محمد حنیف خان
ہمارا ملک ہر طرح کی دولت سے مالامال ہے، زمین کے اوپر اگر انفرااسٹرکچر کا وسیع جال ہے تو زیر زمین قدرت کے وہ خزینے ہیں جو ہماری ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، افرادی قوت سے بھی یہ ملک مالامال ہے، جس کا بیشتر حصہ اپنے ہاتھ کی محنت سے زمین کا سینہ چیر کر اناج اگاتاہے تاکہ اپنے ملک کے ساتھ ہی وہ دنیا کی بھی بھوک مٹا سکے۔ اناج کی درآمدات میں ہندوستان سرفہرست ممالک میں شامل ہے، اس کے باوجود ہندوستان آج بھی بھوکا ہے، بھوکے پیٹ سونے والوں کی تعداد آج بھی ہندوستان میں دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر ہر طرح کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود بھوکے پیٹ سونے والوں اور بھیک مانگنے والوں کی تعداد ہندوستان میں زیادہ کیوں ہے؟ تو اس کا تجزیہ دو طرح سے کیا جاسکتاہے، اول عوام کی سطح پر کہ وہ محنتی ہیں یا کام چور ہیں، دوسرے حکومت کی سطح پر کہ کیا وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے یا نہیں؟ ان دونوں سطحوں پر جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عوام اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لے رہے ہیں اگر ایسا ہوتا تو 7 لاکھ عہدوں کے مقابلے دو کروڑ سے زائد افراد درخواست گزاری نہ کرتے۔یہ دوکروڑ لوگ جنہوں نے حکومت کے سامنے درخواستیں دی ہیں کہ ان کو ملازمت کی ضرورت ہے، انہوں نے ان عہدوں کے قابل بننے کے لیے کم سے کم اپنی عمر عزیز کے20سے25برس ضرور صرف کیے ہوں گے، ایسے میں بھلا عوام کو مورد الزام کیسے ٹھہرایا جا سکتاہے؟ اس کے باوجود حکمرانی کرنے والے افراد اس طرح کے بیان دیتے ہیں کہ عہدوں کے لیے قابل لوگوں کی کمی ہے تو ایسا لگتاہے جیسے وہ کام تلاش کرنے والے ہاتھوں کی توہین کررہے ہیں اور حقیقت میں اس طرح کے بیانات توہین ہی ہیں۔ ایک طرف عوام دن رات محنت کرتے ہیں تاکہ ملک ترقی کی نئی عبارت لکھے تو دوسری طرف وہ افراد جو مختلف حربوں اور سیاسی داؤں پیچ سے اقتدار تک پہنچتے ہیں وہ نہ صرف ان کا منھ چڑاتے ہیں بلکہ عوام کی املاک کی نوچ کھسوٹ کرکے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کرتے ہیں، ان کی بے شرمی کا عالم یہ ہوتاہے کہ غریب عوام کی گاڑھی کمائی کو یہ بیرون ملک بھیج دیتے ہیں۔وہ پارٹی جو بیرون ملک جمع ملک کی رقم واپس لانے کا عزم رکھتی تھی، اس کے دور اقتدار میں اس سیاہ دولت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور گزشتہ آٹھ برسوں میں وہ وعدے سے آگے ذرا بھی پیش رفت نہیں کرسکی ہے اور اب تو کوئی اس سیاہ دولت کی واپسی کا نام بھی نہیں لینا چاہتاہے۔ایسے ملک کے عوام ننگے بھوکے نہیں رہیں گے تو کیا کریں گے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک میں سب کچھ ہے مگر روٹی نہیں ہے کیونکہ وہ ہاتھ جن کو کام کرنا چاہیے تھا، خالی پڑے ہیں۔ ان کی برسوں کی محنت و ریاضت(تعلیم) کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے۔ حکومت نے اسٹارٹ اپ اور کسانوں کی آمدنیوں کو دوگنا کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ وعدہ بھی حقیقت میں تبدیل نہیں ہوسکا۔ اسٹارٹ اپ کے لیے بینکوں سے رقم ملنا جوئے شیر لانا ہے اور کسانوں کی پیداوار کی ایم ایس پی سے وہ صرفے بھی پورے نہیں ہوتے جو زراعت پر ہوتے ہیں، ایسے میں عوام کے ہاتھ اور پیٹ دونوں کا خالی رہنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
