زین شمسی
ٹائمس آف انڈیا میںامبیکا سونی رپورٹ کرتی ہیں کہ بہت جلد جمعیۃ علماء ہند کے دونوں گروپ ایک ہوجائیں گے۔ وجہ یہی بتائی گئی ہے کہ ملک میں جس طرح یکے بعد دیگرے مسلم مخالفت کے نئے نئے فارمولے پیش کیے جارہے ہیں، اس سے ملک کا مسلمان بہت زیادہ پریشان ہوچکا ہے اور اس تشویشناک ماحول میں اس کی ذہنی سطح اثر انداز ہو رہی ہے۔ بابری سے گیان واپی تک، مسلمانوں کی ہتک سے پیغمبر اسلامؐ کی توہین تک،سیاست سے سماج تک نفرت کے اس کھیل نے مسلمانوں کے لیے ملک میں ترقی کے دروازے بند کر دیے ہیں، ایسے میں ملک کی سب سے بڑی جماعت فکرمند ہے اور چاہتی ہے کہ جمعیۃ ایک ہوجائے اور مسلمانوں کی قیادت کرے۔کچھ دن قبل ہی مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی کی ایک تصویر بھی اخبارات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر خوب وائرل ہوئی، جس میں دونوں حضرات ایک صوفے پر بیٹھے نظر آئے تھے، اس تصویر پر بھی لوگوں نے خوشی کا مظاہرہ کیا تھا اور اسے وقت کی سب سے اہم پیش رفت قرار دیاتھا۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمان جب بے وقعت ہونے لگتے ہیں، تب اتحاد کی بات ہونے لگتی ہے اور ہندو جب طاقتور ہوتے ہیں تب اتحاد کی بات ہونے لگتی ہے۔ یہ متضاد رویہ ملک کے باشندوں کو کبھی سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ دو جمعیۃ کے ایک ہوجانے سے ایسا کیا ہوجائے گا کہ ملک کے مسلمانوں کی تقدیر سنور جائے گی اور پھر یہ بھی کہ دونوں کے الگ الگ کام کرنے سے ایسا کون سا کام رک رہا ہے، جس کے لیے دونوں ایک ہوجانا ہی بہتر سمجھ رہے ہیں۔ کیا ایک دھرا دوسرے دھرے کے کام میں رکاوٹ ڈال رہا ہے یا دوسرا دھرا پہلے دھرے کو کوئی کام کرنے نہیں دے رہا ہے۔ یا پھر دونوں دھرے کے مریدین ایک دوسرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے تو دونوں ایک ساتھ کام کریں یا دونوں الگ الگ کام کریں، کیا فرق پڑتا ہے، اور واقعی اگر دونوں ایک دوسرے کے کام میں رکاوٹ ڈالتے رہے ہیں تو پھر یہ قوم کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ بات ہورہی تھی اور اس کے لیے دونوں دھرے ذمہ دار ہیں۔ خیر کسی بھی اتفاق یا اتحاد کی قدر ہونی چاہیے، اس لیے اس اتحاد کو بھی قدر کی نگاہ سے اس وقت تک تو ضرور دیکھنا چاہیے جب تک یہ دونوں پھر سے الگ نہ ہوجائیں۔ مودی جی کی پاور فل حکومت میں ہندوئوں کو بھی ایک ہوجانے کی اپیل ہر سو سنی جارہی ہے۔ ملک کے ہندوئوں کو ایک کرنے کے لیے کئی طرح کے پروگرام بھی ہو رہے ہیں اور کئی طرح کے عملی کام بھی ہو رہے ہیں۔ان کے یہاں سنگٹھن کو ایک کرنے کی بات نہیں ہورہی ہے، فرد کو ایک ہونے کی بات کہی جا رہی ہے۔ گویا کہ آپ کسی بھی سنگٹھن میں ہوں، مگر ہندو ہو کر ہی رہیں۔ ہمارے یہاں مسلمانوں کو ایک ہونے کی بات نہیں کہی جا رہی ہے اور نہ پہلے کہی جا رہی تھی۔ پہلے بھی اور اب بھی اداروں کو ایک ہونے کی بات کہی جار ہی تھی اور اب بھی کہی جا رہی ہے۔ ایک اس معنی میں کہ جب مسلمانوں کا کوئی مسئلہ درپیش ہو اور ملکی سطح پر ان کا کوئی نقصان ہو رہا ہو تب کم از کم مسلمانوں کے تمام اداروں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ایک پلیٹ فارم پر آئیں، لیکن شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہے یا اس بات کی امید بھی باقی بچی ہو کہ ایسا ہوگا۔
ان کے یہاں ذات پات کی اتنی شدید گہرائی ہونے کے باوجود دلت کے دلوں میں برہمن بن جانے کا خواب کلبلانے لگاہے اور وہ ہندوتو کی راہ پر دلت نہیں ہندو بن کر چل پڑے ہیں جب کہ ہمارے یہاں مسلمانوں کے اتحاد کی بات پر بھی لوگ مسلمان بن کر نہیں مسلکی نمائندے بن کر چل پڑتے ہیں، گویا کسی ایسے مقام پر جہاں وہ شدید بے چینی کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر آ بھی جاتے ہیں تو پھر سے الگ ہو جانے کا ایک راستہ کھلا رکھتے ہیں کہ جیسے بحران ختم ہوگا ویسے ہی علیحدگی کی پگڈنڈی پر نکل پڑیں گے۔ اس لیے اداروں، انجمنوں، تنظیموں کے ایک ہوجانے سے بھی مسلمانوں کا اتحاد مستحکم و پائیدار نہیں ہو سکتا جب تک کہ فرد واحد فرد جمع میں تبدیل نہیں ہوتے تو اتحاد کی ہر بات بے معنی ہے۔
اتحاد پروپیگنڈے سے نہیں بلکہ عملی مظاہرہ سے پیدا ہوتا ہے۔ آج ہندوئوں کا اتحاد کیوں مستحکم ہو رہا ہے۔ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو اقتدار کی طاقت ہے، دوسری وجہ ہندو اسمتا کو جگانے کے لیے کچھ ہندو استعارے کو مضبوط کرنے کا مظاہرہ ہے، تیسری وجہ کچھ تاریخی پروپیگنڈہ ہے جسے مختلف ذرائع و وسائل کے ساتھ پھیلا یا جا رہا ہے۔ چوتھی وجہ ناخواندگی کا مفادپرستی کے طور پر استعمال ہے۔ مسلمانوں میں اتحاد کی نہیں بلکہ بھروسہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کا مسلمان ہمیشہ سے اپنے علماء و اکابرین کی عزت کرتا رہا ہے، اسی کی سنتا رہا ہے، اس کے نقش قدم کو اپنا نصب العین مانتا رہا ہے، مگر جیسے جیسے علما و اکابرین نے قوم و ملت کی تقدیر سنوارنے کے بجائے اپنے مسلک و اپنے ادارے کو سنوارنا شروع کر دیا، ویسے ویسے قوم وملت کے اجزا ان سے دور ہوتے گئے۔ ان پر اعتماد ٹوٹتا گیا، ان پر سے بھروسہ اٹھتا گیا۔ اس لیے اب یہ ضروری ہوچلا ہے کہ قوم اپنے علما پر بھروسہ کی نیت پیدا کرے اور علما اپنے مریدین پر اعتماد قائم کرنے کا عملی لائحہ عمل بنائیں، تبھی ہم سب اس ہندوستان میں اپنا حق حاصل کرسکتے ہیں اور تبھی ہمیں اپنے بنیادی حقوق مل بھی سکتے ہیں۔ ورنہ اداروں کا اتحاد ہمیں کسی موڑ پر نہیں لے جاسکتا۔ اتحاد سے زیادہ اتفاق کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]