کون کہتا ہے کہ سمندر تالاب ہوکے لوٹا ہے
میں تو کہتا ہوں کہ وہ سقراط ہوکے لوٹا ہے
کس کے لیے اتنی آنکھیں، اب بھی نم ہوا کرتی ہیں
اب سمندر اِک نیا سیلاب لے کے لوٹا ہے
-اپیندررائے(30جون2022)
مہاراشٹر کے سیاسی واقعات میں دیویندر فڑنویس کے تعلق سے ہورہے ’موقع پرست‘ تبصروں کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے جسے نقاد جان بوجھ کر اس سے انجان بنے رہنے کی اداکاری کررہے ہیں۔ یقینا سیاسی تختہ پلٹ کے بعد دیویندر فڑنویس کی جگہ وزیراعلیٰ کے عہدہ کی کرسی پر ایکناتھ شندے کی تاج پوشی حیران کرنے والی ہے۔ بڑے سے بڑے سیاسی پنڈتوں کو بھی اس بات کا احساس نہیں رہا ہوگا۔ اس میں ان پر اشاروں کو سمجھنے میں ناکامی کا الزام لگنا بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ عملی تفہیم تو یہی کہتی ہے کہ جس شخص نے اس ناممکن سے لگنے والے ہدف کو ممکن کردکھایا، انعام بھی اسے ہی ملنا چاہیے تھا۔ لیکن ملک کی 19ریاستوں کی تقریباً60فیصد سے زیادہ آبادی کے ’اعتماد‘ پر حکومت کررہی بی جے پی کو یوں ہی ’پارٹی وِد ڈفرینس‘ نہیں کہا جاتا۔ ہندوتو کے نظریہ کو آگے بڑھانے کے لیے بی جے پی نے حکومت بنانے کے اپنے دعوے میں نرمی برتی تو پارٹی کے لیے وقف کارکنان کے طور پر دیویندر فڑنویس نے بھی وزیراعلیٰ کے عہدہ سے دستبردار ہونے میں دیر نہیں لگائی۔ اصل میں تو فڑنویس اقتدار سے باہر رہ کر ہی مہاراشٹر کی ترقی میں اپنا کردارادا کرنے کے حق میں تھے، لیکن مہاراشٹر کی سیاست میں سینئرٹی اور مقبولیت کی بلندترین سطح پر ہونے کے باوجود انہوں نے بڑے دل کا ثبوت دے کر پارٹی قیادت کی خواہش کو سرآنکھوں پر رکھ کر مکمل عاجزی کے ساتھ حکومت میں نائب وزیراعلیٰ کے عہدہ کو قبول کیا۔ جس ملک میں کونسلر اپنا ٹکٹ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، وہاں فڑنویس کی یہ قربانی واقعی بے مثال ہے۔
میرا ماننا ہے نقاد بی جے پی کے ورک کلچر اور اس کے وقف سپاہی کے طور پر فڑنویس کے کردار کو لے کر وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو انہوں نے مہاراشٹر میں اقتدار کی تصویر کا دوبارہ اندازہ لگانے میں کی ہے۔ کانگریس کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا کے نئے نویلے رکن بنے عمران پرتاپ گڑھی کا فڑنویس پر طنز کستا شعر- وہ آنکھوں میں چبھا ٹوٹا ہوا اِک خواب بن کرکے، سمندر لوٹ تو آیا مگر تالاب بن کرکے- کو میں اس زمرے میں رکھنا چاہوں گا۔
دیویندر فڑنویس کو ’ٹوٹا خواب‘ اور ’سمندر کی جگہ تالاب‘ بتانے کے پیچھے عمران پرتاپ گڑھی کی اپنی سوچ ہوسکتی ہے، لیکن میری سمجھ میں فڑنویس موجودہ سیاست کے ’سقراط‘ ہیں۔ سقراط عظیم فلسفی تھے یہ سبھی جانتے ہیں لیکن انہوں نے جدید مغربی تہذیب کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ موجودہ دور میں سیاست، بالخصوص مہاراشٹر میں، فڑنویس اس کی علامت بن کر اُبھرے ہیں۔ اسی لیے مہاراشٹر کے واقعات پر بھلے ہی ملک اور ریاست کے عوام میں نظریاتی پولرائزیشن نظر آئے، لیکن مہاراشٹر کو جاننے سمجھنے والے اور ہندوستان میں بنیادی ترقی کے حامی مان رہے ہیں کہ اقتدار کے گلیارے میں فڑنویس کی واپسی اچھی خبر ہے۔
مہاراشٹر میں وزیراعلیٰ کے طوور پر فڑنویس کی مدت کار اس ’خوش خبری‘ کی بنیاد ہے۔ مہاراشٹر میں 2014سے 2019کی مدت میں بنیادی ڈھانچہ میں آئی تبدیلی کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔ اس دوران برسوں سے التوا میں پڑے منصوبے بحال ہوئے اور ممبئی جیسے میٹروپولیٹن کے منظرنامہ کو بھی بدلنے والے کئی تبدیلی کرنے والے شہری پروجیکٹس کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے لیے فڑنویس نے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کی طرح وار روم کی تشکیل کی اور اس کے ذریعہ بنیادی ڈھانچہ کے تقریباً 20اہم پروجیکٹس کو رفتار دینے اور ایک مقررہ مدت میں مکمل کرنے کا ہدف طے کیا۔ فڑنویس کی پہل پر ہی ساحلی سڑک، نوی ممبئی ہوائی اڈہ، ممبئی کی دوسری اور تیسری میٹرولائن، ممبئی ٹرانس-ہاربر لائن اور ناگپور میٹرو سمیت 10بڑے بنیادی پروجیکٹس کی شناخت کرکے ان کے کام میں رفتار لائی گئی۔ قارئین کے لیے ممبئی ٹرانس ہاربر لنک(ایم ٹی ایچ ایل) پروجیکٹ کی مثال بڑی دلچسپ ہوسکتی ہے۔ اس پروجیکٹ کا خیال سامنے آنے کے بعد یہ 53سال تک التوا میں رہا۔ اس دوران 15وزرائے اعلیٰ تبدیل ہوئے اور گزشتہ بارہ برسوں میں ٹنڈر کی چار کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ یہ فڑنویس ہی تھے جو آخرکار اس پروجیکٹ کو زمین پر اُتارنے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن مہاوکاس اگھاڑی سرکار کی گزشتہ ڈھائی سال کی مدت کار میں ایک بار پھر مہاراشٹر کی ترقی ’کچھوا چال‘ کے پرانے دور میں لوٹنے لگی تھی۔ پروجیکٹس مسلسل پچھڑرہے تھے اور صرف ان پر لاگت ہی نہیں بڑھ رہی تھی بلکہ ریاست کے عوام کی سہولتوں کا انتظار بھی طویل تر ہوتا جارہا تھا۔ آج ملک جس ترقی کی رفتار سے دوڑ رہا ہے اس میں مہاراشٹر کو تیزی سے ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت کا پیمانہ حاصل کرنے کے لیے سڑکوں، ریلوے، میٹرو، بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، سیاحت اور کم قیمت والے گھروں سے وابستہ پروجیکٹس کو بڑے پیمانہ پر جاری کرنے کی ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ ڈھائی سال میں اس سمت میں زیادہ کوشش نہیں ہوسکی۔
اقتدار بدلنے کے ساتھ اب مہاراشٹر میں ترقی کی صورت بدلنے کی امید بھی بنی ہے۔ اس معاملہ میں خاص طور پر ممبئی سے احمدآباد کے درمیان بلیٹ ٹرین پروجیکٹ کا بھی ذکر کروں گا جو وزیراعظم نریندر مودی کا ڈریم پروجیکٹ ہے۔ آزادی کے امرت مہوتسو کے تحت اسے پورا کرنے کی مدت 15اگست2022طے کی گئی تھی، لیکن اگھاڑی سرکار میں اس پروجیکٹ کے تعلق سے برتی گئی بے حسی سے اب یہ تو ممکن نہیں لگ رہا ہے لیکن اس پروجیکٹ کی کامیابی کی امید ضرور قوی ہوگئی ہے۔
ایک دہائی سے بھی کم وقت میں مہاراشٹر میں ’وِکاس پروش‘ کی شبیہ بنانے والے فڑنویس کے ورک کلچر کی تعریف خود وزیراعظم نریندر مودی کرتے رہے ہیں۔ مرکز میں نریندر اور ریاست میں دیویندر والی ان کی مثال فڑنویس کے طریق کار پر لگی اعتماد کی ایک بڑی مہر ہے۔ صرف وزیراعظم ہی نہیں، فڑنویس بھارتیہ جنتا پارٹی کے دیگر سینئر اور ساتھیوں کے درمیان بھی قابل احترام اور قابل قبول ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چاہے کتنے بھی گھوٹالے ہوئے ہوں، فڑنویس نے ایک صاف ستھرے سیاستداں کے طور پر اپنی امیج برقرار رکھی۔ ان کے بارے میں ایک بات اور مشہور ہے۔ فڑنویس اگر کچھ بات کہتے ہیں، تو اپنی بات رکھتے بھی ہیں۔ اس لیے بھی یقین رکھئے کہ اب کی بار سمندر نہیں، ایک نیا سیلاب لوٹا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
سمندر نہیں، ایک نیا سیلاب لوٹا ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS