خواجہ عبدالمنتقم
موہن بھاگوت کے حالیہ بیان کی بابت کچھ سیاسی مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ ان کا ماضی مبصرین کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ آخر ہم ان کے اس بیان پر، جس کی تفصیل اب ہم سب کے سامنے ہے، کس طرح یقین کریں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنے قول کی سچائی کو اپنے عمل سے صحیح ثابت کریں گے۔ ہم کوئی سیاسی مبصر نہیں اور نہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق رہا ہے لیکن ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص معقول بات کہہ رہا ہے اور مستقبل میں بہتر حالات دستیاب کرانے کی یقین دہانی کرا رہا ہے تو اسے یکسر نکارنے کا کوئی جواز نہیں اور وہ بھی موجودہ حساس صورت حال میں۔
مایوسی کفر ہے۔ یاد رہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اور مختلف طبقات سے رابطہ میں آنے اور دنیا کو قریب سے دیکھنے اور سیاسی صورت حال بدلنے کے سبب کسی کے رویہ میں تبدیلی آنا ایک فطری عمل ہے اور حسب موقع اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور رہنی بھی چاہیے،کبھی مکمل طور پر تو کبھی جزوی طور پر، کبھی مصلحتاً تو کبھی زمینی حقیقت کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے اورکبھی کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے۔ویسے بھی ہر سلیقہ منداور معاملہ فہم انسان کسی نہ کسی مرحلے پر، خاص کر اپنی عملی زندگی میں تصنع اور خلوص کا موازنہ کرتے وقت، جذبۂ خلوص کو ہی ترجیح دینا بہتر سمجھتاہے اور اس نا قابل تردید حقیقت کا قائل ہو جاتا ہے کہ انسانوں کو بانٹنے سے سماج میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ عام مسئلے گفت و شنید سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ مگر کچھ لوگوںکوکبھی اپنے مفاد میں،کبھی مفاد عامہ میں تو کبھی ملک کے مفاد میںشیکسپیئر کی زبان میں غذائے محبت (food of love) کوغذائے سیاست میں بدلنے کا ہنر بخوبی آتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں بشرطیکہ نیت صاف ہو۔سب کو جوڑنے، ملک کی ملی جلی ثقافت کی قدر کرنے اور ہر عبادت گاہ کو کبھی کسی بنیاد پر تو کبھی کسی غرض کے لیے نشانہ نہ بنانے کی بات کسی بھی مرحلہ پر کی جائے تو اس پر کسی بھی فریق کو بھنویں چڑھانے کے بجائے اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔کبھی نہ کبھی تو ساقی سے بھی یہ امید کی جاسکتی ہے اور وہ بھی اس محفل میں جہاں آپ کا کوئی دیگر مددگار نہ ہو اور دیگر لوگ بھی صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلاتے ہوں کہ شاید وہ ہی گرتے ہوئے لاغر و لڑکھڑاتے ہوئے میخوار کو سہارا دے دے۔ علامہ اقبال نے صحیح ہی کہا ہے: ’مزہ تو تب ہے کہ گرتوںکو تھام لے ساقی‘۔
کسی بھی مہذب معاشرہ میںکسی بھی عبادت گا ہ یا کسی ایسی علامتی شے کی بے حرمتی یا انہدام، جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہوں، ایک ناپسندیدہ عمل ہے خواہ وہ قدیم عمارات اور مقامات و آثار قدیمہ، حفاظت آثار قدیمہ یا باقیات سلف و خزانۂ فن سے متعلق قوانین کے دائرہ یا حدود میں آتی ہوں یا نہیں۔شکست و ریخت یا کسی انہدامی کارروائی کے ذریعہ دنیا کوتماشہ دکھا نا اچھی بات نہیں۔ہمارا ماضی ہماری عظمت کا امین ہے،ہمارا حال ہماری شان بان ہے اور ہمارا مستقبل ہماری توقعات کا اشاریہ ہے۔دریں صورت اب ضرورت تو ایسے اقدامات کی ہے جس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ لوگ مستقبل میں ایسی کوئی بھی حرکت نہ کر سکیں۔ اگر اس سلسلہ میں بروقت تدارکی کارروائی نہیں کی گئی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ کہیں یہ وبا سلسلہ بندی و تواتر کی شکل اختیار نہ کر لے۔ ہمارے ملک کا دستور اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق دستاویزات اس طرح کی کسی بھی حرکت کی اجازت نہیں دیتیں۔ ان میں تو فرد کی عظمت اور اخوت کی بات کہی گئی ہے۔ ہمارا آئین کسی کو بھی اس سے انحراف اور تجاوز کی اجازت نہیں دیتا۔صرف یہی نہیں بلکہ وہ قانون سازی کی ان حدود کا بھی تعین کرتا ہے جن کا تجاوز ملک کے کسی بھی قانون کو تجاوز کی حد تک ناقص بنا دیتا ہے۔
اگر ہم تاریخ رفتہ پر نظر ڈالیں تو آزادی کے بعد ہمارے ملک میں اس طرح کے واقعات شاذو نادر ہی ہوئے ہیں اور اگر ہوئے بھی ہیں تو، ماسوائے بابری مسجد کے انہدام کے،بڑے پیمانے پر نہیں ہوئے۔ تریپورہ میں لینن کے مجسمہ کا انہدام، بنگال میں شیاما پرشاد مکھر جی کے مجسمے کی بے حرمتی اور مابعد اترپردیش میں معمار آئین ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے مجسمہ پر وار کی سبھی نے مذمت کی تھی۔اپنی پسندیدہ شے یا شخصیت کو تو سبھی پسند کرتے ہیں مگر قوت برداشت اور اعلیٰ ظرفی کا اصل امتحان تو اس وقت ہوتا ہے جب اپنی طبیعت کے خلاف ہونے والے کسی وقوعہ کے خلاف احتجاج کی صورت میں بھی تہذیب کے دائرہ میں رہا جائے اور کوئی خوشی مناتے وقت بھی،کسی مشن میں کامیابی، خواہ وہ کسی بھی میدان یا شعبۂ حیات میں ہو،کسی عمارت کی شکست و ریخت کے ذریعہ نہیں منائی جاتی۔ جشن منانا ایک تعمیری عمل ہے، اگر اسے تخریبی اندازمیں منایا جاتا ہے تو یہ یقینا منفی فکرو عمل کا اظہار ہوگا۔
ہمارا ملک بھارت تو ایک ایسا ملک ہے جس میںایک طرف مسجد ہے تو دوسری جانب مندر، ادھر گرودوارہ ہے تو ادھر کلیسا، یہاں یہودیوں کا سناگوگ ہے تو وہاں پارسیوں کا فائرٹیمپل اور وہیں بودھ اسٹوپااور ساتھ ہی منکر خدا اور منکر کل و لاوجودیت کے قائل افراد کو اپنی مرضی سے کوئی بھی طرز زندگی اختیار کرنے کی چھوٹ۔ انسان دوستی، رواداری اور آپسی بھائی چارہ اس کی وراثت ہے۔ اس صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی قوت برداشت کو مزید Tolerance friendlyبنانا ہوگا۔ اپنی اپنی پسند کے ساتھ ساتھ دوسروں کی پسندپر اظہار برہمی سے احتراز کرنا ہوگا۔ لینن کے ان حامیوں کی بات بھی سننی ہوگی جو اس حوالہ سے اس کی یہ کہہ کر تعریف کرتے ہیں کہ وہ پہلا حکمراں تھا جس نے ہماری آزادی کی جدوجہد میںہماری حمایت کی تھی اور ہماری جنگ آزادی کے پروانوںجیسے بھگت سنگھ، راج گرو،اشفاق اللہ خاں،چندر شیکھر آزاد، سکھ دیو وغیرہ نے اس کے سوشلزم کے تصور کو سراہا تھا اور ساتھ ہی ان لوگوں کی بات بھی جو اس کے ظلم و استبداد کی بات کرتے ہیں۔ تبھی ہم ہندوستان کے آفاقی حیثیت والے اس قدیم فلسفہ ’واسودیو کٹنبکم‘ اور اب سے 1400سال سے بھی زیادہ عرصہ سے قبل قرآن کریم کی سورۃ الحجرات میں اس واضح تصور کو کہ تمام بنی نوع انسان ایک قوم ہیں اور ان کی جغرافیائی شناخت کے لیے انہیں جداگانہ حیثیت عطا کی گئی ہے،کو عملی جامہ پہناسکیںگے۔ یہی تو ہے آج کے جدید Global village کاحقیقی پس منظر۔اس حقیقی پس منظر کو عصری منظر نامہ کی شکل دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا اور ہم آپسی اختلافات میں الجھے رہے تو پھر ہمارا سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواب کس طرح شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ہم اس نئی صبح کے نمودار ہونے کے منتظر ہیں جس میں آنکھ کھلنے پر ہمیں یہ کہہ کر آہ نہ بھرنی پڑے’جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا‘۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]