*نئی فکر اور نئے زاوئے کا تحت اللفط شاعر ‘دیدار بستوی*’
زمانہ بدلتا گیا انسانی شعور بدلتے گئے لوگوں کا طور طریقہ بدل گیا حالات بدل گئے لیکن اگر نہیں بدلا تو ‘انسان اور اس کے عادات و اطوار نہیں بدلے’۔
ایک وقت تھا جب انسان ایک دوسرے? سے خندہ پیشانی سے مخاطب ہو کر محو گفتگو ہوتا تھا کسی سے ملاقات کرنے پر پوری توجہ اس کی طرف ہوتی تھی، موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا?چلن اس طرح عام ہوا کی انسان قریب ہوکر بھی دوری کا احساس ہونے لگا انسان ملتا تو بڑی محبت عاجزی کے ساتھ ہے لیکن اپنا پورا وقت موبائل پر گزار دیتا ہے لیکن آج ماضی اور مستقبل کا فرق آپ کے سامنے ہے۔
خدائے تعالی نے انسان کو ساری نعمتوں سے نوازا ہے لیکن پھر بھی ناشکری بندہ کرتا ہے
آئیے قرآن کی ایک آیت سے بات کا آغاز کیا جائے “فبای آلا ربکما تکذبان”
تم رب کی کون کون?سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
رب نے ساری نعمتوں سے انسان کو نوازا ہے لیکن پھر بھی دین سے دوری ہے انسان کے اندر کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ کمی رہتی ہے تاکہ بندہ اپنے پرور دگار کو یاد کرتا رہے
ادھر کافی مصروفیت کے باوجود اردو ادب پر وہ کام کر رہا ہوں جو کہ ادب کے لئے آنے والے وقت میں بہترین خدمت شمار کی جائے گی، اور ان شاء اللّٰہ اس کا بہترین صلہ بھی ملے گا۔ میں ان شعراء پر خامہ فرسائی کر رہا ہوں جو کہ کبھی مشاعروں کی نہ صرف زینت بلکہ ضرورت ہوا کرتے تھے، آج ان شعراء کے نام کسی مجبوری کے تحت مشاعروں کے اشتہارات کی زینت بننے کے لئے منتظر کرم ہیں۔
خدا گواہ! میری نثر نگاری کا بس یہی مقصد ہے کہ ان حضرات کو پھر سے زندہ و تابندہ کرکے ان کو بروئے کار لایا جائے۔
“*از دل ریزد بر دل خیزد*” کے بمصداق خدا کرے کہ مشاعروں کے منتظمین کے دل پر یہ کلمات اثر انداز ہوکر مراد برآری کا سامان ثابت ہوں۔
اب اس شاعر سے آپ کو روشناس کراتا ہوں جس کا تعلق بستی جیسی ادبی سر زمین ہے۔ بستی کی مردم خیز سر زمین نے بڑے بڑے شاعروں کو جنم دیا ہے۔ بستی کا نام پوری دنیا میں جن کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
پروفیسر اختر بستوی صاحب جو کہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ گورکھپور یونیورسٹی ہوا کرتے تھے، مولانا صادق علی قاسمی، جن کا ایک کارنامہ ایسا ہے جو کہ اردو والوں کے لئے بڑا ہی حیرت انگیز ہے، اردو ادب پر بہت ہی عمدہ کام کیا ہے “غیر منقوط” نظم بغیر نقطے والے حروف پر مشتمل الفاظ کو استعمال کرکے اہل ادب سے زبردست خراج تحسین حاصل کیا ہے۔
صوفی بستوی، جو کہ اخیر وقت میں بستی کو الوداع کہتے ہوئے لکھنؤ میں مقیم ہو گئے بہت اچھے اور سچے شاعر کے ساتھ ساتھ ایک نیک دل انسان بھی تھے
