کشما شرما
آج سے پہلے، بہت دن ہوئے، شاید پانچ سال۔ تب ایک شادی میں آئی تھی یہاں۔ تب احساس ہوا تھا کہ جو گاؤں شہر سے کچھ فاصلے پر تھا، آج وہ فاصلہ ختم ہو گیا۔ شہر کھسکتے کھسکتے گاؤں میں گھس گیا تھا یا گاؤں شہر میں جا گھسا تھا۔ لوگوں کے پکے گھروں میں باہر تک شیشے چمچما رہے تھے۔ گھر گھر میں فریج، ٹی وی، کاریں دکھائی دے رہی تھیں۔ گھروں کے چبوترے گھروں کے اندر سما گئے تھے۔ شام ہونے کے بعد چوپال کہیں نہیں دکھتی تھی۔ لوگ ٹی وی کے سامنے چپک جاتے تھے اور اسکرین پر کم کپڑوں میں اتراتی لڑکیوں کو آہ بھر کر دیکھتے تھے۔ حالانکہ گھر کے اندر گھونگھٹ تھا۔ لڑکیوں کا لڑکوں سے بات چیت کرنا بھی منع تھا مگر لڑکیاں بات چیت بھی کرتی تھیں اور جب تب گھر سے بھاگ جاتی تھیں۔ سوشیلا نام کی ایک خوبصورت لڑکی، جس کی آواز میں جادو تھا، پورا گاؤں بیاہ شادیوں میں اس سے گواتا تھا، وہ تو ایسی بھاگی کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کہاں گئی۔ کبھی لوٹی ہی نہیں۔ اس کی فیملی میں اس کا نام کوئی لیتا ہی نہیں تھا۔ سوشیلا نام چکوٹی کی طرح کاٹتا تھا وہاں۔ کچھ کہتے تھے کہ کسی کنویں باوڑی میں ڈوب مری یا جس کے ساتھ بھاگی تھی، اس نے کہیں بیچ دیا۔
سڑک کنارے رہنے والی پٹواری کی اَن بیاہی لڑکی ماں کیا بنی تھی کہ پٹواری کے گھروالوں کا گاؤں والوں نے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ وہ لڑکی ایک اندھیرے کمرے میں منہ چھپاکر رہتی تھی۔ اس کے بچے کا کیا ہوا، کوئی نہیں بتاتا تھا۔ ایک طرف شہر تھا، ایک طرف گاؤں تھا۔ لڑکیاں ان کے بیچ میں ایسے ہی پس رہی تھیں، جیسے چکی میں گیہوں، جوار، باجرا۔
سردیوں میں جہاں سرسوں کے کھیت لہلہاتے تھے، ارنڈی کے پیڑوں سے کھیتوں کے کنارے بھرے تھے، نیم اور جامن کے پیڑوں کی بھرمار تھی، بیچ بیچ میں آم کے درخت بھی تھے، یہاں ہر جگہ صرف مکان ہیں۔ فالتو میں ہی دلی اور بڑے شہروں کو کنکریٹ کا جنگل کہا جاتا ہے۔ یہ جنگل اب چھوٹی جگہوں میں بھی کوئی کم نہیں ہیں۔ یہ جنگل تو اب ہر جگہ اُگ آئے ہیں۔
گھر کے باہر لگے نیم کو بھی گزرے برسوں ہوئے۔ گھر سے تھوڑی دور لہلہاتا اونچا پیپل تھا۔ نئے پتوں کے موسم میں اس کی پتیاں دور سے چمکتی تھیں اور ہاتھ ہلاکر جیسے سب کو اپنے پاس بلاتی تھیں۔ وہ بھی ختم ہوا۔ اب ہر سوموار کس پیپل پر لوگ دودھ چڑھاتے ہوں گے۔ پیپل کے آس پاس پیلے کنیر کے پیڑوں کا جھنڈ تھا،وہ بھی اب کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
اور گھر کے لوگوں کی وہ لمبی چوڑی فوج پتا جی، تاؤ جی، بھائی صاحب، تین چچا، بہن جی سب کہاں گئے؟ ان کی آپسی رنجشیں،شکایتیں، میل ملاپ سب وقت کے ساتھ کہیں گم ہوگئے۔ ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کی قسمیںاور ان میں سے کسی کے بیمار پڑنے پر بھاگ دوڑ، فکر، رات بھر کا جاگنا۔ کبھی کبھی لگتا تھا کہ ان کی لڑائی سچی ہے یا پیار، دنیا کا کوئی مذہبی پیشوا بھی نہیں بتا سکتا۔
