عبیداللّٰہ ناصر
ابتدا میں ہی یہ واضح کر دوں کہ قانونی معاملات میں میری معلومات بس واجبی سی ہی ہیں، موٹی موٹی باتوں کا علم ہے جیسے الزامات ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ کی ہوتی ہے، وہی جرم سے متعلق سارے ثبوت اکٹھا کر کے عدالت کے سامنے پیش کرتی ہے، عدالت میں ان پر بحث ہوتی ہے، وکیل دفاع ان ثبوتوں کی دھجیاں اڑاتا ہے، استغاثہ کا وکیل ان کی صداقت کو ثابت کرنے میں پوری صلاحیت صرف کرتا ہے اور پھر عدالت فیصلہ کرتی ہے۔ دوسرے ساری دنیا میں قانون کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جرم ثابت ہونے تک ملزم بے گناہ سمجھا جاتا ہے، تیسرے پولیس یا کسی بھی سرکاری ایجنسی کے سامنے دیا گیا بیان عدالت میں قابل تسلیم نہیں ہوتا، یہ بیان کسی مجسٹریٹ یا عدالتی افسر کے سامنے دیا گیا ہو تبھی اس کی قانونی حیثیت ہوتی ہے، چوتھے کسی بھی ملزم کو گرفتاری سے پہلے اس کا جرم بتانا ضروری ہے اور مقدمہ کی کارروائی شروع ہونے کے لیے پولیس کو معینہ مدت میں فرد جرم داخل کرنا ہوتا ہے، سات سال سے کم سزا والے جرائم میں گرفتاری ضروری بھی نہیں ہے اور یہ کہ گرفتاری کے بعد ضمانت حاصل کرنا ہر ملزم کا حق ہے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اس دن جب اخبارات میں منی لانڈرنگ سے متعلق قوانین پر سپریم کورٹ کی مہر اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے اختیارات کے بارے میں پڑھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ایک آئینی جمہوری ملک ہی نہیں، ایک مہذب سماج میں ایسے قانون بھی ہو سکتے ہیں اور ایک ایسا افسر بھی ہو سکتا ہے جس کے پاس عملی طور سے کسی بھی ملک کے ڈکٹیٹر سے بھی زیادہ اختیارات ہو سکتے ہیں اور جو ملزموں کے سلسلہ میں ملک کے چیف جسٹس سے بھی زیادہ با اختیار ہے تا وقتیکہ وہ معاملہ عدالت کے حوالے نہ کر دے اور اس کے لیے اس کے پاس لامحدود وقت ہوتا ہے جس دوران وہ ملزم کو خون تھکواتا رہ سکتا ہے۔فیس بک پر ایک پوسٹ میں اسے بھوت یا بد روح سے تشبیہ دی گئی ہے جو جان تو نہیں لے سکتا لیکن چین سے جینے بھی نہیں دے سکتا ۔
دراصل منی لانڈرنگ قانون کے تحت انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو ملے لا محدود اختیارات کے خلاف سپریم کورٹ میں 240عرضیاں دائر کی گئی تھیں جن کی ایک ساتھ سماعت کرتے ہوے جسٹس اے ایم کھانولکر کی قیادت والی تین رکنی بنچ نے ان سبھی قوانین کو جائز، آئینی اور ضروری قرار دیتے ہوئے سبھی عرضیاں خارج کر دیں۔عدالت نے کہا کہ انسداد منی لانڈرنگ قانون کے تحت انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو ملے املاک کی ضبطی اورگرفتاری کے قوانین جائز ہیں اور گرفتاری کا جو اختیار دفعہ19کے تحت ملا ہے وہ بھی جائز ہے، اس کے تحت ملزم کو گرفتاری سے متعلق کاغذات دینا ضروری نہیں ہے، صرف گرفتاری کی بنیاد بتا دینا ہی کافی ہے۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ گرفتار شخص کو یہ پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ اس کی گرفتاری کے لیے ایجنسی کے پاس کیا بنیاد ہے۔ای ڈی کے افسران سمن کی کارروائی کے دوران بھی ملزم کوحراست میں لے سکتے ہیں۔دوسرے ابتدائی رپوٹ درج ہوئے بغیر بھی تلاشی کا اختیار دے دیا گیا ہے یعنی جیسے ہی انفورسمنٹ کیس انفارمیشن رپورٹ جو کہ ایک طرح کی ابتدائی رپورٹ یا ایف آئی آر ہوتی ہے، درج ہو ملزم کی تمام املاک ضبط کرنے کا اختیار مل جاتا ہے اور یہ تب تک ضبط رہتی ہے جب تک ملزم بری نہ ہو جائے ۔دفعہ- 5کے تحت ملزم کی وہ املاک بھی ضبط ہو سکتی ہے جو اس نے جائز طریقے سے حاصل کی ہے۔ای ڈی جو بیان درج کرتی ہے وہ عدالت میں بطور گواہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔تصور کیجیے ایک شخص ایک اندھیرے کمرے میں کچھ مسلح افسروں کے سامنے بیان درج کرا رہا ہے تو کیا وہ آزادانہ دیا گیا بیان ہو سکتا ہے یا افسروں کے تشدد سے بچنے کے لیے ان کی مرضی کے مطابق دیا گیا بیان ہوگا؟ اسی لیے انگریزوں کے زمانہ میں ہی یہ انتظام کر دیا گیا تھا کہ پولیس کے سامنے نہیں بلکہ مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا بیان ہی عدالتوں میں قابل قبول ہوگا مگر آئینی جمہوری ہندوستان میں اس قانون کو ہی بالکل الٹ دیا گیا ہے۔اگر چہ اس قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا سات سال کی ہے لیکن ضمانت کے سسٹم کو اتنا سخت کر دیا گیا ہے کہ ملزم خون تھوک دیتا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ ایک نہیں کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ ضمانت ملزم کا حق ہے، گرفتاری غیر معمولی حالات میں ہی کی جائے۔ گرفتاری کے لیے بھی سپریم کورٹ گائیڈ لائن جاری کر چکا ہے مگر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو ان تمام عدالتی ہدایتوں اور رہنما اصولوں سے بلند رکھ کے اور لامحدود اختیارات دے کر اسے ایک طرح سے ماورائے آئین ادارہ بنا دیا گیا ہے۔
دنیا کے تمام ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ہر وہ قانون جس میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا ذمہ ملزم کے سر تھوپ دیا گیا ہو، وہ غیر آئینی اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے ،یہ ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ایسے قوانین حکومت کو نرنکش (تاناشاہ) بنا دیتے ہیں۔ افسران الزام لگا دیتے ہیں، اب آپ دیتے رہیں اپنی بے گناہی کا ثبوت، اسے تسلیم کرنا نہ کرنا افسران کی صوابدید پر منحصر ہے۔الزام ثابت ہونے تک بے گناہ ہونا دنیا بھر کا مسلمہ عدالتی نظام ہے لیکن پولیس اسٹیٹ میں آپ تب تک ملزم ہیں جب تک آپ خود کو بے گناہ نہ ثابت کر دیں۔منی لانڈرنگ انسداد منشیات اور یو اے پی اے جیسے قوانین میں کریمنل جیوریس پروڈ ینس کو ہی با الکل الٹ دیا گیا ہے جو آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں لیکن سپریم کورٹ نے جنہیں حق بجانب قرار دے دیا ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ نے شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کے محافظ ہونے کے بجائے جانچ ایجنسیوں کو ملے لا محدود اختیارات کا محافظ کا کردار ادا کیا حالانکہ یہ اختیارات خود اس کے اختیارات کو ہی کم کرنے والے ہیں۔