رازداں امان اللّٰہ بھی بستی ضلع کے اچھے شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ بستی نے بڑے بڑے علماء فقہا کو بھی جنم دیا ہے?مولانا باقر حسین صاحب? جو کہ بستی کا ایک بہت پرانا ادارہ دارالعلوم اسلامیہ جہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں ہر سال حفاظ کرام علماء دانشور نکلتے ہیں وہاں کے آپ ناظم تھے بڑی بڑی شخصیت بستی ضلع میں تھی۔
انہیں میں بزرگوں کی روایت کو آفاقیت بخشتے ہؤئے ایک ستارہ ابھر کر سامنے آیا لوگوں کو مجبور کر دیا، واہ? واہی کرنے پر بستی ضلع کا نام پورے ہندوستان میں جس سلیقے سے اس شاعر نے پیش کیا 1995 سے لیکر 2022 تک بستی ضلع کے نام کو روشن کیا، اس شاعر کا نام کا اظہار اخیر میں ہوگا، ابھی محض اشاروں و کنایوں میں قارئین کو اس تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔
میرے خیال سے ایسے مواقع پر اس شاعر کا ایک شعر یہاں کوڈ کرنا مناسب لگتا ہے کیوں کہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ہو سکتا ہو یہ شعر آپ سب کے حافظے میں محفوظ بھی ہو
ہم نے جو ایڈیڈاس کا جوتا پہن لیا۔۔
کچھ دوستوں نے فکر کا چشمہ پہن لیا۔
مگر آپ لوگوں کی بے چینی و محبت اور اضطراب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ نام بتا دینا ابھی بہتر ہوگا، تاکہ پتہ چل جائے کہ بستی ضلع کا نام جس شاعر نے بڑی بیباکی و ہنروری کے ساتھ روشن کیا اس کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے مگر وہ اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ پیدا کرسکے، وہ اردو ادب کی ترویج و ترقی کے لئے اپنی ذات کو پیش کرتے ہوئے ان صبر آزما حالات کے سامنے کوہ گراں بن کر حائل ہوگیا مگر شعروادب کی خدمت کے مقابلے میں کسی آزمائش سے سمجھوتہ نہیں کیا۔اور وہ ہیں تحت اللفط کے بہترین و نامور شاعر “محترم دیدار بستوی” جو کہ ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
بجائے اس کے کہ میں کچھ لکھوں مجھے لگتا ہے جس شعر پر بڑے سے بڑے شعراء نے داد دینے پر مجبور ہوگئے وہ شعر یہاں لکھنا مناسب سمجھتا ہوں
*مجھ کو گھر سے نکال مت بیٹے*
*تیرے بچپن کی میں سواری ہوں*
اردو دنیا کے نامور ادیب کی تحریر کا اقتباس پیش کرتا ہوں، میرے خیال میں ‘دیدار’ صاحب کا اس سے بہتر تعارف اس اختصار کے ساتھ نہیں پیش کیا جاسکتا۔
دیدار بستوی کا شعری مجموعہ ’پرندہ ہے کہ اڑتا جا رہا ہے‘ پر گلف اردو کونسل کے صدر جناب ڈاکٹر افروز عالم صاحب نقد و تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
“عوامی ذرائع ابلاغ کے سہارے بہت سے ایسے قابل قدر لوگ سامنے ا?ئے جو پہلے بہت کم نظر ا?تے تھے۔ عزیزم دیدار بستوی سے میری ملاقات بھی اسی ذریعہ سے ہوئی تھی۔ ’پرندہ ہے کہ اڑتا جا رہا ہے‘ ا?پ کا شعری مجموعہ ہے۔ 152 صفحہ پر مشتمل شعری مجموعہ 2013ء میں شائع ہوا ہے۔ کتاب ہذا میں شامل انتخاب شاعری میری نظر میں ایک ایسے تجربہ کار شاعر کے فکر کا وہ عکس ہے جو ا?ج کل کے نوجوانوں میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ مصرعے نہایت ہی چست اور فکر لاجواب ہے، اس لئے عزیزم دیدار بستوی کی شاعری اپنے قارئین سے داد حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔ متذکرہ کتاب نہایت ہی خوب صورتی سے شائع کی گئی ہے، جس میں ایک نعت اور اکیاون غزلیں شامل ہیں۔کتاب سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں” :
فضا میں تیر چھوڑے جا رہے ہیں
پرندہ ہے کہ اڑتا جا رہا ہے
ہو چکی باتیں محبت کی بہت سی فون پر
اب چلو کچھ دیر سو جائیں سحر ہونے کو ہے
میں اس کے حکم کو مانوں یہ مشورہ ہے مجھے
امیر شہر نے کس خانے میں رکھا ہے مجھے
بخیلی جب کسی کے ذہن میں گھر کرنے لگتی ہے
پرندے شاخ سے چھت پر اترنا چھوڑ دیتے ہیں
ڈاکٹر افروز عالم صاحب مزید لکھتے ہیں
“فن شاعری کی تعریف میں سب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار مثبت طریقے سے کیا ہے۔ عزیزم دیدار بستوی کے ساتھ میں خود بھی کئی محفل مشاعرہ میں شامل رہا ہوں۔ ا?پ کی شاعری قابل توجہ اور پڑھنے کا انداز بھی بہت مناسب ہے۔ ان سب معاملات کے باوجود میں یہ کہیں سے نہیں پاتا ہوں کہ عزیزم دیدار بستوی کی شاعرانہ عظمت اور ادبی دبدبہ اس طرح قائم ہوا جیسا کہ ہو جانا چاہئے تھا۔ یہ باتیں میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میرے دل میں اس کی کسک ہے۔ برادرم دیدار بستوی سے احترام کا دوستانہ رشتہ ہے۔ ا?پ نے میرے اعزاز میں معتبر شعراء کی طویل فہرست کے ساتھ گورکھپور میں (2019ء ) ایک بڑا مشاعرہ بھی منعقد کیا تھا، جس کی صدارت محترم ڈاکٹر کلیم قیصر صاحب نے فرمائی تھی”۔
دیدار بستوی صاحب کے شعری مجموعہ پر درجن بھر سے زائد شعراء و اہل قلم نے بطور تقریظ اظہار خیال فرمایا ہے۔ ہر ایک کی تحریر سے اقتباس پیش کرنا بایں معنی مشکل ہے کہ اس سے مضمون میں طوالت آئے گی، قاری کو مضمون پر باصرہ نوازی بھاری محسوس ہوگی۔ البتہ جن حضرات نے ان کے مجموعہ پر کچھ لکھا یا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا یا جن کے خیالات و افکار کو مجموعہ میں شامل کیا گیا ہے ان کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں :
محترم پدم شری بیکل اتساہی، محترم پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، محتر م پروفیسر علی احمد فاطمی، محترم ڈاکٹر بشیر بدر، محترم منور رانا، محترم ڈاکٹر محمد رضی الرحمان (گورکھ پور یونیورسیٹی) ،محترم ڈاکٹر شکیل احمد معین ، محترمہ ڈاکٹر زیبا محمود ، محترم پروفیسر انجم عرفانی، محترم عشرت ظفر، محترم ڈاکٹر تشنہ عالمی، ڈاکٹر قمر رئیس، محترم ڈاکٹر رضوان الرضا رضوان (علیگ)۔
