محمد حنیف خان
لوک سبھا میں پیش اعداد و شمار کے مطابق متعدد ریاستوںمیں ہر تیسرا شخص غربت کا مارا ہے، غریبی یہاں اس طرح پاؤں پسارے ہوئے ہے جیسے اسے یہاں سے کبھی جانا ہی نہیں ہے، شہر ہو یا دیہات ہر جگہ کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارتے ہوئے غریبوںکو دیکھا جاسکتا ہے۔یہ اس وقت ہے جب شہر میں 32 روپے یومیہ اور دیہات میں 26 روپے یومیہ جبکہ شہر میں 1000 روپے ماہانہ اور دیہات میں 816 روپے ماہانہ خرچ کرنے والوں کو اس زمرے میں نہیں رکھا گیاہے، اگر کوئی شخص اس مقررہ رقم سے کم متعینہ مدت میں خرچ کرتا ہے تو اس کو ہی غریب تصور کیا جائے گا۔حکومت کے ذریعہ مقررہ اس معیار کے مطابق اگر ہر تیسرا شخص غریب ہے تو ملک کے عوام کی حالت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔سب سے پہلی بات یہ کہ سرکار نے خرچ کی جس رقم کا تعین غربت و امارت کے لیے کیا ہے، وہ خود محل نظر ہے۔لیکن اگر اتنی رقم بھی خرچ کرنے کی ہر تیسرے فرد میں استطاعت نہیں ہے پھر کس منھ سے ’’وشو گرو‘‘ اور 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی بات کرتے ہیں؟ وزیر اعظم اور حکومت کے سبھی اداروں کو سب سے پہلے عوام کی سطح زندگی بلند کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے۔جب تک عوام کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہوتا ہے، اس وقت تک سطح زندگی بلند نہیں ہوسکتی ہے اور قوت خرید کا تعلق آمدنی سے ہے جس کے لیے کاروبار یا ملازمت کا ہونا ضروری ہے۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں اور کاروبار کے لیے عوام کے پاس رقم نہیں ہے۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قوت خرید میں اضافہ کیسے کیا جائے؟
حکومت ہند نے بڑے زور وشور کے ساتھ اسٹارٹ اپ شروع کیے تھے، خود وزیراعظم نے اپنا کاروبار شروع کرنے کی متعدد بار حوصلہ افزائی کی ہے۔حکومت کی سطح پر اس کے لیے متعدد اسکیمیں شروع کی گئیں اور جوش و ولولہ رکھنے والے افراد کو حکومت کی جانب سے قرض بھی مہیا کرائے گئے تاکہ کسی کو اپنا اسٹارٹ اپ شروع کرنے میں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پی ایم سواندھی اسکیم کی بہت بری حالت ہے جو 2020 میں شروع ہوئی تھی تاکہ ان چھوٹے چھوٹے خوانچہ فروشوں کو خود کفیل بنایا جاسکے جو گلیوں گلیوں گھوم پھر کر کاروبار کرتے ہیں اور زندگی گزارنے کے جتن کرتے ہیں۔اس اسکیم کا جائزہ لینے سے ایک ایسی بات ابھر کر سامنے آتی ہے جو حد درجہ تشویشناک، خطرناک اور خوفناک ہے۔
ایک آر ٹی آئی کے مطابق اس اسکیم کے تحت جون 2020 سے مئی 2022 کے درمیان 32.26 لاکھ خوانچہ فروشوں کو فی شخص دس ہزار روپے قرض ایک برس کے لیے دیا گیا۔ خود مرکزی وزارت ہاؤسنگ و شہری ترقیات نے بتایا ہے کہ 32 لاکھ سے زائد قرضہ جات میں صرف 0.01 فیصد اقلیتوں کو قرض دیا گیا ہے۔اس میں بھی صرف مسلم نہیں ہیں بلکہ مسلم، سکھ، عیسائی، جین، بودھ اور پارسی شامل ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اسکیم کی نظر میں صرف اکثریتی طبقے میں ایسے غریب خوانچہ فروش ہیں جن کو یہ قرض مہیا کرایا جائے تاکہ وہ اپنا یہ چھوٹا سا کاروبار چلا سکیں؟ یا پھر کسی سازش کے تحت ان کو قرض نہیں دیا گیا یا اقلیتی طبقات کو اس اسکیم کے بارے میں علم ہی نہیں ہوسکا؟
اس میں دو باتیں ہیں، اول ملک میں خواندگی کی جو سطح ہے وہ عوام کو درست معلومات خصوصاً افادہ عام کی اسکیموں تک نہیں پہنچنے دیتی ہے۔حکومت ان ہی اسکیموں اور منصوبوں کی پبلسٹی کرتی ہے جن سے اس کے مفاد وابستہ ہوتے ہیں یا پھر اس کی اپنی پبلسٹی اس سے جڑی ہوتی ہے۔یہ اسکیم تو غریبوں کے لیے تھی، اس پر زیادہ توجہ ہی نہیں دی گئی۔آر ٹی آئی کے جواب میں اقلیتی طبقات کے مذہب کو الگ الگ نہیں بتایا گیا ہے بلکہ سبھی اقلیتوں(مسلم، سکھ، عیسائی، بودھ، جین اور پارسی) کو ایک ساتھ ضم کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے حتمی تعداد یا فیصد کے بارے میں معلومات نہیں ہے البتہ 0.01 فیصد میں سبھی اقلیتیں شامل ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس اسکیم سے اقلیتوں کو کتنا کم فائدہ پہنچایا گیا ہے۔دوسرے جس طرح کا ماحول بنا ہوا ہے اور لوگوں کے سر پر انسان اور انسانیت کے بجائے مذہب کا بھوت سوار ہے ،اس کے اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتاہے۔
پارسی، سکھ اور جین اقلیتوں میں ایسے طبقات ہیں جن کا تعلق کاروبار سے ہے اور وہ خوشحال بھی ہیں، عیسائی اور بودھوں کی تعداد مسلموں کے مقابلے نہ صرف بہت کم ہے بلکہ مسلموں کے مقابلے ان کی سطح زندگی بہتر ہے، ایسے میں مسلم ہی وہ طبقہ بچتا ہے جس کے یہاں غربت سب سے زیادہ ہے، ملک کے کسی کونے، شہر اور دیہات میں دیکھ لیں اس اقلیت کی حالت سب سے زیادہ قابل رحم ہے۔سچر کمیٹی نے تو اس کی حالت دلتوں سے بھی بدتر بتائی تھی۔ایسے میں یہ اسکیم اس طبقے کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوسکتی تھی کیونکہ اس اسکیم کے تحت بغیر کسی گارنٹی کے ایک برس کے لیے 10000 روپے کا قرض مہیا کیاجاتاہے مگر یہ قرض بھی ان کو نہیں مل سکا۔کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشئیٹو کے ممبر وینکٹیش نائک نے مرکزی وزارت ہاؤسنگ و شہری ترقیات میں ایک آرٹی آئی فائل کی تھی جس کے جواب میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ پی ایم سواندھی اسکیم کے تحت 3.15 فیصد ایس سی اور 0.92 فیصد معذور افراد کو قرض دیا گیا ہے۔مہاراشٹر نے سب سے زیادہ 162 اقلیتوں کو اس اسکیم کا فائدہ دیا ہے جبکہ دہلی میں 110، تلنگانہ میں 22،گجرات میں 12 اور اڈیشہ میں 8 اقلیتوں کو مستفید کیا گیا ہے۔اسی طرح اترپردیش میں 12 افراد کواس کا فائدہ ملا۔اس اسکیم کے تحت ملنے والی درخواستوں پر قرض مہیا کرانے کا فیصد 56.45 ہے۔معذوروں کو فائدہ پہنچانے کے معاملے میں تمل ناڈو سرفہرست ہے، اس نے 8631 افراد کو اس اسکیم سے فائدہ پہنچایاہے۔جبکہ اسی زمرے میں پہلے اور دوسرے قرض کے معاملے میں اترپردیش سرفہرست ہے، اس نے 7278 معذوروں کو دوبار قرض مہیا کرایاہے۔
بادی النظر میں یہ ایک اچھی اسکیم ہے، خاص طور پر اس ملک کے لیے جس کی آبادی کا ہر تیسرا فرد غریب ہو، اگر ہر غریب خوانچہ فروش کو 10 ہزار روپے کی رقم مہیا کرادی جائے اور وہ اپنے محلے، بازار اور آس پاس مناسب مقام پر اپنا چھوٹا سا کاروبار شروع کردے تو یقینا اس غریب عوام کی زندگی کا رخ پلٹ سکتاہے لیکن یہ اس وقت ہوگا جب قرض مہیا کرانے میں کسی بھی طرح کے تعصب کو راہ نہ دی جائے لیکن مندرجہ بالا اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس اسکیم کے تحت قرض مہیاکرانے میں تعصب کو راہ دی گئی ہے ورنہ سبھی اقلیتوں کو ایک ساتھ ضم کرکے0.01فیصد قرض نہ مہیا کرایا جاتا، کم از کم آبادی کے تناسب کا10 فیصد تو یہ قرض ہونا ہی چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا جس کی وجہ سے اقلیتی طبقات کے غریب خوانچہ فروش اس اسکیم سے استفادہ سے محروم رہ گئے۔
حکومت کو سوچنا چاہیے کہ عالمی سطح پر جس طرح کے اس کے منصوبے ہیں اور عالمی افق پر جہاں وہ جگہ چاہتی ہے وہاں تک صرف زبانی اور کاغذی سطح پر کام کرنے سے نہیں پہنچا جاسکتاہے بلکہ اس کے لیے حکومت اور اس کے اداروں کو زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا، جس میں لسانی، مذہبی اور علاقائی سمیت کسی طرح کے تعصب سے بچنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتاہے جب حکومت یہ عزم کرلے کہ ہر غریب کے ہاتھ کو کام دیاجائے گا اور اس کے لیے ضلع و تحصیل سطح پر مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے۔یہ اسکیم اتنی بہتر اور مفید ہے کہ اگر اسی کو زمینی سطح پر ایمانداری کے ساتھ نافذ کردیا جائے تو عوام کی زندگی بدل سکتی ہے۔
[email protected]