ان قوانین کا دفاع کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ ضابطہ فوجداری میں تو شک کی بنیاد پر گرفتاری کی جا سکتی ہے لیکن منی لانڈرنگ کیس میں اگر ای ڈی کے افسر کے ہاتھ میں کوئی ثبوت ہے تو بھی گرفتاری کے لیے اسے ڈائریکٹر یا ڈپٹی ڈائریکٹر سے منظوری لینی ہوتی ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے ضمانت کے جن ضابطوں کو غیر آئینی بتایا تھا، ان میں ضروری ترمیم کر دی گئی ہے ،علاوہ ازیں ملزم کی تمام املاک تبھی ضبط کی جا سکتی ہے جب وہ املاک جائز اور نا جائز دونوں پیسوں سے خریدی گئی ہو۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اب تک4700معاملات کی چھان بین کی گئی لیکن صرف 338کیس ہی درج ہوئے اور 313ملزم گرفتار کیے گئے۔یہ بھی بتایا گیا کہ ایف آئی آر اور فرد جرم سے پہلے جو املاک ضبط کی جاتی ہے، اس کے لیے متعدد سیف گارڈ موجود ہیں اور ای ڈی کے افسروں کو اس ضبطی کی ضرورت اور بنیاد بتانا ہوتا ہے۔
مگر یہ سب اتنا سہل نہیں ہے جتنا سالیسٹر جنرل صاحب نے عدالت کو بتایا ۔مثال کے طور پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جرم ثابت ہونے تک بے گناہ ہونے کے اصول ہونے کی کوئی آئینی گارنٹی نہیں ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کی اس دلیل کو تسلیم بھی کر لیا۔عدالت عا لیہ جو آئین کے الفاظ اور روح کی محافظ ہے ،اس نے نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ پارلیمنٹ چاہے تو آئین کے بنیادی اصولوں کو تبدیل بھی کر سکتی ہے جبکہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب نرسمہا راؤ کی سرکار نے بی جے پی کی تین ریاستی حکومتوں کو برخاست کردیا تھا، سپریم کورٹ نے بی جے پی کی اس کے خلاف دائر اپیلوں کو خارج کرتے ہوے کہا تھا کہ سیکولرزم آئین کا بنیادی اصول ہے جسے پارلیمنٹ بھی نہیں تبدیل کر سکتی ہے یعنی بنیادی حقوق کے خلاف پارلیمنٹ بھی کوئی قانون نہیں بنا سکتی۔ 1975 میں نافذ کی گئی ایمرجنسی میں جب شہریوں کے سبھی بنیادی حقوق تلف کر لیے گئے تھے تو بھی جسٹس کھنہ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ پارلیمنٹ عوام کے بنیادی حقوق تلف نہیں کرسکتی۔ اب سپریم کورٹ اپنے ہی سابقہ فیصلوں کو نظر انداز کر دے اور عوام کے بنیادی حقوق کو بھی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے تو پھر جمہوریت کا اللہ ہی حافظ ہے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس قانون کے تحت سزا کی شرح بہت ہی کم ہے یعنی پانچ فیصد سے بھی کم لیکن مقدموں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ملزمان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔گرفتاریوں اور املاک ضبطی کی وجہ سے ان کی زندگی اور خاندان کا پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، ملزم کوئی ایک ہوتا ہے سزا پورا خاندان پاتا ہے، بھگتنا پورے خاندان کو پڑتا ہے۔جو لوگ ان اندھے قوانین اور ضابطوں کو حق بجانب قرار دے کر بغلیں بجا رہے ہیں، ان میں اگر انسانیت ہو تو کبھی ملزم کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھیں۔اگر الزام سیاسی بنیادوں پر ہیں تو سیاسی دباؤ کے تحت اور اگر واقعی شک کی بنیاد پر ہے تو بدعنوانی اور کفن گھسوٹی کی بنا پر ملزم بے دم کر دیا جاتا ہے، ظاہر ہے یہ مہذب سماج کے عدالتی نظام کا منہ چڑھانا ہے۔ حکومتوں کی تو اس میں مصلحت ہوسکتی ہے لیکن عدلیہ حکومت کی ہاں میں ہاں ملائے اور اس کے ظالمانہ طریق کار کو قانونی جواز فراہم کرے تو خطرہ سنگین سے سنگین تر ہو جاتا ہے۔ضرورت ہے کہ ایک طرف تو اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی درخواست گزاری جائے، دوسرے حکومت پر ان ظالمانہ قوانین میں ترمیم کا دباؤ ڈالا جائے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]