نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ورزش کینسر کے علاج کے لیے دی جانے والی ادویات کے اثر اور مریض کے زندہ رہنے کے امکانات میں اضافہ کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی خبررساں ادارے کے مطابق تحقیق میں سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ تھکے ماندہ پٹھوں کی درستی کے لیے جسم کی جانب سے جاری کیے جانے والے پروٹین بھی کینسر کے خلیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ امریکہ کے نیو یارک گروس مین اسکول آف میڈیسن کے محققین کو تحقیق میں معلوم ہوا کہ کینسر میں مبتلا چوہوں کی ہفتے میں پانچ دن 30 منٹ کی ورزش کینسر کے خلیوں کے بننے میں 50 فی صد تک کمی کا سبب بنی۔
حالیہ دنوں میں تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ میں ایک تحقیق کے دوران کینسر کی تجرباتی دوا لینے والے تمام مریض شفایاب ہوگئے ہیں۔یہ تحقیق نیویارک کے میمورئیل سلؤن کیٹرنگ کینسر سینٹر میں کی گئی۔ اس تحقیق کے دوران ریکٹل کینسر سے متاثر محض 18 افراد کو تجرباتی طور پر ڈوسٹرالیماب نامی ایک دوا چھ ماہ تک دی گئی۔نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ کینسر کے مرض میں مبتلا تمام مریض دوا لینے کے بعد شفایاب ہوگئے ہیں جسے سائنسی معجزہ قرار دیا جا رہا ہے۔ میمورئیل سلؤن کیٹرنگ کینسر سینٹر سے وابستہ اور تحقیق کے مصنفین میں سے ایک ڈاکٹر لوئیس اے ڈیاز جونیئر نے امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نظر سے کبھی ایسی کوئی تحقیق نہیں گزری جس میں تمام کینسر کے مریض شفایاب ہوئے ہوں۔ ان کے بقول، “میرا خیال ہے کہ یہ کینسر کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ایسا ہوا ہو۔ ڈوسٹر الیماب دوا سے پہلے ریکٹل کینسر کے مریض کیمو تھراپی، ریڈئیشن اور ایسی سرجریوں سے گزرتے تھے جن کے بعد مریض کئی طرح کی جسمانی تکالیف کا شکار ہوجاتے تھے۔ لیکن اس تحقیق کے بعد ان مریضوں کو بتایا گیا کہ انہیں اب کسی بھی قسم کے علاج کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی نیوز چینل ‘این بی سی’ سے بات کرتے ہوئے کینسر کی ماہر ڈاکٹر ہانا سانوف نے اس دوا کے بارے میں بتایا کہ یہ ایمیونوتھراپی کی دوا ہے۔ اس قسم کی ادویات کینسر کا خود شکار کرنے کے بجائے مریض کی قوت مدافعت سے یہی کام کرواتی ہے۔ ڈاکٹر ہانا اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں لیکن اس تحقیق کے ساتھ چھپنے والے ایک مضمون میں وہ لکھتی ہیں کہ یہ تحقیق اگرچہ بہت چھوٹی سطح پر کی گئی لیکن اس کے نتائج بہت جاندار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ کیا تمام مریض ہمیشہ کے لیے صحت مند ہوچکے ہیں اور ابھی اس بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں کہ ڈوسٹرالیماب دوا کتنے عرصے تک لینے سے کوئی مریض صحت یاب ہوسکتا ہے۔