ہندوستان سے مدد کا ہاتھ، چین نے چھوڑا ساتھ

0

قرض کے جال میں پھنسا سری لنکا انارکی کے دور سے گزر رہا ہے۔ 1948میں آزادی ملنے کے بعد یہ شاید اس کے لیے سب سے مشکل وقت ہے۔ سری لنکا کو اس بحران میں جھونکنے والے سابق صدر گوٹابایا راج پکشے پسندیدہ ٹھکانہ کی تلاش میں روز ملک بدل رہے ہیں اور ان کے پیچھے عوام کے غصہ کی آگ میں ’لنکا‘ جل رہی ہے۔ دو ماہ قبل گوٹابایا کے بڑے بھائی سابق وزیراعظم مہندا راج پکشے کے استعفیٰ کے بعد شروع ہوا عوامی غصہ کا یہ طوفان ملک گیر تشدد اور درجنوں سری لنکائی شہریوں کی جان لینے کے ساتھ ہی اب بدانتظامی، مفلسی اور تاناشاہی کی مخالفت کی بین الاقوامی علامت بن گیا ہے۔
اس قومی آفت میں سری لنکا کی مدد کے لیے کوئی ملک آگے آیا ہے تو وہ ہندوستان ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان میں حکومت کسی بھی پارٹی کی رہی ہو، سری لنکا کو لے کر ہندوستان کا رویہ ہمیشہ تعاون والا رہا ہے۔ بحران کے اس وقت میں بھی ہندوستان اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ ایک طرف جہاں آئی ایم ایف اور مغربی ممالک سری لنکا کی مدد کے لیے وہاں کے حالات معمول پر آنے کا انتظار کررہے ہیں، وہیں ہندوستان نے بلاتاخیر مدد کا ہاتھ آگے بڑھایا ہے۔
22جون کو سری لنکاکی پارلیمنٹ میں اس وقت کے وزیراعظم رانیل وکرم سنگھے کے بیان کے مطابق، ہندوستان نے کھانا، ایندھن ، کھاد اور دواؤں کے لیے کل 4بلین ڈالر کا قرض دیا ہے۔ ہندوستانی ہائی کمیشن کی ایک پریس ریلیز کے مطابق، ہندوستان اب تک سری لنکا کو گرانٹ کی شکل میں600ملین ڈالر سمیت ترقیاتی کاموں کے لیے کل 5بلین ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی ’نیبرہڈ فرسٹ‘ اور ساگر پالیسی کے تحت بھی ہندوستان سری لنکا کو روزمرہ کی ضروریات کی چیزیں بھیج رہا ہے۔ وہیں مدد کے معاملہ میں ملک میں سیاسی عام رائے بنانے کے لیے وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے گزشتہ دنوں کئی سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔ اس دوران سینئر افسران کا ایک وفد کولمبو جاکر وہاں کے حالات کا مطالعہ اور مدد جاری رکھنے کے طریقوں پر سری لنکاکے انتظامیہ سے چرچہ بھی کر آیا ہے۔
دوسری طرف سری لنکا سے اٹوٹ دوستی کی قسم کھانے والا چین کسی بھی طرح اپنا قرض نکالنے کے فراق میں ہے۔ اس سال سری لنکا 26ارب ڈالر کے جس قرض کی دوبارہ ادائیگی نہیں کرپایا ہے، اس میں سے چین کا بقایا 7ارب ڈالر کا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق، 2006اور جولائی2019کے دوران سری لنکا کے بنیادی ڈھانچہ میں چین نے کل 12.1بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ وہیں سال 2021 میں سری لنکا کے کل غیرملکی قرض میں چین کا حصہ 19.9فیصد تھا۔ بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ چین کے قرض سے جو پروجیکٹ سری لنکا میں بنائے گئے، وہ کمائی نہیں کرپائے۔ ایسے میں اس کا زردمبادلہ کا ذخیرہ مسلسل کم ہوتا گیا۔ لیکن سری لنکا کے لیے حالات آسان کرنے کے بجائے چین نے اس کے سامنے سخت شرائط رکھ دی ہیں۔ چین چاہتا ہے کہ سری لنکا پہلے اپنے معاشی حالات درست کرے، قرض کی ری شیڈیولنگ کا مطالبہ کرنے کے بجائے قرض کی ادائیگی کا انتظام کرے، طویل عرصہ سے ٹل رہے چین-سری لنکا آزاد تجارتی معاہدہ کو آخری شکل دے اور سب سے اوپر ہندوستان، مغربی ممالک اور آئی ایم ایف سے دوری بنائے۔ سری لنکا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے چین اس پر قرض لینے کے بجائے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا دباؤ ڈالتا رہا ہے۔ حال ہی میں، چین نے کچھ چھوٹے سپورٹ پیکیجز کے ذریعہ سے خود کو سری لنکا کے ساتھ جوڑنے کی دکھاوٹی کوششیں کی ہیں۔ لیکن ہندوستان کے 4ارب ڈالر کے مقابلہ میں 76ملین ڈالر کی اس کی پیشکش کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔
دراصل چین کی حکمت عملی ہی ایسی ہے کہ جس ملک میں اس نے اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے، وہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام تیزی سے بڑھا ہے۔ اسے لے کر پاکستان اور سری لنکا کی تو خوب بات ہوتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انی شیئٹو کے ذریعہ آج چین کا ’قرض جال‘ افریقہ، وسط ایشیا، یوروپ، جنوبی افریقہ اور کیربیین جزائر تک پھیل چکا ہے۔ افریقہ میں جہاں ہر پانچ میں سے ایک بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹ میں چین کا پیسہ لگا ہوا ہے، وہیں سبھی وسط ایشیائی ممالک معاشی طور پر مال کی برآمد اور درآمد دونوںکے لیے چین پر منحصر ہیں۔ پیسفک خطہ میں بھی کم سے کم 6ممالک چین کے قرض دار ہیں تو کربیین اور جنوبی امریکہ میں 19ممالک بیلٹ اینڈ روڈ انی شیئٹو کے دائرہ میں ہیں۔ آج سری لنکا کے حالات ان سبھی ممالک اور ان لوگوں کے لیے ایک انتباہ ہیں جو جغرافیائی سیاست کے اس خطرناک کھیل میں چین کا مہرا بن کر دیوالیہ ہونے کا خطرہ اٹھا رہے ہیں۔ تختہ پلٹ کے آخری دنوں میں گوٹابایا کو شاید اس انجام کا کچھ اندیشہ ہونے لگا تھا۔ اسی لیے انہوں نے سری لنکا کی نظراندازی اور فلپائن، ویت نام، کمبوڈیا اور افریقہ میں بڑھتی دخل اندازی کے لیے چین پر سوال بھی اٹھایا تھا۔ ممکن ہے اس وجہ سے بھی چین نے اس پر سری لنکا کی دلیلوں کے باوجود اس کی کوئی بڑی معاشی مدد یا اپنے قرضوں کی دوبارہ ادائیگی کو ملتوی کرنے کے خیال کو کوئی توجہ نہیں دی۔
بہرحال تازہ بحران نے ایک بار پھر چین کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ واضح طور پر یہ ہندوستان کے لیے سری لنکا سے اپنے ان پرانے تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کا سنہرہ موقع ہے جن میں چین سے سری لنکا کے نئے گٹھ جوڑ کے سبب گرم جوشی کم ہوتی نظر آرہی تھی۔ جہاں تک سری لنکا کا سوال ہے تو اس کے لیے یہ یقینی طور پر بدلتا دور ہے۔ مستقبل کا ممکنہ منظرنامہ یہی نظر آتا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں ایک کل جماعتی حکومت بنانے کے لیے ایک ساتھ آئیں گی۔ نیا صدارتی انتخاب 20؍جولائی کو ہوگا، حالاں کہ نئی حکومت کا فارمیٹ طے کرنا آسان نہیں ہوگا۔ فی الحال وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھال رہے رانیل وکرم سنگھے کو کارگزار صدر کے طور پر حلف دلایا گیا ہے۔ بعد میں ایک مقررہ وقت کے تحت نئی پارلیمنٹ کے لیے الیکشن کروائے جائیں گے۔ حالاں کہ جو موجودہ حالات ہیں، ان میں خطرہ بھرپور ہے۔ ایک طرف ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کا چیلنج ہے تو دوسری طرف صدر اور وزیراعظم دونوں اقتدار سے ہٹا دیے گئے ہیں۔ ایسے میں کسی ٹھوس سیاسی متبادل کی کمی میں حالات بے قابو ہوسکتے ہیں اور سری لنکا ایک ناکام ملک میں بھی بدل سکتا ہے۔ بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا عوام اس نئی حکومت کو قبول کریں گے کیوں کہ جب تک کسی حکومت کو عوام سے منظوری نہیں ملے گی، تب تک معاشی سرگرمیاں کیسے معمول پر آسکیں گی؟ نئی حکومت کے لیے یقینی طور پر یہ ایک بڑا کام ہے، لیکن ناکامی کوئی متبادل نہیں ہے۔ بڑی تشویش تو یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں افغانستان اور پاکستان کے بعد اب ایک اور ملک کا مستقبل منجھدار میں ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS