عبیداللّٰہ ناصر
ملک کی پندرہویں صدر جمہوریہ کے طور پر محترمہ دروپدی مرمو کا انتخاب یقینی طور سے ایک انقلابی مرحلہ اور ہندوستان کی جمہوریت کا درخشاں پہلو ہے۔اوڈیشہ کے میور بھنج ضلع جو ملک کا سب سے پسماندہ ضلع سمجھا جاتا ہے، اس ضلع کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں دروپدی کالج جانے والی گاؤں کی پہلی لڑکی تھیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ٹیچر بنیں۔ کچھ دنوں بعد سیاست میں قدم رکھا، اسی دوران آر یس ایس سے بھی وابستہ ہو گئیں۔ میور بھنج ضلع کی ریرنگ پور نگر پنچایت کی رکن بنیں پھر دو بار ایم ایل اے منتخب ہوئیں۔اوڈیشہ میں جب بیجو جنتا دل اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بنی تو وہ اس میں بی جے پی کے کوٹے سے وزیر بنیں اور اور پھر جھارکھنڈ کی پہلی خاتون گورنر بنیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو دروپدی مرمو کا ایک نگر پنچایت کی ممبر سے لے کر صدر جمہوریہ ہونے تک کا سفر بہت ہی حوصلہ بخش، مثالی اور ہماری جمہوریت کی کامیابی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ بن گیا ہے۔
بی جے پی خاص کر وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ صحیح معنوں میں ایک ماسٹر ا سٹروک بھی کہا جا سکتا ہے جس سے اپوزیشن ایک بار پھر چاروں خانہ چت ہوگیا کیونکہ سیاسی مصلحت کے تحت بہت سی پارٹیوں نے با دل نخواستہ بھی دروپدی مر مو کا ساتھ دیا کیونکہ وہ آدیواسی طبقہ کو ناراض کرنے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتی تھیں حالانکہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سی پارٹیوں اور بہت سے ووٹروں نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، سی بی آئی اور انکم ٹیکس محکمہ کے خوف میں بھی این ڈی اے کی اس امیدوار کو ووٹ دیا حالانکہ روز اول سے ہی ان کی کامیابی یقینی تھی، خاص کر شیو سینا میں پھوٹ اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے جب ان کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا تو کوئی شک بھی نہیں رہ گیا تھا، آخر میں تو حالات ایسے ہوگئے تھے کہ خود ممتا بنرجی بھی اپنے ہی پارٹی کے یشونت سنہا کی انتخابی مہم میں حصہ لینے سے کترانے لگی تھیں۔
ہندوستان میں صدر جمہوریہ کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے، حکومت کے سارے احکامات اسی کے نام سے جاری ہوتے ہیں، وہ مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا، وہ امریکہ کے صدر کی طرح انتظامیہ کا سربراہ نہیں ہوتا بلکہ ملکہ برطانیہ کی طرح صرف آئینی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ وزارتی کونسل کی صلاح سے ہی اپنا فرض منصبی ادا کر سکتا ہے۔ بس انتخابات کے بعد حکومت سازی خاص کر جب چناوی نتیجہ بالکل واضح نہ ہو، وہ کسی کو بھی حلف دلا کر اس کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کا موقع دے سکتا ہے۔ اسی لیے اکثر صدر جمہوریہ کو وزیراعظم کا ربر ا سٹامپ کہا جاتا ہے، حالانکہ یہ تخلص اس عہدہ کی شان کے خلاف ہے۔اور ایسا ہے بھی نہیں، پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد سے وزیر اعظم نہرو کے اختلاف کے دستاویزی ثبوت بشکل خطوط موجود ہیں جو ان دونوں نے ہندو کوڈ بل کے سلسلہ میں لکھے تھے۔سومناتھ مندر کے افتتاح میں ڈاکٹر راجندر پرساد کی شرکت کی خواہش کے بھی نہرو مخالف تھے، ان کا کہنا تھا ایک سیکولر ملک کے سربراہ کو کسی بھی مذہبی تقریب میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔دونوں میں اتنے اختلاف تھے کہ نہرو راجندر پرساد کو دوبارہ صدرجمہوریہ بھی نہیں بنانا چاہتے تھے، ان کی مرضی نہ ہونے کی بنا پر کانگریس ورکنگ کمیٹی کے زیادہ تر ممبران بھی راجندر پرساد کو دوبارہ صدر بنانے کے مخالف تھے لیکن مولانا آزاد اڑ گئے تو نہرو اور ورکنگ کمیٹی کے دوسرے ممبر ہی نہیں خود نائب صدر جمہوریہ ڈاکٹر رادھا کرشنن کو بھی خاموشی اختیار کرنی پڑی جو صدر جمہوریہ بننے کے خواہش مند تھے اور نہرو کی ان کو حمایت حاصل تھی۔بعدمیں چین کی جنگ اور کرشنا مینن کے کردار کو لے کر ڈاکٹر رادھا کرشنن اور نہرو میں ٹھن گئی تھی اور نہرو کو مینن سے استعفیٰ لینا پڑا تھا۔گیانی ذیل سنگھ کانگریس خاص کر اندرا گاندھی کے وفادار سپاہی تھے، جب صدر جمہوریہ کے الیکشن کے لیے اندرا گاندھی نے انہیں کانگریس کا امیدوار بنایا تو ان کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ اندرا جی کہیں تو میں سڑک پر جھاڑو لگانے کو بھی تیار ہوں لیکن آپریشن بلو ا سٹار کے بعد وہ اندرا جی کی مرضی نہ ہونے کے باوجود ھرمندر صاحب پہنچ گئے تھے۔انہی گیانی جی نے اندرا گاندھی کے قتل کے فوری بعد کانگریس پارلیمانی پارٹی کے باقاعدہ انتخاب کے بغیر ہی راجیو گاندھی کو وزیراعظم مقرر کر دیا تھا بعدمیں الیکشن ہوئے اور اب تک کی سب سے بڑی اکثریت لے کر راجیو گاندھی دوبارہ وزیر اعظم بنے لیکن جب انہوں نے پوسٹل ترمیمی بل تیار کیا، پارلیمنٹ سے منظوری بھی لے لی تو گیانی جی نے اس پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ عوام کے حق رازداری کے خلاف ہے جو آئین میں دیا گیا بنیادی حق ہے۔گیانی جی کے اس انکار سے راجیو گاندھی کی حکومت ہل گئی تھی، حالانکہ اسے ایوان میں سب سے بڑی اکثریت حاصل تھی جو آج تک کسی وزیر اعظم کو نہیں ملی لیکن راجیو گاندھی نے جمہوری قدروں کی پاسداری کرتے ہوے وہ بل واپس لے لیا، یہی نہیں گیانی جی پر تنقید کرنے والے اپنے وزیر کے کے تیواری کو کابینہ سے نکال بھی دیا تھا۔گجرات فساد کو لے کر صدر جمہوریہ کے آر نرائنن نے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کو سخت خط لکھ کر کارروائی کی ہدایت دی تھی جس کے بعد واجپئی جی گاندھی نگر گئے اور نریندر مودی کو راج دھرم نبھانے کا اپدیش دیا تھا۔ریاستوں میں صدر راج نافذ کرنے کو لے کر نرائنن اور کلام صاحب کے سخت رویہ سے کئی بار اٹل جی کی سرکار مشکلات میں پڑ چکی تھی۔اس لیے یہ کہنا کہ صدر جمہوریہ محض ربر کی مہر ہوتا ہے مناسب نہیں۔
صدر جمہوریہ کسی بل یا واقعہ پر حکومت سے جواب طلب کر لے تو یہ حکومت پر ایک اخلاقی دباؤ ہوتا ہے بشرط یہ کہ حکومت کو اخلاقیات اور آئینی تقاضوں کا پاس و لحاظ ہو، وہ تکبر نہ دکھائے اور اسے اپنی انا کا مسئلہ نہ بنا لے۔
اس فہرست میں ایک دلچسپ کردار مرحوم صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد کا ہے جنہوں نے 1975 میں اندرا گاندھی کے ذریعہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے فرمان پر دستخط کیے تھے اور ایک جھٹکے میں عوام کے تمام آئینی اور جمہوری حقوق سلب کر لیے گئے تھے۔اس زمانہ میں مشہور کارٹونسٹ کے آر لکشمن کا ایک کارٹون پوری دنیا میں مشہور ہوا تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ فخرالدین صاحب باتھ ٹب میں لیٹے لیٹے ایمرجنسی نافذ کرنے کے فرمان پر دستخط کرنے کے بعد افسر سے پوچھ رہے ہیں کہ کسی اور فرمان پر دستخط کروانا ہے کیا؟ ظاہر سی بات ہے کہ صدر جمہوریہ کی ذریعہ وزیر اعظم کی تابعداری کی یہ ایک مثال تھی لیکن یہاں ایک بات کا دھیان رکھنا ہوگا اور اس کے لیے فخر الدین صاحب کو شبہ کا فائدہ دیا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک آئین میں اس طرح ایمر جنسی نافذ کرنے کا جواز موجود تھا جو مرار جی دیسائی کی قیادت میں بننے والی جنتا پارٹی کی حکومت نے آئین سے نکال دیا تھا۔
صدر جمہوریہ کے عہدہ کے لیے محترمہ دروپدی مرمو کی امیدواری کے اعلان کے بعد ہی یہ سوال زور شور سے اٹھایا جا رہا تھا کہ صدر جمہوریہ بننے کے بعد کیا وہ اپنے آدی واسی سماج کی کوئی خدمت کر سکیںگی، کیا وہ ان کے مسائل حل کر سکیںگی؟ جواب ہے نہیں،کیونکہ آئین کے مطابق اول تو وہ کسی ایک طبقہ کی نہیں بلکہ ہر ہندوستانی کی صدر ہیں اور سب کے مفاد اور حقوق کی حفاظت کرنا ان کا فرض اولین ہے، دوسرے یہ کام ملک کے سربراہ کا نہیں ملک کی انتظامیہ کے سربراہ یعنی وزیر اعظم کا ہے۔ صدر جمہوریہ کا فرض اولین ہے کہ وہ عوام کے آئینی، جمہوری اور انسانی حقوق کی حفاظت کریں۔ افسوس کی بات ہے کہ سبکدوش صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند جی اس فرض کی ادائیگی میں بری طرح ناکام رہے تھے۔شہریت ترمیمی قانون جموں وکشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ، زرعی ترمیمی قانون کھلے عام آئینی جوازوں سے الگ ہٹ کر محض ایوان میں اکثریت کے بل منظور کرا لیے گئے اور رام ناتھ کووند جی نے بنا پلک جھپکائے انہیں راتوں رات منظوری دے دی، حکومت سے کوئی وضاحت نہیں طلب کی، کوئی سوال تک نہیں کیا۔ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کی طرف سے مسلسل چشم پوشی کرتے رہے اور ربر کی مہر ہونے کے الزام کو سچ ثابت کرتے رہے۔
دروپدی مرمو جی ہندوستان کی آئینی جمہوریت کی تاریخ کے ایک سنگین موڑ پر ایسے عہدہ پر فائز ہوئی ہیں جہاں آئینی جمہوریت کی حفاظت ہی ان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ان سے کوئی سماج، کوئی طبقہ، یہاں تک کی آدی واسی طبقہ بھی کسی فائدہ کی امید نہیں کرتا لیکن یہ امید ضرور کرتا ہے کہ وہ سماج کے ہر طبقہ کے آئینی، جمہوری اور انسانی حقوق کی حفاظت کریں گی اور جس آئینی جمہوریت نے انہیں اس مقام تک پہنچایا ہے، اس کے سامنے جو بھی خطرہ آئے گا اس کے خلاف جو بھی سازش کی جائے گی وہ اس کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں گی۔آدی واسیوں کے جل جنگل زمین پر جس کارپوریٹ کی للچائی نظریں لگی ہیں، کیا وہ ان کی حفاظت کر پائیں گی کیونکہ حکومت تو کارپوریٹ کے ہاتھوں پورا ملک فروخت کر دینے کے درپے ہے۔نکسلیوں کی سرکوبی کے نام پر آدی واسیوں ہی نہیں، ان کی حمایت کرنے والوں تک پر جو مظالم حکومت کر رہی ہے، کیا وہ اپنے پیش رو کی طرح ہی اس پر خاموش رہیں گی؟آئین ہندوستان کو ایک سیکولر سوشلسٹ ملک قرار دیتا ہے، کیا وہ ہندوستان کا یہ قرار نامہ محفوظ رکھ پائیںگی؟یہ اور ایسے ہی کئی سوال اور کئی مسائل بطور صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو کے سامنے آئیں گے اور ان کے جواب اور حل پر ہی تاریخ میں ان کے مقام کا تعین ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]