باہر کا کوئی لڑائی کرنے والا آتا تو سب ایسے مورچے سنبھالتے، جیسے کہ کوئی بڑی جنگ جیتنے جا رہے ہوں۔ گھر کی عورتیں چھت پر ہاتھوں میں اینٹ لے کر پلو کمر میں کھونس کر لکشمی بائیاں بن جاتی تھیں۔ جو سویرے ایک دوسرے کے بال کھینچ رہی ہوتی تھیں، ’کرم جلی‘اور ’ناس پیٹی‘ کے جملوں سے ایک دوسرے کو نوازا کرتی تھیں، وہ شام کو کسی باہر والے سے لڑنے کے وقت اتحاد کا ایسا حیرت انگیز مظاہرہ کرتی تھیں کہ فوج کے بڑے بڑے کمانڈر بھی شرما جائیں۔
لیکن گھر کے سب بچے کہیں بھی کھانے اور سونے کے لیے آزاد تھے۔ ان کے لیے ان کی ماں اور چچی کی لڑائی کا کوئی مطلب نہیں تھا۔
گرمی کی ایک دوپہر میں طوطا مرگیا تھا۔ ماں کا کہنا تھا کہ اسے لو لگ گئی۔ ماں کسی شادی میں چلی گئی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ چھوٹی یعنی کہ چھوٹی چچی نے اسے دھوپ میں ہی لٹکا رہنے دیا۔ اس لیے مر گیا۔ وہ تو اچھا رہا کہ چھوٹی چچی کو ماں کی کہی یہ بات پتہ نہ چلی،ورنہ گھر میں ایسا مہابھارت مچتا کہ اچھے اچھوں کو نانی یاد آجاتی۔
طوطے کا خالی پنجرا بہت دنوں تک ہوا کے جھونکوں سے ہلتا رہتا تھا اور کبھی کبھی بھرم دیتا تھا کہ طوطا اس میں بیٹھا اب بھی رام رام جپ رہا ہے۔ اور چونچ میں اپنی کٹوری دباکر پنجرے کے فرش سے مار مار کر دودھ روٹی مانگ رہا ہے۔ اسے دیکھ کر سب کہتے تھے کہ اس نے چشمہ لگا لیا ہے۔ گلابو گائے بھی ایسے ہی ایک دن مر گئی تھی۔ اس کا دودھ پی کر گھر کے زیادہ تر بچے بڑے ہوئے تھے۔ گلابو کا دودھ ماں بہت سویرے کاڑھتی تھی۔ ماں کو لگتا تھا کہ کوئی باہر والا نہ دیکھ لے۔ کسی کو پتہ چلے گا کہ گائے اتنی بڑی بالٹی بھرکر دودھ دیتی ہے تو نظر لگ جائے گی۔ کیا پتہ کہ کوئی روٹی میں رکھ کر سوئی ہی گائے کو کھلادے۔ گلابو جب مر گئی تھی تو ماں کو بہت دنوں تک یہی لگتا رہا تھا کہ وہ اچھی بھلی تھی۔ اچانک اس نے پچھاڑ کھائی تھی۔ منہ سے جھاگ نکلے تھے اور مر گئی تھی۔ نہ بیماری، نہ ہاری، ایسے کیسے مر گئی۔ ضرور کسی کمبخت نے کچھ کھلا دیا۔ گاؤں میں کوئی کسی کی ترقی کو نہیں دیکھ سکتا۔ کسی کے تگڑے کتے اور زیادہ دودھ دینے والی گائے تک کو نہیں۔
سب کہتے ہیں کہ ماضی ’بھوت‘ ہوتا ہے، جو کبھی زندہ نہیں ہو سکتا، مگر ماضی پیچھا بھی کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہانٹ کرتا ہے۔ گھر کے ہر کمرے میں کسی نہ کسی گزرے ہوئے کا سایہ ہے۔ کہیں ماں کے ہاتھ کی بنی کوئی جھانکی، کہیں کسی کونے میں والد کا لکھا کوئی دوحہ، ان کی مڑھوائی ہنومان جی کی تصویر، کہیں بھائی کی ورزش کا سامان۔ کھونٹی پر لٹکی گائے کی زنجیر، سب گھر والوں کا ایک فوٹو اور باہر کے کمرے میں بابا کی پنسل سے بنائی گئی تصویر جو ان کے کسی شاگرد نے بنائی تھی۔ بابا ہیڈماسٹر تھے اور ان جیسا ریاضی دور دور تک کوئی نہیں پڑھاتا تھا۔ لوگ بہت دنوں تک انہیں پوچھنے آتے تھے، ان کے گزرنے کے بعد بھی۔
وقت کی شاخیں کہاں کہاں پھیلتی ہیں۔ مڑ کر دیکھتی ہوں تو لگتا ہے، ہم سب گھر کے پندرہ بچے ایک ایک کرکے بڑے ہوتے گئے اور پہلے بڑے شہر، پھر اس سے بڑے شہر اور کئی تو غیر ممالک بھی چلے گئے۔ بچپن کی وہ یادیںجو اس گھر میں بسی ہوئی ہیں، انہیں یاد بھی ہوںگی کہ نہیں۔ جیسے کوئی بیج اڑتا اڑتا کہیں بہت دور چلا جاتا ہے، پھر اس کا پیڑ بنتا ہے، پھر اس کے بیج پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں کیا کبھی یاد بھی رہتا ہوگا کہ ان کا جدامجد پیڑ، اس کا بیج کہاں سے آیا تھا۔ یہی حال ہم سب کا ہوا ہے سوائے چچی کی تین لڑکیوں کے جو اسی شہر میں ہیں اور ہمیشہ شکایت کرتی رہتی ہیں کہ ان کے لیے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو وہ یہاں نہ سڑ رہی ہوتیں۔ اور چچی کا بیٹا، جس کا ایک جھگڑے میں مرڈر ہو گیا تھا۔ چچی کے پاس تب تک نہ لڑنے کے لیے لوگ بچے تھے اور نہ کورٹ کچہری کرنے کے وسائل۔ اس لیے اس کا قتل کرنے والے کبھی پکڑے بھی نہیں جا سکے۔ جو لوگ باہر رہتے ہیںوہ تو نہ آپائیں، ان کی بات مانی جا سکتی ہے۔ غیر ملک میں رہنا، روٹی کمانا آسان ہے کیا! مگر چچی کی اپنی لڑکیاں، وہ تو یہیں رہتی ہیں۔ وہ بھی نہیں آتی ہیں۔
اس گھر میں اب لے دے کے دو لوگ بچے ہیں-ایک بھتیجہ اور ایک بیوہ چچی۔ چچی کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور اب وہ زمین پر گھسٹ گھسٹ کر چلتی ہیں۔ بھتیجہ دن میں اپنے کام پر چلا جاتا ہے اور رات میں آکر سو جاتا ہے۔ شادی نہ اس کی ہوئی، نہ اس نے کی۔ گھر کے دو لوگوں میں جیسے دو سو کلومیٹر کی دوری ہے۔
چچی میرا ہاتھ پکڑتی ہیں- ’’لالی! اب تو میں جا قابل نہ رہی کہ توئے کچھو کرکے کھبائے دؤں، اِتتے دِنن میں آئی۔ آج جی جی ہوتیں تو نہ جانے کا کا کتتی۔ میری چھوٹی چھوری، چھوٹی چھوری کَہت اَگھات نائیں۔‘ ‘ چچی ماں کی یاد میں اپنی آنکھیں بھگوتی ہیں۔ ماں کی یاد میں آہ سی نکلتی ہے۔
’’نہیں چچی! میں تو بس یہاں سے نکل رہی تھی تو سوچا کہ ایک بار ملتی چلوں۔‘‘
’’اچھو کَرو للی۔ پکے پتتا سے ہم، نہ جانے کب گریں۔ اب تو جا زندگی سے او آنتی آئے گئے۔ چھورین نیں جی دیکھ بے کی فرصت او نائیںکہ ماں جیوتے کہ مر گئی۔ جا ڈرتے کبھو آویئو نائیں کہ کئوں مئیا کوں ساتھ لے جانو پرو تو کا ہوئی گو۔‘‘اپنی لڑکیوں کی شکایت کرتی ہیں چچی۔
میں دکھاوے کے لیے کہتی ہوں- ’’چلو میرے ساتھ۔ میں بھی تو تمہاری لڑکی ہوں۔ بچپن میں بہت کھلایا ہے تم نے۔‘‘
’’ارے اب ان بوڑھے ہاڑن نے لَے کے کہاں جائے سکوں۔ جہاں کے مرے تہیں پھُنکتیں۔ تیرے پاس جائی کے اور توئے تنگ کروں۔ کہاں کنگے جمائی لالہ کَے اپنے کام کا تھوڑے اے جو جا ڈکوریائے اور اٹھا لائی۔ اب تو کب بلئوا آوے جاکو آسرو اے۔‘‘
میں بھتیجے راجو کے بارے میں پوچھتی ہوں تو چچی ٹال جاتی ہیں- ’’موئے سل نائیں کب آوے کب جاوے۔ کبو جیئو نائیں کہ پاس آکے بیٹھے۔‘‘
کبھی جس گھر کی بھیڑ بھاڑ سے بچ کر تنہائی کی تلاش رہتی تھی، آج تنہائی کھانے کو دوڑ رہی ہے۔ اینٹ گارے کا گھر تو ویسا ہی کھڑا ہے۔ گھر کے کمروں پر حق جمانے والے جا چکے۔ مگر سب کہاں ہیں۔۔۔کہاں گئے کہ انہیں کوئی چھو نہیں سکتا، پکڑ نہیں سکتا۔
زندگی میں ایسا کیا ہے کہ کبھی چیزیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتیں۔
چچی کو دیکھتی ہوں تو ان کی بڑی بیٹی مینو جی جی کی برسوں پہلے کہی بات دماغ میں کوندھنے لگتی ہے- ’’پتہ نہیں کہ ڈوکریا کیوں کیے جا رہی ہے۔ اس کے دیکھنے کے لیے اب کیا بچا جوانی میں قسم سے اتنی پٹی کہ جسم کی ایک ہڈی ثابوت نہ ہوگی۔ بڑھاپے میں بیٹے نے کوٹنے سے نہیں چھوڑا۔ شوہر گیا، بیٹا گیا۔ بہو دوسرے کے گھر بیٹھ گئی۔ مگر یمراج کے یہاں اس کی زندگی کے حساب کتاب کے کاغذ کھوگئے ہیں۔ ‘‘
جی جی کی بات تب کی ہے، اب چچی پھرکنی کی طرح اس پورے گھر میں گھومتی تھیں۔ ہاتھ پاؤں چلتے تھے ان کے۔ یہ مینو جی جی اپنے والد سے بچی پھرتی تھیں اور ماں کے سائے میں پڑھتی تھیں۔ رات کو نیند نہ آ جائے،اس کے لیے اپنی چھوٹی کوکھونٹی سے باندھ لیتی تھیں کہ نیند آنے پر سر لڑھکے گا تو چوٹی کھنچے گی اور نیند کھل جائے گی۔ تب ان کی محنت کو دیکھ کر ماں ہم بچوں کو کوستی تھی کہ ایک وہ ہیں جو اتنی آفتوں میں پڑھنا چاہتی ہیں اور ایک ہم لوگ ہیں جو سب کچھ ہونے پر بھی پڑھائی میں دھیان نہیں دیتے ہیں۔
چچا چچی کو پہلے دن سے ہی کوستے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جب چچی سے ان کی شادی ہونے والی تھی، تب گھر کے پاس کے پیپل سے رات کے بارہ بجے ایک بھوت ان کے پاس اترکر آیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اس لڑکی سے شادی مت کر۔ یہ تیرے لائق نہیں۔ یہ ببھیک منگوں کی فیملی ہے۔ شادی میں اور کچھ نہیں ایک بھینس مانگی تھی، وہ بھی نہ دی۔ گاہے بگاہے جب انہیں اس اَن دیکھی بھینس کی یاد آجاتی تھی تو چچی کی پیٹھ پر کوڑا پھٹکارتے تھے۔ تب ماں آکر انہیں بچاتی تھی۔ ایک بار غصے میں ماں نے چچا کوایسی پٹخنی دی تھی کہ ان کے ہوش اڑ گئے تھے۔اور ماں نے اعلان کیا تھا کہ وہ پہلوانوں کے خاندان سے ہیں۔ زیادہ گالی گلوج کریں گے تو ہاتھ پاؤں توڑ کر تلیا میں سرا دے گی۔ تب سے وہ ماں کے سامنے زیادہ اِکڑ تکڑ نہیں کرتے تھے۔ماں کی بہادری کا یہ قصہ آج تک بوڑھی عورتوں کو یاد ہے۔
والد تو چچا سے ہمیشہ ناراض رہتے۔ چچا کی مار پٹائی کی عادت سے وہ نفرت کرتے تھے۔ ایک بار بھینس کا قصہ چچا ان کے سامنے لے بیٹھے۔ تھوڑی دیر تک تو وہ سنتے رہے۔ پھر چچا کا کان پکڑا اور دروازے کے باہر دھکا دے دیا۔ اسی انتباہ کے ساتھ کہ اب کبھی اس کمرے میں گھسا توان سے برا کوئی نہ ہوگا۔ جا اپنے اس بھوت سے کہہ کہ تجھے یہاں سے دفع کرے۔
اس دن چچا نے چبوترے پر بیٹھ کر گالیوں کا سارا خزانہ والد کے نام پر خرچ کر دیا تھا۔ ماں بار بار غصے میں چچا سے نمٹنے کے لیے دروازے کی طرف دوڑتی تھی مگر والد نے ہی اسے روک دیا تھا۔
مینو جی جی کی بات سن کر اس وقت بڑا عجیب لگا تھا۔ کوئی اپنی ماں کے لیے بھی ایسا کہہ سکتا ہے۔ تب ماں کی بات یاد آئی تھی-ماں کہتی تھی کہ جسم کے ساتھی سب تبھی تک ہوتے ہیں ، جب تک تمہارا جسم ان کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔ جیسے ہی ان کے جسم کو تمہارے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے، تو کون اپنا کون پرایا۔ لوگ سوچتے ہیں، جلدی چھٹکارہ ملے۔ اپنے بچے تک منہ پھیر لیتے ہیں۔ ماںکو تو خیر کسی خدمت کی ضرورت نہیں پڑی مگر چچی کو دیکھتی ہوں تو دل میں ہوک سی اٹھتی ہے۔جس ایشور کی پوجا میں انہوں نے رات دن ایک کر دیا، اس نے سوائے دکھوں کے کیا دیا۔ اس کی بھی منطق تھی چچی کے پاس۔ پچھلے جنم میں جو کروہوئی گو وہ واپس ملَواے موئے۔ ابھی پتو نائے کون کون سے جنم میں جی سب دیکھنو پریگو۔
چچا کے بارے میں والد کچھ یوں کہتے تھے-پچھلے جنم کے جو گناہ ہوتے ہیں، وہ اس جنم میں اپنے بھائی-بہن اور بچے بن کر آتے ہیں۔ سب کچھ وصول کرنے۔ یہ میرا بھائی نہیں۔ پچھلے جنم کا کوئی گناہ ہی ہے۔
ماں کی موت پر چچی کو لگا تھا کہ ان کا واحد سہارا چلا گیا۔ وہ بولی تھیں- ’’اِن جتنی محنت کوئی نائیں کر سکے۔ پچاسن کپڑن نے ایک بار میں دھو دیتیں۔ اور جوانی میں رنگ ایسو او، پگھلو سونو۔‘‘
بھائی صاحب جب تک زندہ تھے تو چچا کو سویرے شام پوچھتے تھے۔ ان کے کھانے کا بندوبست کرتے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ گھر میں لے دے کر بڑھیا بچی ہے۔ جب تک ہے، ٹھیک ہے۔ ان کی موت پر چچی اتنی روئی تھیں کہ اپنے بیٹی کی موت پر بھی نہیں۔
کہتی جاتی تھیں- ’’اری بیوی نہ جانے جا کرم میں کتتے دکھ لکھا کے لائی ہوں، پر جا سسرے بھگوان اے موپے کوئی ترس نہ آوے۔ موئے اٹھاوتو،اٹھاولو، میرو چھورا۔‘‘
بھائی صاحب کے بعد ان کی بیوی گاؤں چھوڑ کر اپنے چھوٹک بیٹے کے پاس رہنے چلی گئی تھیں۔ چچی رہ گئی تھیں بالکل اکیلی۔ چبوترے پر بیٹھی آتے جاتوں کو دیکھتی تھیں۔ لوگ نگاہ بچاکر نکلتے۔ کہیں آنکھ مل گئی تو بوڑھیا پوری سات پیڑھی کا حساب پوچھ لے گی۔
چلنے لگی تو چچی نے پیر پکڑ لیے۔ میں نے ہڑبڑاکر پیر چھڑائے- ’’ارے کیا کرتی ہو چچی؟ پیر کیوں پکڑتی ہو؟‘‘
’’ارے، بیٹی کے پاؤں تو پکڑنے پڑتے ہیں۔ بیٹی ایک احسان کریو۔ مر جاؤں تو جا چولے اے جمنا جی تک پہنچا دیو۔‘‘
منہ سے نکل جاتا ہے- ’’ہاں مجھے پتہ چل گیا۔‘‘تو پھر اپنے ہی کہنے کو روک کر کہتی ہوں- ’’ہاں چچی پر جمنا کیا اب وہ جمنا ہے۔گندگی اور کوڑے سے بھری۔‘‘
’’نہیں بٹیا، موکوں تو وہ جمنا میا ہے۔ میا گندی ہے جائے تَو کا وائے بھول جاوتیں۔‘‘
چچی کی بات سارے راستے میرے کان میں گونجتی ہے۔ ایک ندی کے تئیں اتنا پیار، دلار ، انس کیا کہیں اور مل سکتا ہے۔
گاڑی میں بیٹھتی ہوں۔ چچی خاموش اداس نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ چلوں، اب نہ جانے کب آنا ہو۔n