اب بہتر ہوگا کہ ان میں سے چند حضرات کی تحریروں سے مختصر ترین اقتباس بھی پیش ہی کردیا جائے تاکہ ‘دیدار بستوی ‘ صاحب کی شخصیت مزید ابھر کر سامنے آجائے۔
_________
چنانچہ بیکل اتساہی صاحب اس طرح رقم طراز ہیں:
*ایک ذہین اور ور مخلص شاعر دیدار بستوی*
حضرت فراق گورکھپوری اکثر کہا کرتے تھے ،میاں پروانچل صدیوں سے زبان و ادب، گیت سنگیت، کلا آرٹ اور سماج و سیاست، کا مرکز رہا ہے۔ بڑے بڑے صوفی سنتوں کے چوپال رہے ہیں۔ اسی علاقائے بہاراں کے ایک ذہین اور مخلص شخصیت کا نام ہے دیدار بستوی۔ جن کے یہاں سنجیدگی کے ساتھ برجستگی کی اونچائیاں بھی ہیں اور سچائیاں بھی۔ مزاح کی عرشی فکروفن میں طنز کی شیرینی کا لطف کثیر ہے۔ ان کے کلام کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے، کاش یہ صرف غزلوں میں طبع آزمائی کئے ہوتے تو اصغر گونڈوی، جگر مرادآبادی ، فراق گورکھپوری اور شفیق جونپوری کے ہمدوش ہوتے۔
اللّٰہ عز وجل اپنے حبیب ? کے طفیل انہیں صحت و سلامتی عطا کرے۔ آمین
پدم شری بیکل اتساہی
_____________
ملک زادہ منظور صاحب لکھتے ہیں۔
*قلع? معلی کا باغی شہزادہ دیدار بستوی*
خوش نصیب ہیں وہ شعراء جن کے اشعار عوام کی زبان پر پہلے جاری ہو کر بعد میں کتابوں کے توسط سے خواص تک پہونچتے ہیں۔ جناب دیدار بستوی مجھ سے بعد میں ملے اور اب بہت بعد میں ان کا مجموعہ کلام شائع ہورہا ہے۔ مگر میں ان کے اشعار اپنے احباب کی زبانی ان کی ملاقات سے قبل ہی سن کر چونک پڑا تھا اور مجھے میر تقی میر کے شعر کا دوسرا مصرعہ یاد آیا تھا۔
*پر مجھے گفتگو عوام سے ہے*
مگر اب جب ان کا مجموعہ کلام شائع ہوکر منظر عام پر آ رہا ہے تو مجھے میر کے شعر کے پہلے مصرعے کی تلاش ہورہی ہے۔
*شعر میرے ہیں گو خواص پسند*
اور مجھے یہ کہنے میں کوئی بھی تامل نہیں ہے کہ شخصی دور کے معیار نقد ونظر اور جمہوری دور کے خواص کے مزاج میں کافی فرق ہوتا ہے اس لئے مجھے یقین کامل ہے کہ خواص بھی انھیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھیں گے۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد
__________
ڈاکٹر بشیر بدر یوں خامہ بردار ہیں۔
*جدید غزل کا نمائندہ شاعر دیدار بستوی*
آج کی شاعری کی زبان عوامی زبان ہے۔ اس میں وسعت بہت ہے۔ دیدار بستوی نے آج کی اس زبان کو تغزل کا رنگ عطا کیا ہے جو احساسات کو چھولیتی ہے۔ ان کے شعر عوام میں بھی مقبول ہونگے اور وہ لوگ جو فکر وفن اور اردو شعر وادب کے اہم لوگ مانے جاتے ہیں وہ بھی پسند کریں گے۔ دیدار بستوی کی غزل کا یہ انتخاب “پرندہ ہے کہ اڑتا جارہا ہے” آج کے عوام اور خواص کے ذہن و دل کو چھونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کا یہ شعری مجموعہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں قابل ذکر رہے گا۔ لوگ اسے دل سے پسند کریں گے اور ایک دوسرے سے اس کا ذکر بھی کریں گے۔
پدم شری ڈاکٹر بشیر بدر
_______________
جناب منور رانا صاحب لکھتے ہیں۔
*میرے پسندیدہ موضوعات کا شاعر دیدار بستوی*
دیدار بستوی کا ادبی مستقبل ان کے ساتھ کیا سلوک کریگا اس کا اندازہ لگانا ادب کے خودساختہ تنقیدی پیغمبروں کا کام ہے۔ ہاں پوری ایمانداری سے اور خدا کو گواہ کر کے میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اردو زبان اور شعر وادب سے ان کی محبت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ وہ مشاعروں کے ذریعہ دبئی جا کر سونے کے بسکٹ لانے کے لئے ہرگز شاعرنہیں بنے ہیں۔ شاعری ان کے مزاج کا ایک حصہ ہے۔ان کی سادہ دلی ہی ان کی معصومانہ صاف گوئی کی ترجمان ہے۔
نئے لوگ، نئے لفظیات نئی فکر اور نئے مضامین لے کر پیدا ہوتے ہیں ورنہ اردو شاعری اب تک پھپوند لگے اچار کی طرح کتابوں کے مرتبان میں دھری کی دھری رہ جاتی۔ میں اپنے عہد کی ترجمانی کے زندہ عمل کا سچا قدردان ہوں۔ اس لئے مجھے دیداربستوی کے اشعار اچھے لگتے ہیں جیسے۔
مجھ کو گھر سے نکال مت بیٹے
تیرے بچپن کی میں سواری ہوں
منور رانا
___________
شعری سفر کی ابتداء :
1995 سے اپنا شعری سفر اس طرح شروع کرتے ہیں کہ ‘ بستی ضلع کے کہنہ مشق شاعر کی راہی بستوی صاحب کی تلاش کرتے ہوئے مشاعرہ پڑھنے کی للک میں بالآخر ان کے گھر اپنی بیاض لیکر پہونچے اور اپنے کلام کو سنایا، راہی بستوی نے ان کا کلام سنا اور بیاض سے جابجا جستہ جستہ پڑھا، اور کہا? انشاء اللّٰہ جس طرح تمھارے اندر لگن ہے شعر کہنے کا، اساتذہ کی قدر کرنے کا، میرے ساتھ رہو انشاء اللّٰہ پورے ہندوستان کا مشاعرہ پڑھوا دونگا، دیدار بستوی مسلسل کچھ نہ کچھ شعر کہتے رہے اور مشاعرہ بھی پڑھتے رہے، دھیرے دھیرے آپ عوام کی نظروں میں محبوب و ہر دل عزیز ہوگئے، لیکن شؤمء قسمت دیکھئے کہ کچھ تعصب پسندوں نے دیکھا کہ نوجوان بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا، ابھر رہا ہے تو رذالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پس انداز کرنے کی فکر و کوششوں میں مصروف ہوگئے، لیکن قدرت کی یاوری و مصلحت خداوندی دیکھئے آپ کا گراف روز بروز بلند ہی ہوتا گیا، دھیرے دھیرے ان شعراء سے آپ متعارف ہوئے کہ اس دور میں جن کی طوطی بولا کرتی تھی، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد صاحب، انور جلالپوری صاحب، جمال آذر صاحب، کی نظامت میں آپ کو مشاعرہ پڑھنے کا موقع مل گیا۔ لوگوں نے بہت سراہا اور بہت پسند کیا، یہاں تک کہ آپ کی بیباکی اور انفرادیت کو دیکھتے ہوئے خلیل آباد کے ایک مشاعرے میں زبردست کامیابی و پذیرائی حاصل ہوئی، کیونکہ آپ تحت اللفط کے شاعر تھے انداز آپ کا جداگانہ تھا، اس مشاعرے میں ڈاکٹر راحت اندوری کو کہنا پڑا کہ میں جس شہر میں جاتا ہوں مجھے درجنوں راحت مل جاتے ہیں۔ جن شعراء کی شفقت و سرپرستی آپ کو شروع ہی سے حاصل رہی اس میں عالیجناب ڈاکٹر کلیم قیصر صاحب، شکیل فراز صاحب ڈاکٹر عکس وارثی صاحب سرِ فہرست ہیں۔ ان حضرات سے آپ کو بڑی شفقتیں ملتی رہیں۔ آپ بلندی اور آفاقیت کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگ آپ کے مقاطعہ میں لگ گئے۔ 2010ء تک لگ بھگ آپ ہر مشاعرے کی زینت بنتے تھے۔
یہ کچھ خاص باتیں تھیں جس سے روبرو کرانا بہت ضروری تھا تاکہ اہلِ علم حضرات جب اس مضمون کو پڑھیں تو یہ تاثر دل کو جھجھوڑنے پر مجبور کر دے کہ ایک شاعر کی زندگی کتنی کشمکش سے ہو کر گزرتی ہے۔ پھر بھی وہ اپنی محنت اور لگن میں رہتا ہے کہ اپنے آپ کو کس طرح سے عوام کے سامنے اپنی شاعری سے روشناس کرائے۔
اس دیوانگی میں دیدار بستوی نے اپنے شعر و ادب کی اصلاح کے لئے بستی ضلع کے کہنہ مشق استاذ شاعر تعزیر بستوی صاحب کو منتخب کیا اور بہت کامیاب رہے۔ دھیرے دھیرے آپ کی شاعری میں وہ ندرت و نزاکت پیدا و ہویدا ہونے لگی کہ آپ کے کلام میں لکھنوی تاثرات دکھنے لگے۔ شعر و شاعری کے اوجِ کمال پر کمندیں ڈالن دیں، اور اس طرح تمام اساتذہ کی دعائیں ملنے لگیں، عوام میں بھی مقبول ہونے لگے، یہاں تک مشاعرے میں جس بیباکی سے کلام پڑھتے ہیں عوام کی پسند و منشاء کو بھانپتے ہوئے، موقعہ و محل کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے شعر سناتے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر بڑی پینی نظر و عبور رکھتے ہیں۔
میری نظامت میں کئی مشاعرہ آپ نے پڑھا کافی حد تک کامیاب رہے بہار کے ایک مشاعرے میں سامعین تو سامعین شعراء حضرات اپنی جگہوں سے اٹھ کر گل پوشی کرنے لگے آپ میرے بہت ہی اچھے دوست بھی ہیں اور ایک کامیاب شاعر کے ساتھ ساتھ ایک نیک دل انسان ہیں۔
جب دیدار بستوی تحت اللفط میں نظم شروع کرتے تھے تو عوام کی بے پناہ داد و تحسین ملتی تھی، اسی پذیرائی کا نتیجہ ہے کہ ایک مشاعرے آپ کو تین تین بار لوگوں نے فرمائش کر کے بلایا۔ جس کا جیتا جاگتا نمونہ و ثبوت یوٹوب پر دیدار بستوی کا کلام ہے۔ آپ بھی سرچ کرکے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
نمونہ ہائے کلام:
ندی پہاڑ سمندر چٹان کچھ بھی نہیں
جواں ہوں عزم تو پھر آسمان کچھ بھی نہیں
________
ولدیت پوچھتا ہے وہ سب کی
جس کے ماں باپ کا پتہ ہی نہیں
________
رنگ برنگی یادوں کا گلدان بچا ہے لے دے کر
میرے جینے کا بس اک سامان بچا ہے لے دے کر
ردی کاغذ کی قیمت میں بچے اس کو بیچ نہ دیں
گھر میں جو غالب? کا اک دیوان بچا ہے لے دے کر
_________
شکایت کیا کریں گزرے ہوئے طوفان سے
روشنی آنے لگی ہے پھر سے روشن دان سے
*شاعر و ناظم مشاعرہ*
*ڈاکٹر دلشاد گورکھپوری*
شفاء دواخانہ، محلہ مرزاپور، کلسے والی مسجد۔ شہر گورکھپور (اترپردیش)
93 05 225918