انجینئر خالد رشید علیگ
یوگی جی نے ایک بار پھر حقیقت سے دور اعداد و شمار کی سچائیوں کے خلاف وہی غیر حقیقی بیان دے کر آبادی کے جن کو پھر بوتل سے باہر آنے کا موقع فراہم کردیا جیسا استعمال عام طور سے فرقہ وارانہ خلیج کو مزید گہرا اور وسیع کرنے کے لئے سالوں سے ہو رہا ہے اور ملک میں پھر وہی بحث شروع ہو گئی کہ ملک کی بڑھتی آبادی کے لیے وہی لوگ ذمہ دار ہیں جو پنپنے کے لیے دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے کما پاتے ہیں۔ ایک بار پھر ٹی وی چینلس پہ داڑھی والے مولانا کو بیٹھا کر میڈیا کے ایک گروپ کے اینکر وہی بیہودہ غیر منطقی سوال پوچھیں گے کہ مسلمان کیوں چار چار شادیاں کر کے چالیس چالیس بچے پیدا کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جائیں گے کہ مسلمان ہی ملک کی بڑھتی آبادی کے لئے ذمہ دار ہیں۔ اسی اثنا آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا بھی ایک سیاسی بیان منظر عام پر آیا جس میں موصوف نے آبادی بڑھانے والوں کو جانوروں سے تعبیر کر کے اس بحث کو فرقہ وارانہ رنگ دے ڈالا۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ بڑھتی آبادیوں والے ملک جن کے وسائل محدود ہیں وہ اپنی بڑھتی ہوئی آبادیوں سے خوف زدہ بھی ہیں اور فکر مند بھی۔ وہیںدنیا میں ایسی حکومتیں اور لیڈران بڑی کثیر تعداد میں موجود ہیں جو اپنی ناکامیوں اور غلط پالیسیوں کا ٹھیکرا بڑھتی آبادیوں کے سر پھوڑکر اپنی ذمہ داری سے پلہ جھاڑ لیتے ہیں اور ایسے سیاست داں بھی کم نہیں جو بڑھتی آبادی کی لپٹوں پر ہمیشہ اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ ان کا مقصد آبادی کو کنٹرو ل کرنا نہیں بلکہ کسی ایک طبقہ کی بڑھتی آبادی کا خوف دکھا کر اپنے ووٹ بنک کو متحد رکھنا اور اقتدار پہ اپنا تسلط قائم رکھنا ہے وہی ہر بار آبادی کا جن بوتل سے نکال کر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے لگتے ہیں ورنہ حقیقت اس پروپیگنڈے کے بالکل برعکس ہے جس کا ڈھنڈورا یوگی اور موہن بھاگوت پیٹ رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ بہت جلد ہندوستان ان ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے گاجن کی آبادیاں کم ہو رہی ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان میں فرٹیلٹی ریٹ یعنی بچہ پیدا ہونے کی شرح بتدریج کم ہو رہی ہے 50 کی دہائی میں جو فرٹیلٹی ریٹ 6.2 ہوا کرتاہے وہ 2019 میں گھٹ کر 2.2 رہ گیا تھاجس کے 2025 میں دو رہ جانے کی پیش گوئی حکومت کے ادارے خود کر چکے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ اگر یہ فرٹیلٹی ریٹ 2.1 ہوجاتا ہے تو آبادی میں بڑھوتری رک جاتی ہے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2025 تک ہندوستان میں یہ فرٹیلٹی ریٹ 2 ہو جائے گا یعنی ملک کی ہر عورت اوسطاً 2 بچے پیدا کرے گی جس کے بعد ملک کی آبادی کم ہونا شروع ہو جائے گی اور ہندوستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گاجن کو کم ہوتی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا ہے۔ قابل غور ہے کہ ابھی چندسال قبل ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کو اپنی خواتین سے آبادی بڑھانے کی اپیل کرنی پڑی تھی اور کہنا پڑا تھا کہ جو عورت 5بچے پیدا کرے گی اس کو حکومت خاص مراعات دے گی۔
ہوسکتا ہے 2025 کے بعد موہن بھاگوت اور یوگی جی کو بھی ہندوستانی خواتین سے اسی قسم کی اپیلیں کرنی پڑیں اس لیے یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے کہ ایسی صورت میں جب ہندوستان کو بڑھتی آبادی سے کوئی سنگیں خطرہ درپیش نہیں تو یوگی اور موہن بھاگوت کے اس واویلا کا اصل مقصد کیا ہے؟کیا یوگی آدتیہ ناتھ اور آر ایس ایس سربراہ کو ان حقائق کا علم نہیں جو بار بار بڑھتی آبادی کا جھوٹا جن بوتل سے نکال کر مسلمانوں کو بڑھتی آبادی کا ذمہ دار بتاتے ہیں کہیں اس ہنگامہ کے پیچھے کوئی اور سازش تو کار فرما ں نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار یہ ثابت کر چکے ہیں کہ کسی بھی ملک یا سماج میں آبادی بڑھنے کی یا گھٹنے کی بنیادی وجوہات اس کی اقتصادی تعلیمی اور سماجی ترقی سے براہ راست منسلک ہوتی ہیں مثال کے طور پر 1994 میں اقوام متحدہ نے 150 ممالک سے جو اعداد وشمار جمع کیے ان سے معلوم ہوا کہ جاپان میں جہاں فی کس آمدنی 36000 ڈالر تھی وہاں فرٹیلیٹی ریٹ 1.2 تھا جبکہ ایتھوپیا جہاںفی کس آمدنی 900 ڈالر تھی وہاں فرٹیلیٹی ریٹ 6 تھا۔ جو لوگ آبادی کی بڑھوتری کو مذہب سے جوڑتے ہیں ان کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ایتھوپیا ایک عیسائی اکثریت والا ملک ہے اور جاپان میں بودھ آبادی کی اکثریت ہے۔ آبادی کے مسئلہ کو مذہب سے جوڑنے والوں کے لیے شمال افریقہ کے تین پڑوسی مسلم ممالک لیبیا ، تیونس، مصرکی مثال بھی دی جا سکتی ہے، جہاں لیبیا کا رقبہ 1.7 ملین مربع کلومیٹر ہے یہ ملک تیل کی دولت سے مالامال ہے اور آبادی صرف 6 ملین ہے ۔اسی لیے حکومت وہاں زیادہ بچے پیدا کرنے پر تنخواہ میں اضافہ کر دیتی ہے۔ اسی ملک کے مغرب میں تیونس ایک چھوٹا ملک ہے جس کا رقبہ ایک لاکھ ستر ہزار مربع کلومیٹر یعنی لیبیا کا دسواں حصہ ہے تیونس بھی ایک مسلم ملک ہے لیکن وہاں حکومت خاندانی منصوبہ بندی کے سارے حربے استعمال کرتی ہے۔ یہی معاملہ مصر کا ہے جہاں 90فیصد مسلمان ہوتے ہوئے بھی خاندانی منصو بہ بندی کے جدید طریقے استعمال کرنے والوں کی تعداد 60 فیصد ہو چکی ہے وہاں بھی حکومت خاندانی منصوبہ بندی کو فروغ دے رہی ہے یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ تینوں مسلم اکثریت کے ملک ہیں 2009 میں اقوام متحدہ نے 50ممالک کا سروے کرکے جو اعداد و شمار جمع کیے وہ بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ جن ممالک میں تعلیمی اقتصادی اور سماجی صورت حال بہتر ہوئی ہے وہاں آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ ہندوستان کو اس کی سب سے بڑی مثال کے طور پہ پیش کیا جا سکتا ہے جہاں سماجی اور تعلیمی ترقی کے سبب آبادی بڑھنے کی شرح میں زبردست گراوٹ آئی ہے لیکن یہاں سیاست کے اپنے تقاضے ہیں اپنی مجبوریاں ہیں، اپنا سماجی تانہ بانا ہے۔ ہمارے ملک میں اعلیٰ ذات کے امیر لوگوں کا ملک کے زیادہ تر وسائل پر صدیوں سے قبضہ رہا ہے یہ لوگ کیونکہ تعلیمی سماجی اور اقتصادی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں اس لیے ان کی آبادی جاپان اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک کی آبادی کی طرح گھٹ رہی ہے اور غریب طبقات جن کی 85 فیصد تعداد ترقی سے محروم رہی ہے ان کی آبادی ایتھوپیا کی آبادی کی طرح بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اعلیٰ ذات والوں کو اپنی کم ہوتی آبادی کے تناسب کاخوف لاحق ہے جس کا حل باقی بچے تمام پسماندہ طبقات جن میں ہندو مسلمان سب شامل ہیں ان کے لئے دو بچوں کی پالیسی نافذ کروانا ہے۔ یہ سب ہنگامہ اسی لیے وقتاً فوقتاً بپا کیا جاتا ہے اگر ملک کے سبھی طبقوں کے لیے دو بچوں کی پالیسی بن جاتی ہے تو ان اعلیٰ ذات دولت مندوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گاجن کی عورتیں پہلے ہی دو بچے پیدا کرتی ہیں ۔ لہٰذا ان کی آبادی میں اضافہ کی شرح ان طبقات سے کم ہے جو ترقی کے ثمر سے محروم ہیں و ہ 85 فیصد عوام اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے پچھڑے عوام ہیں جن کی آبادی 15 فیصد ترقی یافتہ لوگوں کے تناسب میں اقتصادی پسماندگی کے سبب بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ لوگ ہیں پچھڑی ذاتوں کے جن میں مسلمان بھی شامل ہیں اور کیونکہ سیاسی مجبوریوں کے چلتے اس مسئلہ کو تمام پچھڑی ذاتوں سے نہیں جوڑا جا سکتا اس لیے مسلمانوں کو نشانہ بنا کر دو بچوں کا قانون بنا کر مقصد امیر اعلیٰ ذات کے طبقوں کی حفاظت کرنا ہے اگر حکومت واقعی اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ آبادی میں اگر قابلے تشویش حد تک بڑھوتری ہو رہی ہے تو وہ اقتصادی سماجی اور تعلیمی پچھڑے پن کا نتیجہ ہے جس کو اگر دور کرنا ہے تو ترقی سے محروم طبقات کو سہارا دے کر قومی وسائل کومساوی طور پر تقسیم کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا خوف پیدا کر کے ہندوؤں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے راغب کرنے سے یہ پیچیدہ مسئلہ اور بھی خطرناک صورت اختیار کرلے گا جس کا خمیازہ پورے ملک کو اٹھانا پڑے گا۔ بھا گوت کی بات تو ان کے ایجنڈے پر منحصر ہو سکتی ہے لیکن یوگی آدتیہ ناتھ ایک آئینی عہدے پہ فائز ہیں وہ ملک کے طاقتور چیف منسٹر ہیں ان کا فرض ہے کہ آبادی میں بڑھوتری کی اصل وجہ کا پتہ لگائیں۔ بجائے اس بیماری کو ہندو مسلم کے چشمہ سے دیکھ کر نظر انداز کر دینے کے ان کو چاہیے کہ جلد سے جلد ایک کمیشن کا اعلان کریں جو پورے صوبہ کے تمام طبقات کی اقتصادی سماجی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے اگر یہ ثابت کرے کہ آبادی میں اضافہ کی اصل وجہ تعلیمی اقتصادی اور سماجی پچھڑاپن ہے۔صوبہ میں ہر شہری کے لیے بارہویں کلاس تک مفت تعلیم کا یہ نظام آبادی میں بڑھوتری اور جہالت سے جڑی دوسری بیماریوں کا سب سے مؤثر علاج ہوگا ۔
گزشتہ دنوں ایک تجویز آئی تھی کہ جو شہری دو سے زیادہ بچے پیدا کریں ان کو سرکاری مراعات سے محروم کر دیا جائے۔ اس کی جگہ یہ پالیسی مرتب کی جائے کہ جوشہری اپنے بچوں کو بارہویںکلاس تک تعلیم دلوانے کو راضی نہ ہوں ان کو سرکاری مراعات سے محروم رکھا جائے۔
[email protected]