عبیداللّٰہ ناصر
ہندوستانی سیاست کا معیار کتنا گر سکتا ہے، اس کا اندازہ سابق نائب صدر جمہوریہ ڈاکٹر حامد انصاری پر بی جے پی کے قومی ترجمان گورو بھاٹیہ کے بیہودہ مضحکہ خیز لیکن سنسنی خیز الزامات سے ہوتا ہے جو انہوں نے چند دنوں قبل اپنی پریس کانفرنس میں حسب عادت، حسب منصوبہ اور حسب حکمت عملی ٹی وی چینلوں نے گھنٹوں مباحثہ بھی کرا کے ڈاکٹر حامد انصاری اور کانگریس کو ملک دشمن ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ سب سے پہلے تو گورو بھاٹیہ کے بارے میں بتا دیں کہ یہ ہمارے ہی شہر لکھنؤ کا باشندہ ہے، اس کے والد آنجہانی ویریندر بھاٹیہ ہائی کورٹ کے ممتاز وکیل اور لکھنوی تہذیب کی نمائندہ شخصیت تھے۔وہ سماج وادی پارٹی سے وابستہ تھے اور لکھنؤ سے الیکشن بھی لڑے تھے۔ گورو بھاٹیہ نے بھی سفر سماج وادی پارٹی سے ہی شروع کیا تھا اور پارٹی کا قومی ترجمان تھا، بعد میں اسے احساس ہوا کہ سماج وادی پارٹی میں اس کے امکانات زیادہ نہیں ہیں تو اس نے بی جے پی جوائن کر لی اور چونکہ مودی امت شاہ کی بی جے پی میں آگے بڑھنے کے لیے بدزبانی، جارحانہ انداز اور مخالفین پر رکیک حملہ اضافی صلاحیت ہے، اس لیے اس نے اپنے والدین کی پرورش اور اپنے آبائی شہر کی تہذیب شرافت- زبان و بیان پر قابو، مخالفین کی بھی عزت اور احترام جیسے اوصاف ترک کر کے گالی گلوچ اور بدزبانی کو ہی اپنا ہتھیار بنا لیا ہے، وہ اپنی حرکتوں اور اپنی بد زبانی سے اپنے قابل احترام مرحوم والد اور اپنے تہذیبی شہر کا نام ڈبو رہا ہے۔
ڈاکٹر حامد انصاری کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ مجاہدین آزادی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے جدامجد ڈاکٹر مختار انصاری کانگریس کے صف اول کے لیڈروں میں تھے جن کے نام پر دہلی میں انصاری روڈ ہے، ان کے خاندان کے ہی فرد بریگیڈیئر عثمان تھے جنہوں نے پاکستان جا کر وہاں کی فوج کا پہلا کمانڈر انچیف بننے کی مسٹر جناح کی پیش کش ٹھکرا دی تھی اور پھر پاکستان سے لڑتے ہوئے ہی شہید ہو گئے تھے۔ خود حامد انصاری صاحب نے پوری زندگی ملک کی خدمت میں وقف کر دی، وہ انڈین فارن سروسز میں منتخب ہو کر مختلف حیثیتوں سے ملک کی خدمت کرتے رہے۔ وہ ایران سعودی عرب میں ہندوستان کے سفیر اور متحدہ اقوام میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ بھی رہے، اس کے علاوہ اندرون ملک بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے اور ملک کی شاندار خدمات انجام دیں، بعد میں وہ نائب صدر جمہوریہ ہو کر اب ریٹائرمنٹ کی پر سکون زندگی گزار رہے تھے کہ بلا وجہ کے تنازعوں نے انہیں گھیر کر ان کا ذہنی سکون غارت کر دیا ہے۔ ان تنازعوں کا آغاز نائب صدر جمہوریہ رہتے ہوئے ان کا مودی کے دور حکومت میں سیکولر زم سے انحراف اور مسلمانوں کو طرح طرح سے ٹارگیٹ کیے جانے کے خلاف لب کشائی سے ہوا تھا۔ ظاہر ہے ان کی صاف گوئی مودی کو راس نہیں آئی تھی اور ان کی الوداعی تقریب میں ہی اپنی تقریر میں مودی نے ان پر طنز کیا اور وہ باتیں کہیں جو عام طور سے ایسی تقریبوں میں نہیں کہی جاتیں۔ بہرکیف حامدصاحب کی مشکلات کا یہاں سے آغاز ہوگیا اور ان کی شاندار ملکی خدمات کو نظر انداز کر کے ان پر رکیک شرمناک حملے شروع کر دیے گئے ۔
حیرت اور شرم کی بات ہے کہ مجاہدین آزادی اور شہید وطن کے خاندان سے وابستہ شخص جس کی خود کی قومی خدمات شاندار رہی ہوں، ان پر وہ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں جن کا جنگ آزادی کے دوران انگریزوں کی خدمت، ان کی مخبری اور پنشن لینے کا ریکارڈ رہا ہو اور ان سوالوں کی بنیاد کیا ہے؟ پاکستان کے ایک مشکوک کردار کے نام نہاد صحافی نصرت مرزا کا بیان۔یہ صحافی پاکستان میں طرح طرح کی سازشی تھیوری پیش کرنے اور سنسنی پھیلانے کے لیے بدنام ہے، اس نے دعویٰ کیا تھا کہ 2005 میں آیا زلزلہ، 2010 میں آیا سیلاب اور 2011کی سنامی امریکی سازش تھی، سوچئے یہ آدمی کتنا قابل اعتبار ہو سکتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ ہم مغل ہیں، ہم نے ہندوستان پر حکومت کی ہے، اس لیے ہم ہندوستان اور وہاں کے مسلمانوں کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ اب اس سوچ کے آدمی کی ذہنی کیفیت سمجھنا مشکل تو نہیں؟ لیکن یہ آدمی بی جے پی کے لیے قابل اعتماد ہے اس کا دعویٰ پہلی نظر میں چاہے جتنا مضحکہ خیز لگے وہ بی جے پی کے لیے الہامی ہے کیونکہ یہ اس کے ایجنڈے کو سوٹ کرتا ہے اور اپنی پوری زندگی ملک کی خدمت میں وقف کردینے والے حامد صاحب کی وضاحت اورصفائی انہیں قابل قبول نہیں ۔
اور بی جے پی کے مذکورہ ترجمان نے اپنے بیان اور اس کے بعد ایک موقر انگریزی روزنامہ میں چھپے اپنے بیان میں اس وقت کی منموہن سرکار اور خاص کر صدر کانگریس سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا ہے، یعنی وہ کہنا چاہتا ہے کہ نہ صرف اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری بلکہ منموہن سنگھ کی سرکار اور سونیا و راہل گاندھی پاکستان اور اس کی رسوائے زمانہ خفیہ تنظیم آئی ایس آئی کے لیے کام کر رہے تھے۔چونکہ یہ الزام حکمراں جماعت کے قومی ترجمان نے لگائے ہیں، اس لیے خاصا سنگین اور توجہ طلب مسئلہ بن جاتا ہے، بہتر ہوتا کہ الزام لگانے سے پہلے مودی حکومت ان الزامات کی جانچ کرا لیتی اور اس کے حساب سے قانونی کارروائی کرتی۔بنا جانچ پڑتال کے سابقہ حکومت اور اس کے نائب صدر جمہوریہ پر ایسے سنگین الزام لگا دینا نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی اور بدترین قسم کی غیر ذمہ داری ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی کے ’’ڈرٹی ٹرک‘‘ شعبہ کا یہ ایک اور گھناؤنا شعبدہ ہے۔حامد انصاری صاحب نے اپنا وضاحتی بیان جاری کر کے ان الزامات کی تردید کر دی ہے لیکن آج کے سیاسی اور سماجی ماحول میں محض تردیدی بیان جاری کر دینا ہی کافی نہیں ہے، یہ حامد صاحب کی کردار کشی ہے اور بہتر ہوگا کہ وہ گورو بھاٹیہ پر مجرمانہ ہتک عزت کا دعویٰ دائر کریں (حالانکہ اب توعدالتوں سے انصاف ملنا تو درکنار الٹے سزا مل جانے کا خطرہ ہے) لیکن پھر بھی اتنے سنگین الزام کو یونہی درگزر کرنے کا مطلب ہوگا ایک اور ایسا ہی بیہودہ الزام اور کردارکشی کا لامتناہی سلسلہ، جسے قانونی کارروائی کر کے ہی روکا جا سکتا ہے۔
یہاں پر کچھ باتوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔ نصرت مرزا خود کو آئی ایس آئی کا مخبر بتاتا ہے، کیا کوئی خفیہ ایجنسی کسی ایسے غیر ذمہ دار شخص کو اپنا مخبر بنا سکتی ہے جو اپنا راز افشا کر دیتا ہو؟ دنیا کا کوئی جاسوس، کوئی ایسا مخبر بھلے ہی خدمات سے سبکدوش ہوچکا ہو، کبھی اپنی شناخت اور کسی خفیہ ایجنسی یا خفیہ مشن سے اپنا تعلق نہیں ظاہر کرتا کیونکہ سبکدوشی کے باوجود بھی اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اپنے ذاتی تحفظ کے علاوہ اس پر یہ اخلاقی ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ وہ سبھی راز اپنے سینے میں ہی رکھے۔ دوسرے نصرت مرزا کی حامد صاحب سے کوئی نجی یا الگ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی وہ اس کانفرنس میں شریک ہوا تھا جس کی صدارت حامد صاحب نے کی تھی پھر کون سے راز انہوں نے اسے بتا دیے؟ ویسے بھی نائب صدر جمہوریہ کے پاس ایسے کوئی راز ہوتے بھی نہیں، نہ ہے ایسی کوئی فائل ان کے رو برو پیش کی جاتی ہے۔
نائب صدر جمہوریہ بنیادی طور سے راجیہ سبھا کا چیئرمین ہوتا ہے اور اس کا فرض منصبی راجیہ سبھا کے اجلاس کی صدارت کرنا ہے، اس کے پاس کسی وزارت کی کوئی فائل نہیں پیش کی جاتی اور نہ ہی وہ پالیسی سازی میں دخل رکھتا ہے پھر وہ کوئی راز کیسے افشا کر سکتا ہے یا کسی کو کوئی خفیہ جانکاری کیسے دے سکتا ہے؟
ایک بات اور کسی بھی سرکاری تقریب وسمینار وغیرہ میں غیرملکی مہمان مدعو کرنے کی ذمہ داری وزارت خارجہ کی ہوتی ہے، وہی مہمانوں کی فہرست تیار کرتی ہے اور پھر اس کی منظوری حاصل کرتی ہے چونکہ لسٹ وزارت کی طرف سے آتی ہے، اس لیے ہو سکتا ہے حامدصاحب نے اس کی منظوری دے دی ہو، اس لیے ان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔
اس الزام کے علاوہ حامد صاحب پر اور بھی کئی الزام لگا کر ان کی کردار کشی ہی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ انہیں وطن دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے یوم جمہوریہ کی پریڈ میں پریڈ کو سلامی نہیں دی جبکہ پروٹوکول کے مطابق مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہونے کے ناطے صرف صدر جمہوریہ پریڈ کی سلامی لیتے ہیں، پاس میں کھڑے نائب صدر جمہوریہ، وزیر اعظم اور وزیر دفاع صرف اٹینشن کھڑے رہتے ہیں۔ پہلی یوم جمہوریہ کی پریڈ سے لے کر مودی کا دور شروع ہونے سے قبل تک کی فوٹیج اس کی گواہی کے لیے دیکھی جا سکتی ہیں۔
در اصل یہ سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت کیا جا رہا ہے اور پاکستان کا وہ متنازع صحافی کسی نہ کسی طرح اس کھیل کا حصہ بن چکا ہے۔جھوٹے کو گھر تک پہنچانے کے لیے حامد صاحب کو میدان میں آنا ہوگا اور ہتک عزت کا دعویٰ ٹھونک کر بدزبانوں کی زبان بند کرنا ہوگی۔
’’مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر‘‘
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]