عبدالماجد نظامی
ہمارے عہد کے اردو ادیبوں اور شاعروں میں کلیم عاجز کے علاوہ دو مزید نام ایسے ممتاز ہوئے کہ انہیں ان کی قادر الکلامی پر ہی نہیں بلکہ اپنے وقت کے مسائل کو سادگی کے ساتھ اور موثر انداز میں پیش کرنے اور عوام و خواص کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلینے میں مہارت کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ نام اس قدر معروف ہیں کہ شعر و ادب سے ادنیٰ لگاؤ رکھنے والا شخص بھی ان سے واقفیت ضرور رکھتا ہے۔ یہ نام ہیں راحت اندوری اور بشیر بدر۔ اتفاق یہ ہے کہ تینوں کا تعلق شاعری کی دنیا سے ہے۔ کلیم عاجز صاحب کا تو کیا ہی کہنا کہ وہ اپنی بلند فکری، اعلیٰ درجہ کے سنجیدہ و تعمیری ادب کے ساتھ ساتھ روحانیت و للہیت کے بلند مرتبہ پر بھی فائز تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں نہ صرف اپنے اہل و عیال اور خاندان پر بیتے ہوئے مظالم کی داستان سمیٹ کر رکھ دی تھی بلکہ ہر اس مظلوم کے دل کی کڑھن اور آنکھوں کی بے بسی کو بھی بیان کر کے رکھ دیا تھا جو ظالم کے ظلم کو سہتا ہے اور خون کے آنسو روتا ہے لیکن پھر بھی زندہ رہنے اور اپنی عزت و وقار کی دولت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جس طرح ظالموں کے ظلم کی داستان نئی نہیں ہے ویسے ہی خدا کے انصاف کا متعین وقت پر آنا لازمی امر ہے اور کوئی بھی ظالم خدا کے غضب اور اس کے قہر سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ خدا پر اس مضبوط اعتماد و یقین کے باوجود کلیم عاجز کے زخمی دل سے یہ آواز نکل ہی جاتی ہے کہ:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ان کے اس شعر میں ایک مظلوم کی بے بسی، ایک ظالم کا غرور اور انصاف کا گلا گھونٹے جانے کی شکایت سب کچھ موجود ہے۔ درد و کرب میں ڈوبی اور گہرے جذبات سے الجھتی ہوئی اس شکایت میں خدا کے حضور التجا بھی ہے کہ اے رب کائنات ان ظالموں نے اپنے ظلم کے سارے ثبوت مٹا دیے ہیں لیکن تو جانتا ہے کہ یہ انسانیت کے دشمن اور مہذب سماج کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ اگر کلیم عاجز کا ایمان اور خدا پر ان کا ایقان گہرا نہیں ہوتا تو شاید وہ بد دعا کے لہجہ میں کہہ دیتے کہ اے رب عہد جدید کے ان فرعونوں کو نیست و نابود کر دے۔ انہوں نے شاید اس لیے ایسا نہیں کیا کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ادب کا کام زخموں پر مرہم لگانا اور درد سے بیکل دلوں میں امید کی لو جگانا ہوتا ہے۔ اسی لیے ہزار زخموں سے چور خود ان کے اپنے دل اور قلم کی نوک سے تخریب کے بجائے تعمیر کا آہنگ نکلتا ہے۔ بطور صحافی میری بھی ذمہ داری یہی ہے کہ میں اپنے قارئین کا درد محسوس کرکے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کروں لیکن ساتھ ہی اپنے قلم کو درد کے سمندر میں ڈوبنے سے بچاؤں۔ آج کی تحریر میں بس اسی بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم اپنے قارئین سے یہ بتا سکیں کہ ان کا کرب اور ان کی پریشانی سے ہم نہ صرف واقف ہیں بلکہ اظہار یکجہتی بھی کرتے ہیں۔ البتہ ہم شرمندہ ہیں کہ ہمارے ملک میں آج صرف انتظامیہ، پولیس اور عدالت ہی نہیں بلکہ صحافت بھی اپنی ذمہ داریوں کو بھول چکی ہے اور عوام کے مسائل کو اٹھانے اور ان کی آواز کو با اثر بنانے کے بجائے حکومت کی چاپلوسی اور ظالموں کی چاکری میں لگ گئی ہے بلکہ فریق بن کر ظالموں کی صف میں شامل ہوگئی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحافت مکمل طور پر مردہ ہوچکی ہے اور احتجاج و مزاحمت کی کوئی صدا بلند نہیں ہوتی ہے۔ ہم ہر حال میں اس بات کی کوشش کریں گے کہ اس مشکل دور میں بھی جب کہ قلم و قرطاس کے حاملین سیم و زر کے غلام بنتے جا رہے ہیں، ہم صحافت میں اپنا وہی کردار ادا کریں جو ہم سے مطلوب ہے۔ جس طرح شاعری ان دنوں محض دل لگی کا سامان مہیا کرنے والی شئے بن کر رہ گئی ہے اور ادب کے اعلیٰ اوصاف سے اس کا تعلق لگ بھگ ختم ہوتا نظر آ رہا ہے لیکن اس کے باوجود شاعری کی دنیا سے بشیر بدر جیسا شاعر نکل کر باہر آ تا ہے اور ایسا کلام پیش کر پاتا ہے جس میں ایک عام انسان بھی اپنا چہرہ دیکھتا ہے اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں چلنے والی کشمکش کا عکس محسوس کر پاتا ہے۔ انہوں نے بجا طور پر فرمایا تھا کہ:
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
