اترپردیش میں قانون کی حکمرانی کے بجائے حکمرانوں کا قانون چل رہاہے ۔وکلااور ججوں کو گھر بھیج کر بلڈوزر بابا نے نظام انصاف اپنے ہاتھ میں لے لیاہے ۔ملزمین کو صفائی کا کوئی موقع دیے بغیر یکطرفہ سزاسنانے اوراس پر فوری عمل درآمد کو ’حسن انتظام‘ سمجھ کر اپنی پیٹھ آپ تھپتھپارہے ہیں ۔ان کی زد پر مسلمان ہیں اور بلڈوزر بابا بظاہر مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس ’ حسن انتظام‘ کی وجہ سے ملک کی سالمیت، جمہوریت، آئین اور قانون منہدم ہورہا ہے۔ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور بھائی چارہ و ہم آہنگی ختم ہورہی ہے۔ گزشتہ چار پانچ دنوں سے مسلمانوں کو سبق سکھانے کیلئے جبر و ظلم، بربریت اور سرکاری دہشت گردی کا جو ننگا ناچ کیاجارہاہے، اس نے ملک کے سنجیدہ حلقوں میں تشویش کی لہر دواڑی دی ہے۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق ججوں اور وکلانے سپریم کورٹ کو اس کے خلاف باقاعدہ ایک خط لکھ کر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔اہانت رسولؐ کی مرتکب بی جے پی لیڈر نوپورشرما اور نوین جندل کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر جبر و تشدد اورانہیں ہراساں کرنے کیلئے پولیس اور انتظامیہ پر جابرانہ کارروائی کا الزام لگاتے ہوئے سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان معاملات کا ازخود نوٹس لے۔ خط میںکہا گیا ہے کہ بی جے پی کے کچھ ترجمانوں کی طرف سے پیغمبر اسلامؐ پر کیے گئے حالیہ ریمارکس کی وجہ سے ملک کے کئی حصوں اور خاص طور پر اترپردیش میں احتجاج ہوا ہے۔ مظاہرین کو سننے اور پرامن احتجاج میں شامل ہونے کا موقع دینے کے بجائے ریاستی انتظامیہ ایسے افراد کے خلاف پرتشدد کارروائی کررہی ہے،پولیس حراست میں نوجوانوں کو لاٹھیوں سے مارا پیٹا جارہا ہے۔مظاہرین کے گھروں اور دکانوں کو بغیر کسی نوٹس اورقانونی کارروائی کے مسمار کیا جارہا ہے۔پولیس اور انتظامیہ کی یہ وحشیانہ کارروائی قانون کی حکمرانی کیلئے ناقابل قبول ہے اور یہ شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی اور ملک میںرائج نظام انصاف کامذاق ہے۔ اترپردیش میں غیر قانونی حراست، نوپورشرما کے بیان کی مخالفت کرنے والوں کو گرفتار کرنا،ان کے گھروںپر بلڈوزر چلانے کی سرگرمیوں کو غیر قانونی ٹھہراتے ہوئے سابق ججوں اور وکلا نے سپریم کورٹ کو یاد دلا یا ہے کہ یہ نازک وقت عدلیہ کی اہلیت کا بھی امتحان ہے۔ عدلیہ ماضی میں عوام کے حقوق کی محافظ بن کر ابھری ہے۔ سپریم کورٹ نے لاک ڈاؤن، پیگاسس کیس اور 2020 میں مہاجر مزدوروں کی جبری گھر واپسی جیسے معاملات میں جس طرح سے ازخود نوٹس لیا،خط میںاس کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔
ملک سے محبت رکھنے والے کسی بھی شہری کیلئے اترپردیش حکومت کی حالیہ کارروائی پرخاموش رہنا ناممکن ہے۔سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس بی سدرشن ریڈی، جسٹس وی گوپالا گوڑا، جسٹس اے کے گنگولی، دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس اے پی شاہ، مدراس ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس کے چندرو، کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس محمد انور اور سپریم کورٹ کے سینئر وکلا شانتی بھوشن، پرشانت بھوشن، اندرا جے سنگھ، چندر ادے سنگھ، آنند گرووراورمدراس ہائی کورٹ کے وکیل سری رام پنچو نے اپنی تشویش کااظہار کرتے ہوئے جو اپیل کی ہے، وہ ملک کے ہر دردمندشہری کی آواز ہے اور اس پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ ایسا کئی بار پہلے بھی ہوچکا ہے اور ملک کے آئین میںاس کی کھلی گنجائش بھی موجود ہے کہ عدلیہ کسی بھی معاملہ میں از خود نوٹس لے کر آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرسکتی ہے۔ اترپردیش حکومت کی وحشیانہ اور جابرانہ کارروائی کوا گر ابھی نہیں روکا گیا تو یہ ملک کی سالمیت کو نگل جائے گی ۔
آج ویسے بھی بگڑتے معاشی حالات،بڑھتی ہوئی مہنگائی، کم ہوتاروزگار، گرتی ہوئی معیشت، صحت سہولیات کا فقدان، تعلیم کی گرتی ہوئی سطح، بڑھتی ہوئی آلودگی، غذائیت کی کمی اور بدعنوانی جیسے سنگین مسائل ملک پر حملہ آور ہیں، ان سے نمٹنے کے بجائے مسلمانوں کوسبق سکھانا کھلی ملک دشمنی ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ ملک کی اکثریت اسے ایک ’مضبوط حکومت‘ کا مثالی ’ حسن انتظام‘ سمجھ رہی ہے ۔تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ناانصافی اور ظلم و بربریت کی جب آگ پھیلتی ہے تووہ اکثریت واقلیت اورا پنے پرائے میں کوئی تمیز نہیں کرتی ہے، سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔آج پریاگ راج میں جاوید احمد اور دوسرے مسلمانوں کا جو مکان منہدم کیاگیا ہے، کل وہ مکانات بن جائیں گے لیکن آئین و قانو ن اور عدلیہ وانصاف منہدم ہوگیا تو پھر اسے تعمیر کرنا مشکل ہوجائے گا۔
[email protected]
منہدم ہوتا نظام انصاف
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS