مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھن کھڑ اور ترنمول حکومت کے مابین جاری رسہ کشی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔پرانے تنازع کی بازگشت تھمنے بھی نہیں پاتی ہے کہ نیا اور اس سے کہیں زیادہ سنگین تنازع سامنے آجا تا ہے۔ اس رسہ کشی کا اثر سیاست سے زیادہ زندگی کے دوسرے شعبوں پر پڑ رہاہے، خاص کر اعلیٰ تعلیم کا شعبہ اس سے بری طرح متاثر ہورہاہے۔گورنر اپنے مفوضہ اختیارات سے زیادہ صوابدیدی اختیار ات کا استعمال کررہے ہیں اوراعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں ریاستی حکومت کے ہر فیصلے کوقلم زدکرنے میں مصروف ہیں۔ یونیورسیٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری کا معاملہ ہویا تبادلہ کا نوٹیفکیشن جاری کیاجانا ہومہینوں فائل گورنر کے دفتر میں پڑی دھول پھانکتی رہتی ہے اور جب ریاستی حکومت فیصلہ کرلیتی ہے تو گورنر اس کے علی الرغم الگ ہدایت جاری کرتے ہیں۔ اس رسہ کشی اور تصادم کا سب سے بڑا نقصان طلبا کو ہورہاہے۔اور یہ نقصان اس لیے ہورہاہے کہ گورنربہ اعتبار عہدہ ریاست کی یونیورسیٹیوں کے چانسلر بھی ہیں۔ہر چند کہ انتظامی اختیارات سے خالی یہ محض آرائشی عہدہ ہے لیکن گورنر جگدیپ دھن کھڑاس آرائشی عہدہ کا استعمال بھی انتظامی عہدہ کے طور پر کرنے کے خواہش مند ہیں اور سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو نوک پا پر رکھے ہوئے ہیں۔
مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھن کھڑ بحیثیت چانسلر ریاست میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کیلئے ’عقرب‘ سمجھے جانے لگے ہیں۔ان کے ’کارناموں‘ کی ایک طویل فہرست ہے جس کی وجہ سے ریاست کی یونیورسیٹیوں میں انتظامی خلا پیدا ہوا اور طلبا کی تعلیم کا بے پناہ نقصان ہورہاہے۔گزشتہ سال دسمبر کے مہینہ میںہی گورنرجگدیپ دھن کھڑ نے 24 یونیورسٹیوںمیں وائس چانسلرز کی تقرری کے معاملہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہاتھا کہ ریاستی حکومت نے قانون کو نظر انداز کرکے چانسلر کی منظوری کے بغیر یہ تقرریاں کیں اس کے بعد راج بھون سے وائس چانسلرز کی تقرری کا دوسرانوٹیفکیشن جاری کردیا گیااور ایک ہی یونیورسٹی کیلئے دو الگ الگ افرادکو دو دنوں کے وقفہ میں وائس چانسلر کے عہدہ پر تقرری کا پروانہ ملا۔کئی مواقع ایسے بھی آئے جب گورنر نے ریاستی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو طلب کیا۔ گورنرجگدیپ دھن کھڑ نے چند مہینوں قبل وائس چانسلروں کی ورچو’ل کانفرنس بھی طلب کرلی تھی لیکن انہیں اس معاملے میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور کوئی بھی وائس چانسلر شریک نہیں ہوا۔اس معاملے کو گورنر نے اپنی انا کا مسئلہ بنالیا اور وائس چانسلرز کے خلاف کارروائی کی بات کرتے ہوئے کہا کہ مغربی بنگال میں تعلیمی نظام سیاسی طور پر پنجرے میں بند ہے۔ گورنرکے اس اقدام کے بعد وزیراعلیٰ نے وائس چانسلرز کو یقین دلایا تھا کہ انہیں کسی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ماضی قریب میں ایسے کئی دوسرے واقعات بھی ہوچکے ہیں جن میں گورنر کو یونیورسیٹیوں کے دورہ کے دوران احتجاج کا سامنا کرنا پڑاہے۔جادب پور یونیورسٹی اور کلکتہ یونیورسٹی کی تقسیم اسناد کی تقاریب میں تو گورنر کے خلاف طلبا اور یو نیورسٹی عملہ کی بھاری تعدادنے انسانی زنجیر بناکر احتجاج کیا اور انہیں تقریب گاہ میں جانے سے روکا۔
لیکن اب ریاست کی ترنمول کانگریس حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو گورنر کی مداخلت سے آزاد کرانے کا عزم کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب چانسلر کے عہدہ پر گورنر نہیں وزیراعلیٰ ہوں گی۔ ریاستی سکریٹریٹ نوانومیں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں اس کیلئے متفقہ قرار دادبھی منظور کر لی گئی ہے۔اس اجلاس میں اس پربھی مہر تصدیق ثبت کردی گئی ہے کہ ریاست ہیلتھ ایجوکیشن، زرعی یونیورسٹی اور مویشی اور ماہی پروری کی یونیورسٹیوں کی چانسلر بھی وزیراعلیٰ ہی ہوں گی جب کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے وزیٹر ریاست کے وزیر تعلیم ہوں گے۔
بظاہر ریاستی حکومت کا یہ طرز عمل دیگر ریاستوں میں رائج آئینی اقدار سے مختلف ہے۔ا ب تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ریاستی یونیورسیٹیوںکے چانسلر گورنر ہوتے ہیں اور مرکزی یونیورسیٹیوں کے چانسلر وزیراعظم اور وزیٹر صدرجمہوریہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ آئینی روایت بارہاتصادم کا سبب بنی ہے اوراس کا مشاہدہ ملک کی مختلف ریاستوں میں بار بار کیا جاتا رہا ہے۔ اس طرح کے کسی بھی تصادم سے بچنے اور طلبا کے وسیع تر مفاد میں راجستھان، تمل ناڈو اور تلنگانہ کی حکومتوں نے بھی اپنے یہاں کی یونیورسیٹیوں میں گورنر کے بجائے وزیراعلیٰ کو چانسلر بنایا ہے، اس تناظر میں دیکھاجائے تو مغربی بنگال حکومت کافیصلہ مروجہ آئینی انتظامات سے مختلف ضرور ہے تاہم اسے غیر معقول نہیں قراردیاجاسکتا ہے۔لیکن بہتر یہ ہوتا کہ چانسلر کی ذمہ داری گورنر سے لے کر وزیراعلیٰ کو دینے کے بجائے کسی ماہر تعلیم کو دی جاتی تاکہ اس شعبہ کو ہر طرح کی مداخلت سے پاک رکھا جاسکے۔ چانسلر کے عہدہ پر سیاست دانوں کا متمکن ہونا تعلیم کے مفاد میں نہیں ہوسکتا ہے کیوں کہ سیاست داں چاہے وہ مرکز کے نامزد گورنر کی شکل میں ہویا ریاست کی منتخب وزیراعلیٰ ہووہ محض سیاست داں اور اقتدار کا حریص ہوتا ہے۔تعلیم کے معیارکی بہتری کا ضامن تو کوئی ماہر تعلیم ہی ہوسکتا ہے۔
[email protected]
مغربی بنگال میں ’چانسلر ‘کیلئے لڑائی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS