عبدالماجد نظامی
اگست کے مہینہ کا آغاز ہوا ہی تھا کہ کورونا سے متاثر امریکی صدر جو بائیڈن نے یکم اگست سوموار کے دن وہائٹ ہاؤس سے ٹوئٹر پر یہ اعلان کیا کہ سنیچر کے روز میرے حکم پر امریکہ نے افغانستان کے شہر کابل میں کامیابی کے ساتھ حملہ کرکے القاعدہ کے امیر ایمن الظواہری کو ختم کر دیا۔ بائیڈن نے اپنے ٹوئٹ کو جس جملہ پر ختم کیا تھا، وہ یہ تھا کہ :انصاف ہوچکا ۔ الظواہری کی موت پر بائیڈن کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے قانون سازوں کے علاوہ ریپبلکن پارٹی کے قانون سازوں نے بھی امریکی خفیہ ایجنسیوں کو جم کر سراہا۔ ریپبلکن پارٹی کے سینئر سینیٹر مارکو روبیو نے اپنے بیان میں کہا کہ الظواہری کے بغیر یہ دنیا زیادہ محفوظ رہے گی۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ اس حملہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نائن الیون کے ذمہ دار دہشت گردوں کو ڈھونڈ نکالنے اور انہیں ختم کرنے کا جو امریکی عزم ہے، وہ بدستور جاری ہے۔ الظواہری کی موت کی حالیہ خبر سے قبل بھی کئی بار افواہیں گرم ہوئی ہیں کہ اس کو ختم کیا جا چکا ہے۔ ساتھ ہی الظواہری کے ٹھکانوں کے متعلق بھی الگ الگ باتیں میڈیا میں آتی رہتی تھیں۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ الظواہری پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہے تو کبھی اس کے افغانستان میں موجود ہونے کی خبر آتی تھی۔ لیکن حال ہی میں جب کرناٹک میں جاری حجاب تنازع پر الظواہری نے اپنا بیان جاری کیا تھا تب کم سے کم یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ وہ زندہ ہے اور اس کی موت کی ساری افواہیں بے بنیاد ہیں۔ البتہ اب امریکی انٹلیجنس کے سینئر افسران یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ الظواہری کو ڈھونڈ نکالنا اس لیے ممکن ہو سکا کیونکہ دہشت گردی مخالف کوششوں کا وہ اہم حصہ تھا۔ امریکہ کہتا ہے کہ وہ اسی برس یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ ایمن الظواہری کی بیوی، بیٹی اور اس کے بچے کابل کے ایک محفوظ گھر میں منتقل ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمن الظواہری بھی اسی محفوظ گھر میں موجود ہے۔ امریکی انٹلیجنس کا دعویٰ ہے کہ الظواہری جب سے اس گھر میں منتقل ہوا، ہم نے کبھی بھی اس کو گھر چھوڑ کر باہر جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ صرف اس گھر کی بالکونی پر اس کو دیکھا گیا اور کئی بار اس کی شناخت کی گئی۔ بالآخر اسی بالکونی پر اس کو ڈرون سے نشانہ بناکر ختم کر دیا گیا۔ امریکی افسر کا کہنا ہے کہ الظواہری اسی گھر میں رہتے ہوئے ویڈیوز تیار کرتا تھا اور ممکن ہے کہ کچھ ویڈیوز اس کی موت کے بعد بھی جاری کیے جائیں۔ کابل میں امریکی ڈرون حملہ پر طالبان نے بھی اپنا بیان جاری کیا ہے۔ افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالنافع نے بتایا کہ شیرپور کے اندر ایک گھر پر ڈرون سے حملہ ہوا تھا لیکن کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا ہے کیونکہ وہ گھر خالی تھا۔ جب کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کابل میں ہوئے ڈرون حملہ کی تصدیق کی اور ساتھ ہی اس حملہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی اصولوں کے خلاف عمل قرار دیا۔ آخر الظواہری کون تھا جس کو ختم کرنے کے لیے امریکہ نے ڈھائی کروڑ امریکی ڈالر کا انعام رکھا تھا؟ الظواہری عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا سرخیل اور اسامہ بن لادن کا نائب و رفیق تھا۔ مصر کے امیر اور علمی خانوادہ سے تعلق رکھنے والا الظواہری بھی اچھی علمی لیاقت کا حامل ایک سرجن تھا جو نوے کی دہائی میں اسلامی جہاد اور اس کے بعد القاعدہ کا حصہ بن گیا تھا۔ القاعدہ کے قائم کرنے کا بنیادی مقصد اسلامی دنیا سے مغرب کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا اور اس مقصد کے حصول کے لیے مغرب بالخصوص امریکہ کے مفادات کو نشانہ بنانا بتایا جاتا رہا ہے۔ الظواہری پر الزام ہے کہ اسی مقصد کے حصول کے لیے اس نے 12 اکتوبر 2000کو یمن کے اندر امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کول کو نشانہ بنایا تھا جس میں سترہ امریکی جہاز راں مارے گئے تھے اور30زخمی ہوگئے تھے۔ اسی طرح الظواہری پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ 7؍ اگست 1998 کو کینیا اور تنزانیہ میں واقع امریکی سفارت خانوں پر بم سے جو حملے کیے گئے تھے اور جن کے نتیجہ میں 224 لوگوں کی موت ہوگئی تھی اور تقریباً پانچ ہزار لوگ زخمی ہوئے تھے، ان میں بھی اس کا رول تھا۔ اور آخری سنگین ترین حملہ جس کے لیے اسامہ بن لادن اور الظواہری کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، وہ نائن الیون کا حملہ ہے جس کے بعد دنیا کا نظام بری طرح تبدیل ہوگیا اور افغانستان پر امریکہ اور اس کے حلیفوں کی جانب سے جنگ مسلط کر دی گئی جو دو دہائی تک جاری رہی۔ اس حملہ کے باوجود امریکہ اسامہ بن لادن اور الظواہری کو پکڑنے میں ناکام رہا تھا۔ اسامہ بن لادن بھاگ کر پاکستان کے قبائلی علاقہ ایبٹ آباد میں پناہ گزیں ہوا جہاں امریکی سیل نیوی نے2011میں اس کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد الظواہری نے القاعدہ کی قیادت سنبھالی لیکن اس کی شخصیت میں اسامہ بن لادن جیسا کرشمائی عنصر شامل نہیں تھا، اس لیے القاعدہ کو متحد رکھنے یا اپنے ازلی دشمن مغرب کے مفادات کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہیں رہا۔ اس کے عہد قیادت میں ہی القاعدہ دو حصوں میں منقسم ہوگیا اور بالآخر داعش جیسی وحشت ناک دہشت گرد تنظیم کی شکل میں ایک وبا اس کی کوکھ سے نکلی جس نے مغرب سے زیادہ مسلم عوام اور مسلم ممالک کو شدید نقصان پہنچایا اور تاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ القاعدہ نے مغربی استعمار کے خلاف جس جنگ کا آغاز کیا تھا، اس میں اسے کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اس کے برعکس ان دہشت گرد تنظیموں نے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمان کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت کو بڑھاوا دینے میں اپنا کردار نبھایا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج اسلاموفوبیا کی جو وبا دنیا کے تمام حصوں میں پھیلی ہوئی ہے، اس کو جواز فراہم کرنے میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کا اپنا منفی کردار بھی شامل ہے۔ ان تنظیموں نے اسلام میں موجود جہاد جیسے مقدس عمل کو بھی دنیا کی نظروں میں مبغوض بنا دیا۔ اسلام میں جہاد کا مقصد اللہ پاک کے کلمہ کو بلند کرنا اور معاندانہ طور پر حائل ہونے والے عناصر کے خلاف اسلامی رہنمائی میں اس کا مقابلہ کرنا شامل تھا۔ لیکن ان تنظیموں نے اس کا مقصد اور جہت دونوں تبدیل کر دیے اور ان معصوموں کو بھی نشانہ بنانے لگے جنہیں جنگ و جدال سے کوئی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ اسلام اور مسلمانوں کے تئیں معاندانہ رویہ رکھتے تھے۔ ایک خیالی دشمن کا تصور پیدا کرکے کسی پر حملہ آور ہونا یا قوت و طاقت کے بل پر اسلامی انقلاب برپا کرنا سراسر اسلامی روح اور اسلامی تعلیم کے منافی عمل ہے جس کو کسی بھی حال میں سراہا نہیں جانا چاہیے۔ جو مسلم نوجوان ایسے کسی بھی نظریہ سے متاثر ہوکر ہتھیار اٹھاتے ہیں، وہ دراصل اسلام کی روح کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔ اسی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے مصر کے دار الافتاء نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے کہ کسی دہشت گرد کو پناہ دینا یا اس کی اعانت یہ سمجھ کر کرنا کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کی مدد کر رہے ہیں، دراصل گناہ کبیرہ ہے۔ اسلام کے تصور جہاد کے نام پر دہشت گردی کے معاملہ میں کسی کی مدد کرنے کو دارالافتاء نے شریعت اسلامی کے خلاف افترا پردازی سے تعبیر کیا ہے۔ ان تنظیموں کی ناقابل قبول حرکتوں اور سرگرمیوں سے اسلام اور مسلمانوں کو پوری دنیا میں جو نقصان پہنچا ہے، اس کے پیش نظر یہ فتویٰ معقول معلوم ہوتا ہے۔ معمولی غور و خوض سے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امیر ترین لوگ اگر ہتھیار اور بم و بارود کے کلچر کو بڑھاوا دینے کے بجائے اپنی قابلیت اور دولت کا استعمال کرکے امت مسلمہ کے نوجوانوں کو علمی اور فکری طور پر مضبوط بناتے اور علم کے ذریعہ مغرب کا مقابلہ کرنے کی راہ اختیار کرتے تو آج مسلم دنیا کے نوجوانوں کو ہر جگہ عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جاتا اور شاید مغرب و اسلام کے درمیان جو دوری قائم ہے، اس کو ختم کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھ کر آگے بڑھنے اور پوری انسانی آبادی کو ترقی و سلامتی کے ماحول میں داخل کرنے کا ذریعہ بنتے۔ کیا اب بھی یہ وقت نہیں آیا ہے کہ ایسے منفی نظریات سے امت کے نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے اور انہیں اسلام کی حقیقی روح سے روشناس کراکر دنیا کی تمام اقوام کے لیے رحمت و عدل کے پیامبر کے طور پر تیار کیا جائے؟ میں سمجھتا ہوں کہ پہلے کے مقابلہ آج اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]