حکومت کی اہم ذمہ داریوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے میں امن و امان کے قیام کے ساتھ ہر ہاتھ کو کام دے۔کیونکہ جس معاشرے میں بے روزگاری ہوتی ہے، اس میں امن و امان نہیں رہ سکتا، چوری چکاری اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ اس وقت مرکز میں گزشتہ آٹھ برسوں سے وہ پارٹی اقتدار میں ہے جو بدعنوانی کے خاتمہ اور ملازمت کے نام پر اقتدار میں آئی تھی۔حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر برس دو کروڑ نوکریاں دے گی مگر اس کے برخلاف اس نے ہر برس صرف دو لاکھ نوکریاں دی ہیں جو وعدے کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں بتایاہے کہ 2014 سے 2022 تک مختلف محکموں میں7لاکھ 22 ہزار 331 لوگوں کو نوکریاں دی گئی ہیں جبکہ22کروڑ 5 لاکھ 99 ہزار افراد نے ان عہدوں کے لیے درخواستیں دی تھیں۔ حکومت نے سال درسال درخواستیں دینے والوں کی تفصیلات بھی پارلیمنٹ میں پیش کی ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ اس نے 2018 اور 2019 میں محض 38100 افراد کو ملازمت دی جبکہ اسی برس 5 کروڑ 9 لاکھ 36ہزار 479 افراد نے درخواستیں دی تھیں۔ 2019 اور 2020 میں سب سے زیادہ147096افراد کو ملازمت ملی۔دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ صرف مرکزی حکومت میں30لاکھ سے زائد عہدے خالی پڑے ہیں مگر وہ ان عہدوں پر بھرتی اس لیے نہیں کرنا چاہتی ہے کیونکہ اس کا منصوبہ نوکری دینے کے بجائے ان اداروں کی نجکاری کرنے کا ہے۔سرکاری اداروں کو ذاتی ہاتھوں میں دینے کا حامی سرکار کے علاوہ کوئی نہیں ہے کیونکہ آج بھی نوجوان پنشن نہ ہونے کے باوجود سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتاہے۔
بین الاقوامی ادارہ سینٹر فار اکنامک ڈاٹااینڈ اینالیسس کی ایک رپورٹ کے مطابق2020میں ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح7.11ہوگئی تھی۔ممبئی میں واقع سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی این آئی ای) کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سے اب تک ملک میں بے روزگاری کی شرح7 فیصد سے اوپر بنی ہوئی ہے۔ خود حکومت ہند کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کووڈ-19کی پہلی لہر2020میں 1.45کروڑ افراد نے اپنی ملازمتیں گنوائیں، دوسری لہر میں 52 لاکھ اور تیسری لہر میں 8 لاکھ افراد کے ہاتھوں سے کام چھوٹ گیا۔ ان حالات میں بھی اگر حکومت نجکاری کی طرف توجہ دے رہی ہے تو اسے بے حسی ہی کہا جائے گا۔2024 تک محض دس لاکھ لوگوں کو ملازمت دینے کا حکومت نے عزم ظاہر کیا ہے جبکہ مرکز میں اسی حکمراں پارٹی نے ہر برس دو کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا۔ ان دس لاکھ نوکریوں میں 90 فیصد گروپ سی کے عہدے ہیں جس میں کلرک، چپراسی اور نیم ماہر ملازمین کا شمار ہوتاہے۔یہ کوئی اٰعلی سطح کی ملازمتیں نہیں ہیں جن کا حکومت نے اعلان کیا ہے، ان عہدوں پر40ہزار روپے تک ہی تنخواہیں ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2.77 لاکھ عہدے محکمہ دفاع(سول) میں خالی ہیں، ریلوے میں2 37لاکھ، محکمہ داخلہ میں 1.28 لاکھ، ڈاک میں 90050 اور محکمہ محصول میں 76327 لاکھ عہدے خالی ہیں۔
ایک طرف حکومت عوام کو سرسبز و شادابی دکھاتی ہے اور دوسری طرف وہ ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنے کے بجائے جو عہدے خالی ہیں ان پر بھی بھرتی نہیں کررہی ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے اور یہی مایوس نوجوان اس ملک کا مستقبل ہیں، جس ملک کا حال مایوس کن ہو، اس کا مستقبل کتنا خوفناک ہوگا، سیاستدانوں اور حکمرانوں کو اس کی فکر نہیں ہے، ان کو فکر صرف ان حربوں اور سیاسی داؤں پیچ کی ہے جن کے ذریعہ وہ عہدوں پر یاتو بنے رہنا چاہتے ہیں یا پھر ان کا حصول چاہتے ہیں، سیاست دانوں کی ساری تگ و دو بس یہیں تک محدود ہے باقی عوام کس عالم میں جی رہے ہیں، اس کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔شمسی مینائی نے ملک اور عوام کی اس حالت زار پر ایک نظم کہی جس کا مصرع آج بھی ملک، عوام اور یہاں کے سیاستدانوں پر صادق آرہاہے۔
سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو، لنگوٹی نہیں تو کیا
آج عوام زہریلی سیاست کا اس طرح شکار ہوچکے ہیں کہ ان کو اب روٹی کی فکر نہیں رہی بلکہ وہ مذہب کے جام میں مدہوش ہیں اور لنگوٹی کی جگہ ان کے جسم پر وہ وعدے لپٹے ہوئے ہیں جو سیاستداں ان سے ہر الیکشن میں کرتے ہیں اور ووٹ لے کر اقتدار کے مزے لیتے ہیں۔
[email protected]