الرحیم صادقپوری، مولانا احمد اللہ صادقپوری، دلاور خاں، سر سید سلطان احمد، محمد یونس،ڈاکٹر سید محمود، ابو محمد ابراہیم آروی، شاہ محمد زبیر، مغفور احمد اعجازی، سر سید محمد فخرالدین، سر علی امام، کرنل محبوب احمد، پیر محمد یونس،وارث علی، مولانا ابولکلام آزاد، رفیع احمد قدوائی،مولوی محمدجعفر،مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا یحییٰ،عبیداللہ سندھی، عطااللہ شاہ بخاری،مولوی عبدالغنی ڈاروغیرہ جیسے سیکڑوں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے مسلم مجاہدین آزادی کے نام ہیں، جنہوں نے نہ صرف 1857 کی بغاوت میں بلکہ نمک ستیہ گرہ تحریک، ہندوستان چھوڑو تحریک، کاکوری کیس، قصہ خوانی بازار میں، جلیان والا باغ کے خونیں واقعے،ناگپور جھنڈا تحریک وغیرہ میں اپنے ایثار و قربانی سے حب الوطنی کی ایسی مثالیں پیش کی ہیںکہ حقیقت پسند اور سیکولرانگریز تاریخ داں بھی مسلمانان ہند کی قربانیوںکا اعتراف کر چکے ہیں اور کرتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق ان خونیں سانحات کے گواہ ہیں کہ تقریباً 65 فیصد مسلم مجاہدین آزادی نے ملک کو انگریزوں کی غلامی کی طوق سے نجات دلانے میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسلم مجاہدین آزادی کی تفصیلات میں سے اگر میں ان کے متعلق دو دو جملے بھی لکھوں، تو مجھے یقین ہے کہ کئی ہزار صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی لیکن ایسا اہم تاریخی کام کوئی تن تنہا نہیں کر سکتا ۔ ہاں! ریاستی سطح پر یہ کام ہو سکتا ہے اور ہر ریاست کے ادیب اور دانشور خا ص طور پر تحقیق اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اپنی اپنی ریاست کی تاریخ آزادی ٔ ہند میں مسلمانوں کے رول پر مبنی کتابوں کو شائع کر اپنی شاندار اور سنہری تاریخ کو کسی حد تک محفوظ کر سکتے ہیں ۔
ان دنوںاپنے ملک میں جس طرح کا متعصبانہ رویہ مسلمانوں کے تئیں اپنایا گیا ہے اورمسلمانوں کی شاندار تاریخ کو منصوبہ بند اور منظم طریقے سے مسخ کر نئی تاریخ لکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اس کے لیے جیسے جیسے متعصب تاریخ دانوں کے نام سامنے آ رہے ہیں، وہ ظاہر ہے ملک کے حقائق پر مبنی شاندار تاریخ کو مسخ کرکے اپنے زعفرانی منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے ایسی تاریخ مرتب کر رہے ہیں، جو ہر حال میں ’مسلم مکت‘ تاریخ ہوگی۔ فرقہ پرستوں کی جانب سے ایسی کوششیں پہلے بھی ہوئی ہیں لیکن ایسا کرنے میں انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی تھی، اس لیے کہ اس وقت تاریخ دانوں اور دانشوروں میں سیکولرازم کے عنصر موجود تھے اور کمیونلزم عام نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اسے سرکاری سرپرستی حاصل تھی لیکن اب وقت اور حالات کمیونلزم کے موافق اور سیکولرازم کی مخالفت میںہیں، اس لیے ایسے لوگ اب اپنے زعفرانی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کسی حد تک کامیاب ہو رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت عرفان حبیب، رام شرن شرما، وشمبھر ناتھ پانڈے، بپن چندرا، رومیلا تھاپڑ، دیوجیندر نرائن جھا، رام چندرگوہا، برون ڈے،اے جی نورانی اورستیش چندرا وغیرہ جیسے سیکولر اور دانشورانہ شان و صلاحیتوں والے تاریخ داں جو ان متعصب اور جھوٹ پر مبنی تاریخ کو کالعدم قرار دے سکتے تھے، ان تاریخ دانوں میں سے کچھ گزر گئے جو چند بچے ہیں، وہ موجودہ حکومت کی سینہ زوری کو دیکھ کر خوف و ہراس میں ڈوبے خاموش بیٹھ گئے ہیں کہ وہ کلبرگی، دابھولکر، پنسارے، گوری لنکیش وغیرہ کا حشردیکھ چکے ہیں ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی پیمانے پر تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے مصنّفین اپنی اپنی ریاستوں کی پوری تاریخ تحقیقی حوالوں کے ساتھ لکھیں اور شائع کرائیں۔ اس وقت اگر ہم نے ان تاریخی فرائض اور ذمہ داریوںسے کوتاہی کی تو یقین جانیں کہ ’ہماری داستان تک نہ ہوگی تاریخ ہندمیں ‘ ۔n
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS