بچپنا نہیں بچوں کا ادب لکھنا

0

پنکج چترویدی

اگر ہندوستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کی بات کی جائے تو بچوں کی کتابوں کے مصنّفین رائلٹی کے معاملے میں سب سے زیادہ مالامال ہیں، بچوں کی کتابیں ہندی میں بھی خوب چھپ رہی ہیں لیکن ان میں سے بہت کم اصل قارئین تک پہنچتی ہیں۔ بچوں کے ادب کے مصنّفین کا بڑا طبقہ ابھی بھی بچوں کے لیے لکھنے اور ’بچکانہ‘ لکھنے میں فرق کرنے سے قاصر ہے۔ جانوروں کو انسان بنا دینا، راجہ، وزیر، رانی کی کہانی، کسی بچے کو چوٹ پہنچاکر اسے سبق دینا یا دو بچوں کا موازنہ کرکے اس میں اچھا بچہ، برا بچہ طے کر دینا یا پھر اخلاقی تعلیم کی گھٹی پلانا، زیادہ تر بچوں کے ادب میں شامل ہے، شاعری کی تصویریں اور مکالمے وہی گھڑی، کوئل اور بندر تک محدود ہیں۔ بچوں کے ادب کا سب سے ضروری عنصر اس کی تصویریں ہیں اور یہ تصویریں تو انٹرنیٹ سے چوری کرکے یا کسی ناتجربہ کار فنکار کے ذریعے بنوائی گئی ہوتی ہیں- ایسی کتابیں آپس میں دوستوں کو تقسیم کرتی ہیں اور کچھ خود ساختہ ناقد مفت میں ملی کتابوں میں سے ہی بہترین کا انتخاب کر کے ایڈیٹر کے خطرے سے آزاد سوشل میڈیا پر چسپاں کر دیتے ہیں۔
دنیا تبدیل ہو رہی ہے، تکنیک نے ہمارے معاشرے کو دو دہائیوں میں جتنا نہیں بدلا تھا، اس سے کہیں زیادہ کووڈ کے 22 مہینوں میں انسان کی فطرت بدل گئی، اس سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، ان کے دوست مل نہیں پائے، وہ کھیلنے نہیں جاسکے، وہ گھر کے ماحول میں دبے بیٹھے رہے۔ ظاہر ہے کہ بچوں کے پڑھنے کے مواد کو بھی اسی مناسبت سے تبدیل کرنا پڑے گا۔ ایک بات سمجھنی ضروری ہے کہ نصابی کتاب کے مواد، تفہیم یا اخلاقی متن اور تفریحی پڑھنے والے مواد میں فرق ہوتا ہے اور ان کے مقاصد، مواد اور پیشکش بھی مختلف ہوتے ہیں۔ نصابی کتابوں یا اخلاقی ادب کے بوجھ سے تھکا ہوا بچہ جب کچھ ایسا پڑھنا چاہے جو اس کو تفریح فراہم کرے، اس طریقے سے علم یا معلومات فراہم کرے کہ اس میں کوئی سوال پوچھنے یا غلط صحیح جواب سے بچے کے تجزیے کا مقام نہ ہو، وہ کتنا پڑھے، کب پڑھے، اس کا کوئی دائرہ نہ ہو- ایسی کتابوں کو ہی بچوں کا ادب کہا جاتا ہے۔ اب کس عمر کا بچہ کیا پڑھنا پسند کرتا ہے، اس پر پہلے بہت لکھا جا چکا ہے لیکن ذہن میں یہ رکھنا ہوگا کہ بچے کی پڑھنے کی صلاحیت اور دلچسپی بہت کچھ اس کے سماجی و اقتصادی ماحول پر منحصر کرتی ہے اور اسی لیے کوئی ایسا معیاری خاکہ نہیں بنا ہے کہ فلاں کتاب فلاں کلاس کا بچہ ہی پڑھے گا۔
بچہ اپنے ماحول سے باہر کی باتوں اور زبان کو دلچسپی سے پڑھتا ہے، واضح ہو کہ اچھے ادب اطفال کا بنیادی عنصر تجسس ہے! آگے کیا ہوگا؟ کسی کہانی کا پہلا جملہ ہی اگر اس طرح شروع ہوتا ہے-راجو شیطان ہے یا ریما پڑھنے میں اچھی ہے- تو جان لیں کہ بچہ قارئین کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی- پلاٹ کے اصل کردار کی اصل خوبیاں یا خاصیت جب پہلے ہی جملے سے ظاہر ہوگئیں تو آگے کا متن بچہ اس مستقل تصور کے ساتھ پڑھے گا کہ وہ شیطان ہے یا پڑھنے میں اچھی۔
کیا آپ نے ادب اطفال میں سرپنچ، ممبران پارلیمنٹ، ایم ایل اے کا ذکر دیکھا ہے؟ کیا آپ نے بینک یا دیگرکسی محکمے کو کام کرتے دیکھا ہے؟ صرف پولیس والا ہوگا یا پہلے کچھ کہانیوں میں ڈاکیہ۔ زیادہ تر رائٹرکسی بچے کو بہادر بتانے کے لیے اسے چور سے یا دہشت گرد سے راست لڑتا ہوا بتا دیتے ہیں۔ کچھ سال پہلے دہلی میں ایک خاتون نے شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کو پکڑا جو اس کی چین چھین رہا تھا۔ علاقے کے ڈی سی پی نے واضح کیا کہ اس طرح کے خطرات نہ مول لیں، انسان کی زندگی زیادہ قیمتی ہے، ظاہر ہے کہ بچے کو بیدار ہونا چاہیے، پیڑ کاٹنے یا دہشت گردانہ واقعہ انجام دینے والوں کی اطلاع فوراً متعلقہ ایجنسی کو دینی چاہیے۔ یہ جمہوریت کے تیسرے ستون منتظمہ کے تئیں پوری دنیا کے شہریوں کے دل میں اعتماد ظاہر کرنے کا سبق ہوتا ہے، آج بھی کئی نوجوان جمہوریت یا لیڈروں کو گالیاں دیتے پائے جاتے ہیں، اصل میں انہوں نے بچپن میں بادشاہت کی اتنی کہانیاں پڑھی ہوتی ہیں کہ ان کے ذہن میں ابھی بھی راجا اور وزرا ہی آئیڈل ہوتے ہیں۔ یہ جان لیں کہ جمہوریت میں خامیاں ہو سکتی ہیں لیکن ملک کا آج دنیا میں جو مقام ہے اس کی بنیادی وجہ عظیم جمہوریت ہی ہے لیکن ادب اطفال میں یہ اکثر ندارد رہتا ہے۔
چھوٹی باتوں، اپنے اردگرد ہونے والی سرگرمیوں کو باریک بینی سے دیکھنا اور اسے لفظوں میں بیان کرنا بچوں کے ادب کی خوبی ہے، ادھرادھر سے جمع سائنسی مواد کو ایک ویب سائٹ پر ڈال پر خود کو سائنس اور ادب اطفال کاماہر سمجھنے والے ایک مصنف کو ایڈیٹر کے ذریعے تحریر واپس کرنا اتنا ناگوار گزرا کہ انہوں نے بچوں کی کتابوں کے ملک کے ایک بڑے اور مشہورپبلشر کی کتابیں پڑھنا بند کر دیا، درحقیقت ہندی کا یہ المیہ ہے کہ کچھ مقامی ایوارڈس، اکا دکا کتابوں کی اشاعت اور بعض فورمس پر تقاریر کرنے کی دعوت کے بعد مصنف سمجھ لیتا ہے کہ وہ علم و دانش کے اس بلند و بالا پہاڑ پر بیٹھا ہے جہاں سے اب اسے جستجو، تندہی یا اختراع کی ضرورت نہیں ہے، اس کا کام صرف دعائیں دینا ہے۔
دنیا میں ادب اطفال نت نئے موضوعات کے ساتھ آ رہا ہے، صرف یوروپ یا امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں، افریقہ اور عرب دنیا میں ادب اطفال میں بچوں کی نفسیات، مسائل اور معلومات کے نئے موضوعات تیزی سے آرہے ہیں اور ہندی میں ابھی بھی پنچ تنتر یا ہیتوپدیش جیسی تحریریں یا مذہبی کتابوںسے کہانیوں کو دوبارہ لکھنے یا کسی مشہور شخص کی زندگی کے واقعات کی کثرت ہے، کئی بار نئے تجربے کے نام پر پلاٹ کا کردار بچہ یا جانور ہوتا ہے لیکن پلاٹ کا بہاؤ اور فیصلہ کن موڑ مکمل طور پر بالغ ذہنیت والا۔
ایک کتاب کے سرورق پر ہی ایک آدمی کی کھوپڑی کھلی ہوئی ہے اور خون بہہ رہا ہے، عید کی کہانی میں عید کا چاند پونم کی طرح منہ کھولے ہوئے ہے—کہانی گاؤں کی ہے لیکن انٹرنیٹ سے لی گئی تصویر میں گھر-کھیت ڈنمارک کے نظر آرہے ہیں— ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ بچوں کے ادب میں تصویریں، لفظوں کے ترجمے نہیں ہوتے، بلکہ ان کی توسیع یا ایکسٹینشن ہوتی ہیں، ٹھیک اسی طرح الفاظ بھی تصویر کی توسیع ہوتے ہیں- جو بات الفاظ میں نہ آئی، وہ تصویریں کہہ دیتی ہیں، دوسرے درجے کے ادب اطفال میں تصویریں ایک طرح سے الفاظ کو دہراتی ہیں اور واضح ہو کہ بچے کی ایسے مواد میں کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوتی۔
یہ بات الگ ہے کہ تفریحی ادب اطفال بنیادی طور پر نصابی کتابوں کے بنیادی مقصد کی تکمیل ہی کرتا ہے-حروف تہجی اور الفاظ، اعداد اور ان کا استعمال، رنگ- شکل و صورت کو پہچاننا اور انسانی حساسیت- بس اس کا استعمال نہیں ہوتا- بچوں کے ادب کے انتخاب، تحریر اور تدوین کے تئیںحساس ہونا اسی لیے ضروری ہے کہ ان الفاظ-تصاویر سے ہم ملک کا مستقبل تعمیر کرتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS