احتجاجی سیاست مسائل کا حل نہیں

0

ذوالقرنین احمد
بہت سارے فسبکی دانشور اور قائدین ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر کسی ایک طرف اپنا موقف واضح کرنے اور اسٹینڈ لینے سے پرہیز کر رہے ہیں۔ کوئی نوجوانوں کی طرف سے کیے گئے احتجاج کو جذبات پر مبنی کہے رہا ہے ،کوئی فرقہ پرستوں کا جال کہے رہا ہے، کوئی دانش مندی سے کام لینے کیلئے کہے رہا ہے، کوئی تعریف بھی کر رہا ہے اور مخالفت بھی۔ پھر نوجوانوں کی رہنمائی کون کریں گا۔ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ وہ وقتی طور پر پیش آنے والی مشکلات ظلم و ستم ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرتی ہے لیکن اس کا مستقل حل تلاش نہیں کرتی ہیں۔ ملی قائدین اور سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ حکومت سے مطالبہ کریں بلکہ انہیں یہ فیصلہ لینے پر مجبور کریں کہ وہ تحفظ ناموس رسالت بل کو پاس کرکے قانون سازی کریں اور گستاخوں کیلئے سخت سزا کو متعین کریں۔ اسکے ذریعے سے مستقبل میں ایسے واقعات پر روک لگائی جا سکتی ہے۔ ہماری قوم جب حالات آتے ہیں تب نیند سے بیدار ہوتی ہے اور جب معاملہ ٹھنڈا ہوگیا تو پھر سے خواب خرگوش میں سو جاتی ہیں۔ جیسے جب تین طلاق کا بل پیش ہوا تو لاکھوں کی تعداد میں مسلم خواتین نے سڑکوں پر اتر کر حکومت کے خلاف احتجاج کیا، لیکن پھر بھی قانون پاس کرلیا گیا اور ہمارے قائدین رہنما یہ چلاتے رہے کہ شریعت میں مداخلت برداشت نہیں کی جائیں گی۔ کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج ہوئے ، این آر سی ، سی اے اے، کے خلاف ملک بھر میں زبردست طریقہ سے منظم احتجاج کیے گئے۔ لیکن کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسے جبراً ختم کروایا گیا۔ بارھا نبی کریم کی شان اقدس میں ملعون مردود فرقہ پرستوں کی طرف سے گستاخیاں کی گئی مسلمانوں نے ہمیشہ نبی کریم کی ناموس کی خاطر سر ہتھیلیوں پر لیے سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیا، اور آج پھر سے بی جے پی کے گستاخوںنے نبی کی شان اقدس میں گستاخی کی تو پورے ملک میں مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ نبی کریم کی ناموس مسلمانوں کی جان مال عزت و آبرو ، والدین اولاد سے بڑھ کر ہیں۔ عرب ممالک نے گستاخوں کیلئے اپنا احتجاج درج کیا، لیکن حکومت نے ابتک گستاخوں کو گرفتار نہیں کیا بلکہ انکی پشت پناہی کر رہی ہے۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے اور مسلمان آخر کس انداز میں احتجاج درج کریں ملی قائدین اور سیاسی رہنما سیکولر اپوزیشن جماعتیں سب خاموش ہیں۔
کوئی لائحہ عمل ہمارے پاس ہونا چاہیے کوئی مستقل محنت کی ضرورت ہے۔ جو کسی بھی ناقابل یقین حالات یا ایمرجنسی حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمارے اندر صلاحیت ہو، اگر ہمیں معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوشش ہورہی ہے تو ہم ان پریشان حکومت کی ستائے ہوئے لوگوں کی مدد کرنے کیلئے اپنے اپنے علاقوں میں بے روزگار نوجوانوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کیلئے مستقل پالیسی تیار کریں۔ بے گناہ افراد کی جیلوں سے رہائی کیلئے لیگل سیل تیار کریں۔ علاقے بستی میں کسی انہونی اور ناانصافی کے خلاف فوراً مجبور و مشکل میں پھنسے لوگوں کی مدد کیلئے قانونی لیگل ٹیم تیار ہو۔ بلڈزر کی کاروائی کو روکنے کیلئے پوری بستی متحد ہوکر ظالموں کے خلاف کھڑی ہوجائیں۔
مسلم طلبا و طالبات کیلئے اپنے علاقے میں اسکول و مدرسے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ مختصر مدتی ٹیکنکل کورسس ، آئی ٹی کالجز، میڈیکل کالجز، سیمی انگلش اسکول، ویب ڈیزائننگ کورسس، گرافکس کارڈ فوٹوشاپ ڈیزائننگ کورسس، ویڈیو ایڈیٹنگ کورس، ٹائیپنگ کورسس، خواتین کیلئے، خواتین سے متعلق روزگار سے جوڑنے والے کورسس، خواتین کی بیماریوں سے متعلق میڈیکل کورسس، آر اے این ایم، جی اے این ایم، سونوگرافی، ایکسرے ٹیکنیشن، گائنیکول جسٹس، اینیستھیشیا، جیسے خودکفیل بنانے والے اور ایمرجنسی میں علاقے بستی میں مددگار ثابت ہونے والے کورسس کروانے کی کوشش ہونی چاہیے جہاں تک ہو سکے اپنے علاقے کے لیڈروں سے ان کالجز کی بنیاد ڈالنے کیلئے مطالبہ کریں۔ ہماری پاس کوئی بڑا نیوز چینل نہیں ہے لیکن انگلش ،ہندی ، عربی زبان پر مہارت رکھنے والے افراد کو میڈیا میں لانے کی کوشش کی جائے۔ اگر بڑے پیمانے پر نا بھی ہو تو اپنا یوٹیوب چینل شروع کریں اور ملک کے سلگتے ہوئے مسائل سے باخبر کریں۔ مٹھی بھر کوشش کیجئے حالات ضرور تبدیل ہوگے ظلم کی اندھیری رات ضرور ختم ہوگی اور عدل و انصاف کی حکمرانی کا ایک نیا سورج طلوع ہوگا۔ دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جب چاہے گا پلک جھپکنے میں حالات تبدیل کردے گا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS