اقتدار پر اخلاقیات کی برتری

0

جمہوریت مغرب سے درآمد ایسی طرز حکمرانی ہے جسے اگر اس کی مکمل روح کے ساتھ نافذ کیاجائے تو معاشرہ میں ترقی، خوش حالی، امن و امان اور چین و سکون کادور دورہ ہوتا ہے اور ملک کا ہرشہری حکمرانی میں خود کو بالواسطہ شریک محسوس کرتا ہے، اس کے برخلاف اگر جمہوریت کو صرف حکومت سازی اور اقتدار کا ذریعہ سمجھاجائے تو وہی ہوتا ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان میں نظرآرہاہے۔ اقتدار کیلئے مطلوب جادوئی ہندسہ تک رسائی کیلئے سیاسی جماعتیں اخلاقی پستی کی ارزل سطح پر جاپہنچتی ہیں۔ سیاسی کھلاپن کے نام پر دھوکے باز، بدعنوان، جرائم پیشہ افرادحتیٰ کہ قتل، اغوا، عصمت دری، ڈاکہ زنی، منشیات فروشی جیسے گھنائونے جرائم میں ملوث افراد کی گندگی بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں۔حکومت میںآنے کے بعد جمہوریت کا بستر سمیٹ کر طاق پر رکھ دیاجاتا ہے۔ حکمرانی کا کروفر دیکھ کر جمہوریت خواب و خیال محسوس ہونے لگتی ہے۔ جمہوری اخلاقیات کا تصور تک ختم ہوجاتا ہے۔لیکن مغرب جہاں سے ہم نے جمہوریت مستعار لیا ہے، آج بھی اسے مکمل روح کے ساتھ نافذ رکھنے میں کامیاب ہے۔ بدعنوانی، اقرباپروری، بے جاطرفداری اور مذہب وذات پات کی بنیاد پر سیاسی اکثریتی طبقہ کی تشکیل جیسے اژدھے قابو میں ہیں اور معاشرہ اپنی تمام تر اخلاقی کمیوں، خامیوں وکھلے پن کے باوجود جمہوریت اور اچھی حکمرانی کے ثمرات سے بہرہ و ر ہورہاہے۔
یہ جمہوریت کا ہی فیضان ہے کہ ایک معمولی سی غلطی کی وجہ سے برطانیہ عظمیٰ کے وزیراعظم بورس جانسن کو استعفیٰ دینا پڑگیا ہے۔استعفیٰ دینے کے بعد نہ تو ان کے ماتھے پر کوئی شکن آئی ہے اورنہ اقتدار گنوا دینے کا کوئی غم ان کے چہرہ پر جھلک رہا ہے۔اس کے برخلاف بورس جانسن اپنی غلطی پر نادم ہیں اور اپنے ملک کو یوروپ کا سب سے خوشحال ملک بنانے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔بورس جانسن کے استعفیٰ کی وجہ ان کا ایک غلط فیصلہ بنا۔ا نہوں نے اپنی کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کرسٹوفرجان پنچر(کرس پنچر) کو پارٹی کا ڈپٹی چیف وہپ آفیسر مقرر کردیا تھاجن پر جنسی بدتمیزی کا الزام تھا۔ان کے اس فیصلہ کی وجہ سے ان کے رفقائے کار اور کابینہ کے اراکین ناراض ہوگئے۔ہرچند کہ کرس پنچر کو بھی گزشتہ ہفتے کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے معطل کر دیا گیا تھا۔ لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ ساتھی وزرا کی ناراضگی بڑھتی گئی اور کئی ایک وزرا نے استعفیٰ تک دے دیا۔ مستعفی ہونے والے وزرا کا الزام ہے کہ بورس جانسن نے کرس پنجر کے خلاف الزامات کو جانتے ہوئے جان بوجھ کر ان کو پارٹی میں اعلیٰ عہدے پر تعینات کیا۔ وزیراعظم جانسن نے بھی اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے پنچر کی تقرری پر عوامی طور پر معذرت کی۔ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ پارلیمنٹ کے ایک داغدار رکن کو حکومت میں اہم عہدے پر مقرر کرنا غلط تھا۔لیکن ا ن کا یہ اعتراف اور معافی بھی کابینی رفقا کی ناراضگی دور کرنے میں ناکام رہی اور کابینہ کے بیشتر اراکین نے ان کے خلاف بغاوت کردی۔
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف ان کے ساتھیوں کی یہ ناراضگی اور بغاوت سیاست اور جمہوریت میں اقتدار پر اخلاقیات کی برتری کی روشن مثال ہے۔اس کے برخلاف ہندوستان میں جمہوریت کا منظر نامہ کچھ اور ہی ہے۔ یہاںتو بدعنوان، گھنائونے اور سنگین جرائم میں ملوث افراد کو چن چن کرنہ صرف انتخاب میں امیدوار بنایاجاتا ہے بلکہ کامیابی کے بعد ان کے سروں پر وزارت کاتاج بھی سجایاجاتا ہے اور پھر ایسے وزیر باتدبیر جو گل کھلاتے ہیں، اس کا خمیازہ ہندوستان کے عوام کو بھگتنا پڑتاہے۔ اس طرح کی مثالوں سے ہندوستانی سیاست کی تاریخ بھری پڑی ہے اور گزشتہ ایک دہائی سے تو قدم قدم پر یہی صورتحال نظرآرہی ہے۔ارکان پارلیمنٹ کی دو تہائی تعداد پر قتل، اغوا، چوری، ڈاکہ زنی اور دیگر گھنائونے اخلاقی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے تو کابینہ کے وزرا اوران کے ارکان خاندان پر عام لوگوں کو گاڑی سے کچل کر ہلاک کرنے کا بھی سنگین الزام ہے۔ اس کے باوجود یہاں راوی چین لکھ رہا ہے۔ مرکز ہو یا ریاست کابینہ کے اراکین کی بغاوت سب سے اونچی کرسی تک پہنچنے کیلئے ہوتی ہے اور ناراضگی بھی اچھے محکموں اور وزارت تک رسائی کا ذریعہ ہے۔اس کی تازہ ترین مثال چند دن قبل مہاراشٹر میںدیکھنے کو ملی ہے جہاں ادھوٹھاکرے کی کابینہ کے ایک رکن ایکناتھ شندے نے وزارت علیا کی کرسی پانے کیلئے نہ صرف خود بغاوت کی بلکہ اپنے ساتھ ساتھ درجنوں ارکان اسمبلی کو بھی بغاوت پر اکسایا۔ مہاراشٹر جیسے ہی کئی واقعات ملک کی کئی دوسری ریاستوں میں بھی پیش آچکے ہیں جہاں جمہوریت کا نام لے کر جمہوریت کی روح پر وار کیاگیا اور ایک منتخب حکومت گرا کر دوسری غیر اخلاقی اور غیر جمہوری حکومت قائم کی گئی۔سیاسی منافقت اور اقتدار کی اس تڑپ اور ہوس پر اگرا خلاقیات کا پہرہ نہیں لگایاگیاتو ہندوستان میں جمہوریت بھی ’ اچھے دن‘ نہیں دیکھ سکتی ہے۔خود کو جمہوریت کا علم بردار سمجھنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو بورس جانسن کے استعفیٰ سے ضرور سبق لینا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS