آصف تنویر تیمی
نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک باجماعت نماز ادا کرتے رہے جب تک مسجد آنے جانے کی جسمانی قوت باقی رہی۔آپ نے مسجد میں آخری نماز ظہر کی پڑھی۔ اس کے بعد نقاہت بڑھنے کی وجہ سے مسجد میں نہ آسکے۔ آپ کی جگہ ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کو نماز پڑھاتے رہے۔جمعرات سے لیکر اتوار تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیمار رہے۔پیر کا دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری دن تھا۔ اس دن آپ کی وفات ہوئی۔ اسی دن فجر کی نماز کے وقت آپ نے اپنے حجرہ کا پردہ ہٹایا، اور الوداعی نگاہ صحابہ کرام پر ڈالی۔ اس کی منظر کشی انس رضی اللہ عنہ نے کی ہے،فرماتے ہیں:’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ کا پردہ ہٹاکر کھڑے ہوئے، ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ(حسن وجمال اور صفائی میں) گویا مصحف کا ورق تھا۔ آپ مسکرا کر ہنسے لگے۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہوگیا کہ کہیں ہم سب آپ کو دیکھنے میں نہ مشغول ہوجائیں اور نماز توڑدیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے تشریف لارہے ہیں، لیکن آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کرلو۔ پھر آپ نے پردہ ڈال دیا۔اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی‘‘۔(صحیح بخاری:۶۸۰)
یقینا نماز آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے لوگوں بالخصوص اپنے صحابہ کو آخری بار حالت نماز میں دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی ہوگی اس کا صحیح اندازہ لگاپانا مشکل ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ اس منظر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زندگی کے آخری مرحلے میں نماز کی حالت میں دیکھنا اس بات کا پیغام تھا کہ نماز سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔اور نماز سے زیادہ کوئی عمل قابل رشک وستائش نہیں۔ علی رضی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری گفتگو بھی نماز سے متعلق تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نماز!نماز! اور اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا‘‘۔(سنن ابو داود: ۵۱۵۶)آخری وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے لوگوں کو نماز کے بارے میں تاکید کرنا یقینا نماز کی اہمیت اور اس کے مقام کو ظاہر کرتا ہے۔نماز کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اس کی فرضیت کے وقت اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنے پاس بلایا،اور بلا واسطہ آپ پر نماز فرض کی گئی۔ حالانکہ دیگر فرائض وواجبات کی فرضیت جبریل علیہ السلام کے واسطے سے بذریعہ وحی ہوئی۔ نماز کی فرضیت کے وقت معراج کا تاریخی واقعہ رونما ہوا۔ اس مناسبت سے اللہ تعالی نے شرو ع میں پچاس وقتوں کی نماز فرض کی لیکن بعد میں تخفیف کرکے پانچ وقتوں کی برقرار رکھی گئی۔ جو تعداد کے اعتبار سے تو پانچ وقتوں کی ہے لیکن اجر وثواب کے لحاظ سے پچاس وقتوں کے برابر ہے۔نماز کی اہمیت سے متعلق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’ جو یہ چاہے کہ کل(قیامت کے دن) اللہ سے مسلمان کی حیثیت سے ملے تو وہ جہاں سے ان(نمازوں) کے لئے بلایا جائے، ان نمازوں کی حفاظت کرے( وہاں مساجد میں جاکر صحیح طرح سے انہیں ادا کرے) کیوں کہ اللہ تعالی نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لئے ہدایت کے طریقے مقرر فرمادیئے ہیں اور یہ(مساجد میں باجماعت نمازیں) بھی انہیں طریقوں میں سے ہیں۔ کیونکہ اگر تم نمازیں اپنے گھروں میں پڑھوگے، جیسے یہ جماعت سے پیچھے رہنے والا،اپنے گھر میں پڑھتا ہے تو تم اپنے نبی کی راہ چھوڑ دوگے اور اگر تم اپنے نبی کی راہ چھوڑ دوگے تو گمراہ ہوجاؤگے۔ کوئی آدمی جو پاکیزگی حاصل کرتا ہے(وضوکرتا ہے) اور اچھی طرح وضو کرتا ہے،پھر ان مساجد میں سے کسی مسجد کا رخ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ہر قدم کے بدلے،جو وہ اتھاتا ہے، ایک نیکی لکھتا ہے، اور اس کے سبب اس کا ایک درجہ بلند فرماتا ہے، اور اس کے سبب اس کا ایک گناہ کم کردیتا ہے، اور میں نے دیکھا کہ ہم میں سے کوئی(بھی) جماعت سے پیچھے نہ رہتا تھا،سوائے ایسے منافق کے جس کا نفاق سب کو معلوم ہوتا( بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ) ایک آدمی کو اس طرح لایا جاتا کہ اسے دو آدمیوں کے درمیان سہارا دیا گیا ہوتا، حتی کہ صف میں لا کھڑا کیا جاتا‘‘۔( صحیح مسلم:۶۵۴) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز سے متعلق صحابہ کرام کی کیا محبت تھی۔ اور وہ کس حد تک کتاب وسنت کی پیروی کرنے کے خواہاں ہوتے تھے۔ وہ آدمی جوسیدھا کھڑا تک نہیں ہوسکتا دوسروں کے سہارے چل کر مسجد پہنچتا اور باجماعت نماز پڑھتا تھا۔اور آج بہت سارے مسلمانان معمولی معمولی عذر تراش کر نماز چھوڑتے اور گھر میں سوئے رہتے ہیں۔ انہیں اللہ کا ڈر ہوتا ہے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع اور پیروی کی چنداں فکر۔پھر بھی وہ بڑی ڈھٹائی سے اپنے کو محب رسول اور مسلمان کہتا ہے۔ افسوس ہے ایسے بے نمازی مسلمان پر۔ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہی کا قول ہے :’’ بے نمازی کے دین کا کوئی اعتبار نہیں‘‘۔( تعظیم قدر الصلاۃ، للمروزی: ۹۳۷، علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ ضعیفہ [۱؍۳۸۲]میں اس کا ذکر کیا ہے،اور اس کو حسن قرار دیا ہے) اسی قول کے مثل امام مالک کا قول ہے:’’ بے نمازی کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں‘‘۔( موطا:۵۱،علامہ البانی رحمہ اللہ نے اراء الغلیل[۲۰۹] میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے)
تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جان بوجھ کر فرض نمازوں کو چھوڑنا عظیم ترین گناہ ہے۔ اور نماز ترک کرنے کی سزا ناحق قتل اور ناحق کسی کا مال لینے سے زیادہ ہے۔ بلکہ بے نمازی زانی،چور اور شرابی سے زیادہ گنہگار ہے۔ اور ایسا شخص دنیا وآخرت میں اللہ تعالی کے سخت عقاب کا مستحق ہے۔ فقہاء اسلام نے بے نمازی کے شرعی حکم کو تفصیل سے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ بعض فقہاء کرام کی رائے یہاں تک ہیکہ ایسا شخص قتل کئے جانے کے لائق ہے۔بے نمازی سے متعلق کتاب وسنت میں جیسی سخت دلیلیں آئی ہیں ان سے ایک مسلمان کو اپنے دل میں خوف محسوس کرنا چاہئے۔ اور ترک نماز سے باز آنا چاہئے۔اللہ تعالی نے فرمایا:’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گرویہ ہے۔ مگر دائیں ہاتھ والے۔ کہ وہ بہشتوں میں(بیٹھے ہوئے) گناہ گاروں سے۔ سوال کرتے ہوں گے۔ تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔ نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ اور ہم بحث کرنے والے( انکاریوں) کا ساتھ دے کر بحث ومباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی‘‘۔( مدثر: ۳۸-۴۷) اللہ تعالی نے فرمایا:’’پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا‘‘۔(مریم: ۵۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے ایک بھی وقت کی نماز تعمد کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے وہ اللہ تعالی کی ضمانت سے خارج ہوجاتا ہے‘‘۔(مسند احمد: ۲۲۰۷۵)نماز سے متعلق محجن اسلمی رضی اللہ عنہ کا واقعہ بڑا مشہور ہے ، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھے کہ نماز کی اذان کہی گئی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، پھر(نماز پڑھ کر) واپس تشریف لائے تو(دیکھا کہ) محجن اپنی جگہ ہی میں بیٹھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمہیں نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ کیا تم مسلمان آدمی نہیں ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! لیکن میں گھر میں نماز پڑھ آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا:’’ جب تم مسجد میں آؤ( اور جماعت مل جائے) تو لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو،اگر چہ تم(اکیلے) نماز پڑھ چکے ہو‘‘۔ (سنن نسائی: ۸۵۷، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو سلسلہ صحیحہ میں ذکر کیا ہے) یہ حدیث اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ بے نمازی کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔آج ہمارا مسلم معاشرہ اس قدر خراب ہوچکا ہے کہ لوگ اذان کے بعد بڑی بے شرمی کے ساتھ اپنے گھروں یا مسجد کے اردگرد بیٹھے ہوتے ہیں بسا اوقات تو مسجد ہی میں ہوتے ہیں مگر نماز نہیں پڑھتے کیا ان لوگوں سے بڑا بھی کوئی گنہگار ہوسکتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذان کے بعد اپنی محبوب ترین بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی خیال نہیں رکھتے اور ان کے پاس سے اٹھ کر نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔
حریث بن قبیصہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں جب مدینہ آیا تو دعا کی: اے اللہ! مجھے کوئی نیک ہم نشیں میسر فرما۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی میسر ہوئی۔ میں نے ان سے کہا: میں نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی کہ مجھے نیک ہم نشیں میسر فرما،لہذا آپ مجھے کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ امید ہے اللہ تعالی مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ آپ نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:’’سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا۔
اگر وہ درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگیا۔ اور اگر وہ خراب ہوئی تو وہ ناکام رہا اور خسارے میں گیا۔‘‘(سنن نسائی: ۴۶۵، علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں اس کو نقل کیا ہے)قرآن کریم میں اللہ تعالی نے واضح طور پر نماز کا حکم دیا ہے، فرمایا:’’اپنے گھرانے کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جمارہ، ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بالا پرہیز گاری ہی کا ہے‘‘۔( طہ: ۳۲) اس خطاب میں ساری امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہے۔ یعنی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پابندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وہ آدمی ہرگز آگ میں داخل نہ ہوگا جس نے سورج طلوع اور غروب ہونے سے قبل کی نمازیں( فجر اور عصر) ادا کیں‘‘۔(سنن نسائی: ۴۷۲)نماز کے فائدہ سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بتاؤ! اگر تم میں سے کسی کے دروازے کے سامنے سے نہر گزرتی ہو، وہ اس سے ہر روز پانچ دفعہ غسل کرتا ہو، کیا اس کا کچھ بھی میل کچیل باقی رہ جائے گا؟‘‘ صحابہ نے کہا: کچھ بھی میل کچیل نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا:’’پانچ نمازوں کی مثال بھی یہی ہے۔ اللہ تعالی ان کے ساتھ غلطیاں مٹا دیتا ہے‘‘۔ (سنن نسائی:۴۶۳)
ہرمسلمان مرد وعورت اور گارجین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد رکھنی چاہئے کہ آپ نے فرمایا:’’اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہوجائیں(اور نہ پڑھیں) تو انہیں اس پر مارو اور ان کے بستر جداجدا کردو‘‘۔(سنن ابو داود:۴۹۵)ان ماں باپ سے بڑامجرم کوئی نہیں جو اپنے بچوں کو تو دنیا کی ہراچھی بری چیز تو سکھلاتا ہے مگر نماز جیسی اہم ترین شے کی تعلیم نہیں دیتا ہے۔ ایسے ہی بچے عام طور پر بڑے ہونے کے بعد بددین اور والدین کے نافرمان بنتے ہیں۔اس وقت والدین شگایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے ہم سے باغی ہوگئے ہیں۔ ہماری نہیں سنتے۔ ہماری نہیں مانتے۔ ہمیں پریشان کرتے اور بسااوقات مارتے بھی ہیں۔ اس لئے اگر ماں باپ اپنے بچوں سے محبت کرتے اور ان سے بڑھاپے میں خدمت لینے کے متمنی ہیں تو لازمی طورپر والدین کو اپنے بچوں کی اسلامی تعلیم وتربیت کی فکر کرنی چاہئے۔