بشیر بدر کا یہ شعر تو ایسا لگتا ہے کہ آج کے ہی عہد کے لیے کہا گیا تھا۔ انہوں نے بہت سادہ انداز میں اس بڑی حقیقت کو بیان کر دیا تھا کہ ایک آشیانہ کی خاطر عام ہندوستانی کس قدر محنت و مشقت کرتا ہے اور ایک ایک پائی جوڑ کر اپنا گھر بناتا ہے۔ لیکن برا ہو ملک کی فرقہ پرست سیاست کا کہ اوباشوں کا ٹولہ برسوں کی اس محنت کو ایک پل میں نذر آتش کر دیتا ہے اور کھلے آسمان کے نیچے بے سرو سامانی میں سمٹنے اور الجھنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ بشیر بدر نے جب یہ شعر کہا تھا تب فرقہ پرست عناصر پولیس اور انتظامیہ کی خاموش حمایت میں شعلوں کا جلوس لیے مسلم محلوں میں گھوم گھوم کر انسانی جانوں کو تہ تیغ کرتے تھے اور مسلم بستیوں کو راکھ کا ڈھیر بناکر رکھ دیتے تھے۔ ان کے دور میں فرقہ پرستی نے وہ روپ اختیار نہیں کیا تھا جو آج کرچکی ہے۔ البتہ راحت اندوری وہ شاعر ہیں جنہیں 2014 کے بعد کا ہندوستان دیکھنے کی کلفت برداشت کرنی پڑی۔ انہوں نے وہ ہندوستان دیکھا جس کا تصور بھی انہوں نے کبھی نہیں کیا ہوگا۔ ہر طرف معصوم مسلم جانوں کا شکار کیا جا رہا تھا۔ ان کے خورد و نوش سے لے کر ان کے عادات و اطوار اور عبادت کے طریقہ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ان کی حساس طبیعت پر اس کا بڑا اثر ہوا اور انہوں نے یہ لکھا کہ:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
مرحوم اندوری نے غالباً یہ نہیں سوچا تھا کہ صرف 2022 تک ہی ایک ایسا ہندوستان تیار ہوجائے گا جہاں صرف مسلمانوں کا گھر خود انتظامیہ کے ہاتھوں بلڈوزر سے مسمار کیا جائے گا اور اس سلسلہ میں انصاف کے تمام تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا جائے گا۔ بلڈوزر کے ذریعہ مسلمانوں کے گھروں کو تباہ و برباد کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ ملک کی راجدھانی جہانگیر پوری، کھرگون، کانپور اور آسام ہوتا ہوا پریاگ راج پہنچ چکا ہے۔ ویلفیئر پارٹی کے رکن اور تاجر جاوید احمد کا گھر جس انداز میں مسمار کیا گیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام جمہوری ادارے اس ملک میں معطل ہوچکے ہیں اور فاشزم اپنے عروج ہے۔ جاوید احمد کا گھر ان کی اہلیہ کی ملکیت تھی، اس سے متعلق تمام ضروری دستاویزات دستیاب تھے۔ ٹیکس کی ادائیگی بھی ہوچکی تھی لیکن اس کے باوجود مسماری کا نوٹس بھیج دیا گیا۔ فریق ثانی کو نہ تو اپنا موقف رکھنے کا موقع دیا گیا اور نہ ہی قانون کے مطابق اس کارروائی کو انجام دینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ناموس رسالتؐ کے معاملہ میں بی جے پی اس قدر بوکھلا گئی ہے کہ مسلمانوں سے انتقام پر اتارو ہو گئی ہے۔ دنیا کے سامنے گرچہ اس نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہو کہ وہ ہر مذہب کا احترام کرتی ہے اور مذہبی رواداری کے معاملہ میں ہندوستان کی طویل تاریخ کا لحاظ کرتی ہے لیکن اندرون ملک وہ مسلمانوں کو مسلسل یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ تم ہندوستان میں برابر کے شہری نہیں ہو۔ جاوید احمد کا گھر اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ ان کی فیملی ہندوتو کے اس ایجنڈہ کے خلاف ایک طاقت ور آواز بن چکی ہے۔ آفرین فاطمہ آج ملک کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے بیباک آوازِ مزاحمت بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف بھی مودی حکومت کے خلاف محاذ آرائی کی تھی اور اسی لیے ان کے گھر کو مسمار کیا گیا ہے تاکہ اس ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو یہ پیغام چلا جائے کہ وہ مزاحمت کرنے کی جرأت نہ کریں ورنہ ان کا حشر بھی یہی ہوگا۔ یہ حملہ در اصل مسلمانوں پر بحیثیت مجموعی ہے جس کا مقصد ان کی نفسیات کو توڑنا ہے۔ بی جے پی کی حکومت ہر جگہ اب تک مسلمانوں کو توڑنے میں ناکام رہی ہے اور اسی لیے یہ کھسیانی حرکت کرنے پر اتر آئی ہے۔ اب تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق چھ جج صاحبان نے بھی اس معاملہ پر اپنا غصہ ظاہر کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے اور سپریم کورٹ سے اس سلسلہ میں ضروری اقدام کی گزارش کی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے آج ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سرکار کو نوٹس جاری کیا ہے تاہم اس طرح کی کارروائی پر اسٹے آرڈر دینے سے انکار کردیا ہے لیکن اس سنگین مسئلہ پر کیا عدالتیں اس عہد میں اپنا کردار ادا کر پا رہی ہیں؟ حقیقت سب کے سامنے ہے۔ اگر انصاف کے تقاضوں پر اسی طرح بلڈوزر چلتا رہا تو ملک کا مقدر تباہی کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]