ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ
اقوام متحدہ نے سات برس قبل اپنے اس پختہ عزم کا اعلان دنیا کے سامنے کیا تھا کہ وہ 2030 تک بھوک کا خاتمہ کر دے گا تاکہ انسانی آبادی بھوک کی لعنت سے محفوظ رہ سکے۔ اس اعلان کے الفاظ بڑے امید افزا تھے اور عالمی برادری نے اس سلسلہ میں ہر قسم کا تعاون پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ لیکن آج دنیا بھر میں بھوک کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں، وہ ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہیں۔ دنیا کو کس قدر شدید غذائی بحران کا مسئلہ درپیش ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ہم اگر خود اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے ذریعہ پیش کیے گئے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو صورت حال کی بہتر تصویر ابھر کر سامنے آ سکتی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے جو اعداد و شمار اس برس پیش کیے ہیں، ان کے مطابق ہر شب 82 کروڑ 80 لاکھ لوگ بھوکے سوتے ہیں۔ 2019 میں جو لوگ سخت غذائی مسائل سے دوچار تھے، ان کی تعداد 13 کروڑ 50 لاکھ تھی جس میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور اب ان کی تعداد 34 کروڑ 50 لاکھ پہنچ گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق 45 ملکوں میں بسنے والے5 کروڑ لوگ بھکمری کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں۔ جہاں ایک طرف ضرورتیں بہت بڑھ گئی ہیں وہیں دوسری طرف اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مطلوب وسائل میں بھاری گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ2022 میں15 کروڑ 20 لاکھ لوگوں تک غذا پہنچانے کے لیے 22.2 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کہ عالمی اقتصاد کورونا کی سخت مار سے ابھر بھی نہیں پایا تھا کہ یوکرین پر روسی حملہ نے صورت حال مزید بدتر بنا دی جس کی وجہ سے ضرورت اور فنڈنگ کے درمیان کافی گیپ بڑھ گیا ہے۔ کورونا کے علاوہ ماحولیات کی تبدیلی نے بھی معاملہ کی سنگینی کو بڑھانے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ کورونا سے قبل 13 کروڑ 50 لاکھ لوگ بھوک کی مار جھیل رہے تھے۔ اس میں اب 55 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے صدر ڈیوڈ بیسلی کا کہنا ہے کہ ہم سمجھتے تھے کہ معاملہ 2019 سے زیادہ خراب نہیں ہوگا لیکن اب ایسا نہیں لگتا کہ اس میں جلد راحت کی کوئی امید ہو۔ یوکرین پر روسی حملہ نے دنیا بھر میں بھوک کی صورت حال کو کس طرح بگاڑ کر رکھ دیا ہے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف برطانوی اخبار’دی گارڈین‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے تجارتی سامانوں کے نقل و حمل کے کرایہ میں زبردست اضافہ ہوا ہے، کھاد کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ ان دونوں چیزوں کی قیمتیں اس لیے بڑھ گئیں کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ناقابل گمان اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ بندرگاہیں بند ہوگئیں جہاں سے تجارتی سامان بشمول غذائی اجناس دنیا کے الگ الگ حصوں میں پہنچتے تھے۔
عام قارئین کے ذہن میں ایک سوال ابھر سکتا ہے کہ آخر یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کا اثر دنیا کی غذائی ضرورتوں پر اتنا زیادہ کیونکر پڑ سکتا ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے انہیں اپنے ذہن میں اس بات کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ جنگ سے قبل روس اور یوکرین مل کر دنیا کی ایک تہائی گیہوں سے متعلق ضرورتوں کو پورا کرنے والے ممالک تھے۔ اس وقت روس کے پاس سب سے زیادہ گیہوں ہے۔ کچھ تو اس نے خود اپنی زمین سے پیدا کیا ہے اور کچھ یوکرین سے جنگ کے نتیجہ میں ’چرایا‘ ہے۔ اس پورے معاملہ میں امید کی کرن فی الحال بس اتنی سی نظر آتی ہے کہ حال ہی میں ترکی کی ثالثی سے یوکرین اور روس کے درمیان معاہدہ ہوا ہے جس کی روشنی میں گیہوں کی برآمدات کی راہ میں حائل دشواریوں کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس معاہدہ سے قبل امریکہ نے روس پر یہ الزام لگایا تھا کہ ماسکو نے یوکرین سے جو گیہوں چرایا ہے، اس کو وہ افریقہ میں بیچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن کیا صرف افریقی ممالک ہی روسی گیہوں کے منتظر ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ متوسط آمدنی والے ممالک بھی غذائی بحران سے دوچار ہیں کیونکہ کورونا کی وجہ سے پیدا شدہ مسائل کی وجہ سے ان ملکوں نے اپنے اسٹاک کا اکثر حصہ خرچ کر دیا تھا۔ یہی حال امیر ملکوں کا بھی ہے۔ مسلسل بڑھتے معاشی بحران کے نتیجہ میں امیر ممالک کے اندر بسنے والے والدین کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خود بھوکی سو رہی ہے۔ جن ملکوں کی آمدنی بہت کم ہے، ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے کیونکہ ایسے ممالک کے باشندے اپنی کمائی کا تقریباً آدھا حصہ غذائی ضرورتوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ ایسے میں چیزوں کی بڑھتی قیمتوں سے ان کا جینا مشکل ہو رہا ہے۔ دنیا کی تقریباً 2.3 ارب آبادی کو متوسط سے لے کر بدترین درجہ کی مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ اتنی غذا بھی حاصل نہیں کر پاتی جو پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہو۔ مثال کے طور پر ایتھوپیا، صومالیہ، جنوبی سوڈان، یمن اور افغانستان کے کئی حصوں میں رہنے والی انسانی آبادیاں شدید درجہ کی بھوک سے دوچار رہتی ہیں جس کا سیدھا اثر سماجی اور سیاسی انتشار کی شکل میں نظر آتا ہے۔ ہم نے حال ہی میں یہ دیکھا ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک سری لنکا اسی غذائی بحران کا شکار ہوا اور اس کے نتیجہ میں عوام کا غصہ پھوٹ پڑا۔ وہ سڑکوں پر اتر آئے اور صدارتی محل تک میں گھس گئے۔ نتیجتاً سری لنکا کے صدر گوٹابایا راج پکشے کو ملک سے راہ فرار اختیار کرنی پڑی، انہیں عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔
غذائی بحران کو حل کرنے کے لیے جس درجہ کی سنجیدگی امیر ممالک کے اندر ہونی چاہیے، وہ نظر نہیں آ رہی ہے۔ جی-7 سربراہ اجلاس میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث آیا تھا لیکن جی-7 کے ممبر ممالک نے غذائی بحران پر قابو پانے کے لیے محض4.5 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا جو بالکل ناکافی بلکہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مرادف ہے کیونکہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے جو رقم مطلوب ہے، ماہرین کے مطابق اس کا اندازہ28.5 ارب لگایا گیا ہے۔ ایسی حالت میں بھی برطانیہ نے مجموعی طور پر اپنے اخراجات کو کم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یو این ڈیولپمنٹ پروگرام کے مطابق صرف غذائی اجناس کی فراہمی کافی نہیں ہوگی بلکہ بہت سے حالات میں نقدی کی فراہمی کی بھی ضرورت پڑے گی۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر زراعتی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیوں کی اشد حاجت ہے۔ تمام ممالک کو اس بات پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی کہ وہ مقامی سطح پر جو تعاون فراہم کریں، اس کا رخ پائیدار زراعتی طریقوں کی طرف ہو اور غذائیت سے پر اجناس کی پیداوار کو اولیت کا درجہ دیں۔ درآمدات پر اپنا انحصار کم کریں۔ اقوام متحدہ نے امریکہ کو خاص طور سے اور عمومی طور پر دیگر امیر ممالک کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ غذائی اجناس کی پیداوار میں اپنی ترجیحات پر غور کریں۔ ایسے وقت میں جب کہ دنیا کی انسانی آبادی غذا کے لیے ترس رہی ہے، غذائی اجناس کو حیاتیاتی ایندھن کے لیے استعمال نہ کریں۔ ’دی گارڈین‘ نے اپنے اداریہ میں عالمی لیڈران کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے ضروری امر یہ ہے کہ غذائی بحران کو حل کرنے میں تاخیر سے کام نہ لیا جائے کیونکہ اس میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے اور کتنی جانیں بھوک کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں جا چکی ہیں۔ مزید زندگیاں بھوک کی وجہ سے کربناک موت کا شکار نہ ہوں، اس کے لیے فوری اقدام ضروری ہے۔ بھکمری کا معاملہ کس قدر سنگین ہے، اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دنیا میں آخری بار 2017 میں جب بھکمری کا اعلان کیا گیا تھا تو اس کا تعلق جنوبی سوڈان سے تھا۔ اس سے قبل 2010 اور 2012 کے دوران صومالیہ میں بھکمری کا سنگین واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک اندازہ کے مطابق دو لاکھ ساٹھ ہزار لوگ اس کا شکار ہوئے تھے۔ اگر اس بار دنیا کے الگ الگ حصوں میں یہ بحران ہوتا ہے تو معاملہ کس قدر خوفناک ہوگا، اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی تنظیمیں لگاتار آگاہ کر رہی ہیں کہ 2022 کے مقابلہ 2023 میں حالات کے مزید بدتر ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہم ہندوستانی اس مسئلہ کو اس لیے زیادہ بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ 1942 کی بھکمری کا ہولناک منظر ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ ہمیں عالمی برادری پر لگاتار یہ دباؤ بنائے رکھنا ہوگا تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہ کر سکے اور آج کی نام نہاد مہذب دنیا میں انسانی زندگی کے ساتھ غیر انسانی رویہ کا سلسلہ بند ہو۔ اس سلسلہ میں امیر ملکوں کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ کا سلسلہ بند کریں اور امن و آشتی کے ماحول میں انسانوں کی ترقی و خوشحالی کی راہ ہموار کریں۔n
( مضمون نگار سنٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)