پیغمبر محمدمصطفیؐ کے خلاف اس وقت کی بی جے پی ترجمان نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے متنازع تبصروں کو لے کر گزشتہ کچھ دنوں سے ملک کے کئی حصوں میں بڑے پیمانہ پر احتجاج و مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ اس کی شروعات گزشتہ جمعہ کو ملک کے ایک شہر (کانپور) میں پرتشدد مظاہرہ سے ہوئی اور وہی آگ اس جمعہ تک آتے آتے 12ریاستوں میں پھیل گئی۔ جہاں دہلی، مہاراشٹر، کرناٹک، تلنگانہ اور گجرات میں بڑے پیمانہ پر احتجاج و مظاہرے پرامن رہے، وہیں جھارکھنڈ کے رانچی، اترپردیش کے پریاگ راج، مغربی بنگال کے ہاوڑہ اور جموں و کشمیر کے کچھ حصوں سے کم-زیادہ تشدد ہوا۔ ہاوڑہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دفتر کو پھونک دیا گیا جبکہ رانچی میں گولیاں چلیں اور پریاگ راج میں پتھراؤ ہوا۔
پہلی نظر میں تو یہ مظاہرے مخالفت کا فطری اظہار نظر آتے ہیں۔ پیغمبر محمدمصطفیؐ کی شان میں گستاخی سے کسی بھی مسلمان کا دلبرداشتہ ہونا کسی بھی نظریہ سے غلط نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ لیکن مخالفت میں تشدد پر ضرور سوال اٹھتے ہیں۔ تھوڑا اور گہرائی میں جانے پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ واقعہ کے تقریباً دو ہفتے بعد ایسا کون سا عنصرہے جس نے آگ کو بھڑکانے کا کام کیا ہے۔ کانپور کے واقعہ کا تعلق تو پی ایف آئی سے جڑرہا ہے، کیا پورے ملک میں ہوئے احتجاج و مظاہرہ کے پیچھے بھی ایسی ہی کسی سازش کا ہاتھ سامنے آئے گا؟ حالاں کہ اس امکان کو بھی خارج نہیں کیا جاسکتا کہ غالباً اس احتجاج کے پیچھے واقعہ کی عالمی مذمت نے بھی مظاہرین کو حوصلہ دینے کا کام کیا ہو۔
خاص طور پر خلیجی ممالک، کویت اور قطر کا ردعمل حیران کردینے والا رہا۔ قطر نے تو حکومت ہند سے عوامی طور پر معافی مانگنے کا مطالبہ تک کرڈالا۔ قطر کی دیکھا دیکھی کویت نے بھی ہندوستانی سفیر کو طلب کرلیا۔ اس طرح کے فوری اور تلخ ردعمل اور بعد میں ہنگامہ کے پیچھے مذہبی دباؤ کے علاوہ ایک سبب عرب دنیا کے اندر طاقت کا توازن اور ہندوستان کے ساتھ ان کے تعلقات بھی ہوسکتے ہیں۔ قطر مسلسل او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) کے لیڈر کے طور پر ابھرنے کی کوشش میں ہے اور اس کے لیے وہ ہندوستان سے زیادہ توجہ چاہتا ہے، جبکہ حالیہ برسوں میں ہندوستان کی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ قربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ منسٹری آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ قطر کے ساتھ ہندوستان کا کاروبار سعودی عرب کے مقابلہ میں 185فیصد کم ہے، جو موجودہ وقت میں اسلامی دنیا میں مسلمانوں کی آواز ہے۔
بہرحال اس تنازع میں کاروبار کی زیادہ بات موضوع سے ہٹ کر ہوگی، لیکن یہ جاننا اہمیت کا حامل ضرور ہے کہ حکومت ہند بین الاقوامی ردعمل کا سامنا کیسے کررہی ہے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک سیاسی لیڈر، بھلے ہی وہ حکمراں پارٹی سے وابستہ ہو، کے تبصرہ پر ملک کی حکومت کیسے جواب دہ ہوسکتی ہے؟ ان سب کے درمیان وزارت خارجہ نے واضح کردیا ہے کہ پیغمبرمحمد مصطفیؐ کے بارے میں متنازع تبصرہ حکومت کے خیالات کو نہیں ظاہر کرتا ہے اور تبصرہ کرنے والوں کے خلاف متعلقہ اہل اداروں کی جانب سے سخت ترین کارروائی کردی گئی ہے۔
یہ ردعمل گزشتہ آٹھ برسوں سے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے بنیادی اصول پر کام کررہی حکومت کی سوچ سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔ اب تو یہ سوچ ’سب کا پریاس اور سب کا وشواس‘ کے جذبہ سے بھی فروغ پارہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی خود ہندوستانی معاشرہ میں سبھی مذاہب اور روایتوں کے عزت و احترام اور قبولیت کی وراثت کے پیروکار ہیں۔ کئی مواقع پر تو وہ پرزور طریقہ سے اس پر اپنا موقف بھی رکھ چکے ہیں۔ مذہبی تکثیریت کے تصور سے پیدا ہوئے ’سرودھرم سم بھاو‘ (تمام مذاہب کے احترام) کا یہ شعور ہمارے آئین کی بھی پہچان ہے۔ مذہبی تکثیریت لازمی طور پر کہتی ہے کہ سب سے پہلے، سبھی مذاہب کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ کچھ حقائق دیگر مذاہب میں بھی موجود ہیں، جس سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ یہ صرف ان کا اپنا مذہب نہیں ہے جو ’واحد سچ‘ ہے۔ اپنے ترجمانوں کو عہدہ سے ہٹاتے ہوئے بی جے پی نے بھی کم و بیش اسی طرح کی سوچ کی حمایت کی ہے۔ حالاں کہ ’فرنج ایلیمنٹ‘ پر بکھیڑے کے ساتھ ہی یہ سوال بھی لاجواب ہے کہ کارروائی میں اتنا وقت کیوں لگ گیا؟ دونوں لیڈروں کو ان کے توہین آمیز تبصروں کے فوراً بعد ہٹا دیا جاتا تو تنازع کے منفی نتائج سے بچا جاسکتا تھا۔ ویسے یہی بات ملک میں رہ رہ کر اٹھنے والے متنازع مذہبی ایشوز اور ان کے بہانے تقویت پارہے ’ہیٹ اسپیچ‘ کے دور کو لے کر بھی کہی جاسکتی ہے۔
خیر اس معاملہ میں ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ دیر سے ہی سہی اشتعال انگیز بیانات پر لگام لگانے کی شروعات ہوتی نظر آرہی ہے۔ دہلی پولیس نے دو ایف آئی آر درج کی ہیں جن میں نوپور شرما سے لے کر اے آئی ایم آئی ایم چیف اسدالدین اویسی اور یتی نرسنہانند سمیت 33لوگوں کا نام شامل کیا گیا ہے۔ پولیس پر کچھ لوگوں کے خلاف دباؤ میں کارروائی کے الزام میں سچائی ہوبھی سکتی ہے اور ایسے لوگوں کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے لیکن اس کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ لیڈر چاہے مذہبی ہوں یا سیاسی، نفرت پر مبنی بیان دینے سے پہلے اب کم سے کم ایک بار اس کے ممکنہ خمیازہ کے بارے میں ضرورسوچیں گے۔
ویسے سوچنے کی ضرورت ان میڈیا چینلوں کو بھی ہے جو راست-براہ راست طور پر اس آگ کو بھڑکانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ان چینلوں پر روز پرائم ٹائم کے بہانہ ہونے والی فرقہ وارانہ بحث ملک، معاشرہ، مذہب اور ثقافت کا کوئی بھلا نہیں کررہی ہے، بلکہ تقسیم کرنے والے عناصر کو ہی ایک پلیٹ فارم مہیا کررہی ہے۔ بحث میں مدعو مہمانوں کے خیالات کو ان کے ذاتی خیالات بتاکر بھی میڈیا چینل اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے۔ ایک دن ان سے بھی یہ سوال پوچھا ہی جائے گا کہ جو مہمان بار بار اشتعال انگیز بیان دیتے ہیں، انہیں ہی بار بار مدعو کرنے کے پیچھے چینلوں کی آخر کیا مجبوری ہے؟ اس سمت میں ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے باقاعدہ رسمی بیان جاری کرکے کچھ نیشنل نیوز چینلوں کو جان بوجھ کر کمزور طبقوں اور ان کے عقائد کے تئیں نفرت پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بے حد سخت تبصرہ کرتے ہوئے گلڈ نے ان چینلوں کو اپنی ٹی آرپی اور منافع بڑھانے کے لیے ’ریڈیو روانڈا‘ کی اقدار سے متاثر بتایا ہے۔ 1994میں ریڈیو روانڈا کی اشتعال انگیز نشریات اس افریقی قوم میں محض 100دنوں میں 8لاکھ سے زیادہ لوگوں کے قتل عام کا سبب بنی تھی۔
بیشک ہمارے ملک میں ایسی کسی صورت حال کے سچ ہونے کا اندیشہ بالکل بھی نظر نہیں آتا ہو، لیکن حالیہ واقعات نے اظہاررائے کی آزادی پر نئے سرے سے بحث کے حالات ضرور پیدا کردیے ہیں۔ عوامی اور سیاسی سطح پر مربوط اظہاررائے کے لیے تین باتیں لازمی ہیں۔ پہلی یہ کہ جو بات کہی جانی ہے وہ قانونی دائرہ میں ہو۔ دوسری یہ کہ ایسی سیاسی ثقافت ہو جو کسی بھی طرح کی فرقہ وارانہ صف بندی کی مخالفت کرتی ہو۔ تیسری اور سب سے اہم یہ کہ معاشرہ میں ایسے معیار ہوں جس میں عاجزی کے احساس کے ساتھ ہی یہ بیداری بھی ہو کہ اگر معاشرہ کے لیے کچھ تباہ کن ہے تو خود پر بندش لگانے کی آزادی کے لیے بھی کسی دوسرے کی اجازت کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ فی الحال ہم ان تینوں پیمانوں پر مثالی صورت حال سے کافی دور ہیں۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
اظہاررائے کا حق، غوروخوض کی درکار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS