دین کا ناقص تصور و عمل ہی پریشانیوں کا سبب

0

عبد العزیز

کسی بھی چیز کا ناقص اور مکمل تصور نہ کبھی نتیجہ خیز ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے ساری انسانوں کے لئے نجات دہندہ ہے لیکن دین اسلام کا نا مکمل اور ناقص تصوراور عمل نہ نجات دہندہ ہے اور نہ نتیجہ خیز ہے۔اسلام کے بارے میں غیر مسلم تو غیر مسلم مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اسلام ایک مذہب ہے لیکن اسلام مذہب نہیں دین ہے۔ ایک مکمل ضابطۂ حیات اور ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ مسلمانوں کے زیادہ تر داعی اور زیادہ تر تنظیمیں نا مکمل دین کو پیش کررہی ہیں۔جس کی وجہ سے نہ ان کو کوئی فائدہ مل رہا ہے اور نہ دنیا ہم سے فیض یاب ہو رہی ہے۔مسلمانوں کے اندر زیادہ تر جو موضوعِ بحث ہے وہ عبادت پر ہے۔ دوسرے تمام اجزاء بد قسمتی سے نہ محض نظروں سے اوجھل ہیں بلکہ دائرۂ عمل سے بھی بہت حد تک باہر ہیں۔بیسویں صدی کے ایک عظیم مفکر’ داعی اسلام اور تحریک اسلامی کے قائد صاحبِ تفہیم القرآن ‘اسلام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’ اسلام محض ایک عقیدہ نہیں ہے نہ وہ چند ’’مذہبی‘‘ اعمال اور رسموں کا مجموعہ ہے بلکہ وہ انسان کی پوری زندگی کے لئے ایک مفصل اسکیم ہے۔ ہمیں عقائد، عبادات اور عملی زندگی کے اصول و اقواعد الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ سب مل کر ایک ناقابل تقسیم مجموعہ بناتے ہیں جس کے اجزاء کاباہمی ربط بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک زندہ جسم کے اعضا میں ہوتا ہے۔آپ کسی زندہ آدمی کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں، آنکھیں اور کان اور زبان جدا کر دیں، معدہ اور جگر نکال دیں، پھیپھڑے اور گُردے الگ کریں، دماغ بھی پورا یا کم و بیش کاسۂ سر سے خارج کردیں اور بس ایک دل اس کے سینے میں رہنے دیں ۔ کیا یہ باقی ماندہ حصہ ٔ جسم زندہ رہ سکے گا؟ اور اگر زندہ بھی رہے تو کیا وہ کسی کام کا ہوگا؟
ایسا ہی حال اسلام کا بھی ہے، عقائدا س کا قلب ہیں وہ طریقِ فکر(Atitude of Mind) نظریۂ حیات (View of Life) مقصدِ زندگی اور معیار، زندگی (Standard of values) جو ان عقائد سے پیدا ہوتا ہے اس کا دماغ ہے، عبادت اس کے جوارح اور قوائم ہیں جس کے بل پر وہ کھڑا ہوتا ہے اور کام کرتا ہے، معیشت ، معاشرت، سیاست اور نظمِ اجتماعی کے تمام وہ اصول جو زندگی کے لئے اسلام نے پیش کئے ہیں وہ اس کے لئے معدے اور جگر اور دوسرے اعضائے رئیسہ کا حکم رکھتے ہیں۔ اس کو صحیح و سالم آنکھوں اور بے عیب کاموں کی ضرورت ہے تا کہ وہ زمانے کے احوال و ظروف کی ٹھیک ٹھیک رپورٹیں دماغ تک پہنچائیں اور دماغ ان کے متعلق… صحیح حکم لگائے، اس کو اپنے قابو کی زبان درکار ہے تا کہ وہ اپنے خودی کا کماحقہ اظہار کر سکے، اس کو پاک صاف فضا کی حاجت ہے جس میں وہ سانس لے سکے، اس کو طیب و طاہر غذا مطلوب ہے جو اس کے معدے سے مناسبت رکھتی ہو اور اچھا خون بنا سکے۔ اس پورے نظام میں اگرچہ قلب (یعنی عقیدہ) بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مگر اس کی اہمیت اسی لئے تو ہے کہ وہ اعضا و جوارح کو زندگی کی طاقت بخشتا ہے۔ جب اکثر و بیشتر اعضا کٹ جائیں، جسم سے خارج کر دیئے جائیں یا خراب ہوجائیں تو اکیلا قلب تھوڑے بہت بچے کھچے خستہ و بیمار اعضاء کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ اگر زندہ بھی رہے تو اس زندگی کی کیا وقعت ہو سکتی ہے؟‘‘
ہماری عبادتوں کا جو حال ہے اس سے ہم کماحقہ واقف ہیں۔ عبادت محض پوجا پاٹ نہیں ہے بلکہ اللہ رب العالمین کی ہر معاملے میں اطاعت اور بندگی ہے۔ عبادتوں میں نماز، اصلاح کا سب سے کارگر ذریعہ ہے لیکن اگر نماز پڑھنے والے کو حرام اور حلال کی تمیز نہیں ہے تو نہ اس کی نماز اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قبول ہوتی ہے اور نہ دعا قابلِ قبول ہوتی ہے۔ دعا کے بارے میں یہ بات سچ ہے کہ’’دعا ہی عبادت ہے‘‘،’’ دعا ہی مومن کا ہتھیار ہے‘‘۔اور’’اللہ تعالیٰ کو دعاسے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے لیکن کوئی شخص حرام کھاتا ہے‘ حرام پہنتا ہے‘ حرام پیتا ہے تو اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔‘‘ دعا کے لطف سے صحیح معنوں میں وہی انسان آشنا ہو سکتا ہے جب وہ اپنے اوپر وہی کیفیت طاری کرلے جسے شاہ ولی اللہ ؒ نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:’’ دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والی ہر قوت و حرکت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھے اور اس کی قدرت و عظمت کے مقابلہ میں اپنے آپ کو اس طرح بے کس اور بے حس سمجھے جس طرح مردہ غسال کے ہاتھوں میں یا بے جان صورتیں حرکت دینے والے کے قبضے میں(مجبور محض) ہوتی ہیں اور پھر اس کیفیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مناجات اور سر گوشی کی لذت اسے حاصل ہو۔‘‘
توبہ و استغفار سے انسان کی پریشانیاں دور ہوتی ہیں مگر’’ سچی توبہ سے، خالص توبہ سے‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں فر ما دیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔’’آدمی ایسی خالص توبہ کرے جس میں ریاء اور نفاق کا شائبہ تک نہ ہو، یا یہ کہ آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ خود سپرگی کرے اور گناہ سے توبہ کر کے اپنے آپ کو بدانجامی سے بچالے، یا یہ کہ گناہ سے اس کے دین میں جو شگاف پڑ گیا ہے ، توبہ کے ذریعہ سے اس کی اصلاح کردے۔ یا یہ کہ توبہ کر کے وہ اپنی زندگی کو اتنا سنوار لے کہ دوسروں کے لئے وہ نصیحت کا موجب ہو اور اس کی مثال کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسی کی طرح اپنی اصلاح کرلیں۔ یہ تو ہیں توبتہ النصوح کے وہ مفہومات جو اس کے لغوی معنوں سے مترشح ہوتے ہیں۔ ریا اس کا شرعی مفہوم تو اس کی تشریح ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم زریںحُبیش کے واسطے سے نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے توبتہ النصوح کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہی سوال کیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہوجائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔‘‘ یہی مطلب حضرت عمرؓ، حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود اور حضرت عبد اللہؓ بن عباس سے بھی منقول ہے، اور ایک روایت میں حضرتت عمرؓ نے توبتہ النصوح کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی گناہ کا اعادہ تو درکنار، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے(ابن جریر)۔ حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ ایک بدّو کوجلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ توبتہ ا لکذابین ہے۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے؟ فرمایا، اس کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہئیں (۱) جو کچھ ہو چکا ہے اس پر نام ہو۔(۲) اپنے جن فرائض سے غفلت ہوتو ان کو ادا کر، (۳) جس کاحق مارا ہو اس کو واپس کر،(۴) جس کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معافی مانگ(۵) آئندہ کے لئے عزم کرلے کہ اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا اور (۶) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھلا دے جس طرح تو نے اب تک اسے معصیت کا خوگر بنا ئے رکھا اور اس کو طاعت کی تلخی کا مزا چکھا جس طرح اب تک تو اسے معصیتوں کی حلاوت کا مزا چکھا تا رہا ہے۔(کشاف)

 

 

 

توبہ کے سلسلہ میں چند امور اور بھی ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے، اول یہ کہ توبہ در حقیقت کسی معصیت پر اسی لئے نادم ہونا ہے کہ وہ اللہ کی نا فرمانی ہے۔ ورنہ کسی گناہ سے اس لئے پر ہیز کا عہد کرلینا کہ وہ مثلاً صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ یا کسی بد نامی کا، یا مالی نقصان کا موجب ہے ، تو بہ کی تعریف میں نہیں آتا۔ دوسرے یہ کہ جس وقت آدمی کو احساس ہوجائے کہ اس سے اللہ کی نا فرمانی ہوئی ہے۔ اسی وقت اسے توبہ کرنی چاہئے اور جس شکل میں بھی ممکن ہو بلا تاخیر اس کی تلافی کر دینی چاہئے، اسے ٹالنا مناسب نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ توبہ کر کے بار بار اسے توڑتے چلے جانا اور توجہ کو کھیل بنا لینا اور اسی گناہ کا بار بار اعادہ کرنا جس سے توبہ کی گئی ہو، توبہ کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے کیونکہ توبہ کی اصل روح گناہ پر شرمساری ہے اور بار بار کی توبہ شکنی اس بات کی علامت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شرمساری موجود نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ جو شخص سچے دل سے توبہ کر کے یہ عزم کر چکا ہو کہ پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا، اس سے اگربشری کمزوری کی بناء پر اسی گناہ کا اعادہ ہو جائے تو پچھلا گناہ تازہ نہ ہوگا، البتہ اسے بعد والے گناہ پر پھر توبہ کرنی چاپئے اور زیادہ سختی کے ساتھ عزم کرنا چاہئے کہ آئندہ وہ توبہ شکنی کا مرتکب نہ ہو۔ پانچویں یہ کہ ہر مرتبہ جب معصیت یاد آئے، تو بہ کی تجدید کرنا لازم نہیں ہے، لیکن اگر اس کا نفس اپنی سابق گناہ گارانہ زندگی کی یاد سے لطف لے رہا ہو تو بار بار توبہ کرنی چاہئے یہاں تک کہ گناہوں کی یاد اس کے لئے لذت کے بجائے شرمساری کی موجب بن جائے۔ اس لئے کہ جس شخص نے فی الواقع خدا کے خوف کی بنا پر معصیت سے توبہ کی ہو وہ اس خیال سے لذت نہیں لے سکتا کہ وہ خدا کی نا فرمانی کرتا رہا ہے، اس سے لذت لینا اس بات کی علامت ہے کہ خداکے خوف نے اس کے دل میں جڑ نہیں پکڑی ہے۔‘‘

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS