نور الاسلام شفیع مدنی
حج اسلام کے فرائض و شعائر میں سے ایک بنیادی فریضہ ہے، مستطیع مسلمان پر زندگی میں ایک بار اس کی ادائیگی واجب ہے، ابتدائے اسلام ہی سے مسلمان اس فریضہ کو بڑے ہی عقیدت واحترام کے ساتھ ہر طرح کی کلفتوں ومشقتوں کو گوارا کرتے ہوئے ادا کرتے رہے ہیں، ہر ایک مسلمان کے دل میں حرمین شریفین کی زیارت کا شوق موجزن ہوتا ہے، اور جس کو باری تعالی کی طرف سے توفیق نصیب ہوتی ہے وہ بلا تاخیر فریضہ حج ومناسک عمرہ کی ادائیگی کے لئے آماد? سفر ہوجاتا ہے۔
ماضی میں سفر حج نہایت دشوار و پرخطر ہوا کرتا تھا، قاصدین بیت اللہ کو مناسک حج وعمرہ کی ادائیگی کے بعد بسلامت گھر واپسی کا بالکل ہی یقین نہیں ہوتا تھا، لوگ سر پر کفن باندھ کر اورکفن ودفن کے انتظامات کے ساتھ بیت اللہ کا قصد کیا کرتے تھے، سفر حج کو زندگی کا آخری سفر تصور کرتے ہوئے تمام متعلقین ورشتہ داروں سے اپنی غلطیوں کی معافی تلافی کے بعد محو سفر ہوا کرتے تھے، شاہ عبد العزیز آل سعود رحمہ اللہ کے ذریعہ مملکت سعودی عرب کے باضابطہ قیام اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ پر ان کی عملداری سے پہلے قوافل حج کو راستوں میں طرح طرح کے خطرات و مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا تھا، مکہ مکرمہ اور حدود حرم میں بھی انہیں کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا، وہ مختلف جتھوں، ڈاکؤوں اور رہزنوں کے ذریعہ لوٹے، مارے اور ستائے جاتے تھے، بہت سے زائرین و حجاج کرام اپنی جانیں گنوا بیٹھتے تھے، حتی کہ اس زمانے میں یہ تصور عام ہوگیا تھا کہ حج وعمرہ پر جانے والے واپس نہیں آتے ہیں اور کسی کو ان کی واپسی کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔بالآخر اللہ تبارک وتعالی کو اپنے بندوں پر رحم آیا اور اس نے اپنے مہمانوں اور اطراف عالم سے اس کے گھر کی زیارت کے لئے آنے والوں کی حفاظت کا بندوبست فرمایا، اور اس وقت کی ناکارہ ونہایت غیر ذمہ دار حکومت کا خاتمہ کرکے توحید پر قائم اور کتاب وسنت کی علم بردار حکومت کے قیام کے لئے راستہ ہموار فرمایا، اور شاہ معظم عبد العزیز آل سعود رحمہ اللہ کو حرمین شریفین کی خدمت اور حجاج ومعتمرین کی حفاظت وصیانت کے لئے منتخب فرما یا، شاہ مکرم نے مکہ مکرمہ ومدینہ طیبہ پر عملداری قائم ہوتے ہی یہ اعلان فرمادیا کہ اب کتاب وسنت کے مطابق سارے فیصلے لیے جائیں گے، حدود وقصاص کا اجرا ہوگا اور مجرمین کو وہی سزا دی جائے گی جو کتاب وسنت میں ان کے لئے مقرر ہیں، اس اعلان کے آتے ہی مجرمین کے حوصلے پست ہونے لگے، جرم کا خاتمہ ہونے لگا، اور حدود و قصاص کے نفاذ کی بنا پر مملکت کے دوسرے شہروں کی طرح مکہ ومدینہ بھی گہوارہ امن واماں ہوگئے، سفر حج مامون و محفوظ ہوگیا، حجاج ومعتمرین کی کثرت ہوگئی، لوگ بڑی تعداد میں حج وعمرہ کی ادائیگی کے لئے آنے لگے، شاہ مکرم نے اپنے وسائل کا معتد بہ حصہ حرمین شریفین کی توسیع اور حجاج وزائرین کے لئے سہولتوں کی فراہمی کی خاطر مخصوص کردیا۔ وزارت الحج والعمرۃ کی پوری مشینری دن رات خوب سے خوب تر کرنے اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے ہر ممکن سہولت دستیاب کرانے کے لئے ہر دم کوشاں رہتی ہے۔جاج ومعتمرین کی راحت وآرام کے لیے جو خدمات پیش کی گئیں، اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے ضیوف الرحمن کی ضیافت ومہمان نوازی کے جو وسیع انتظامات کئے گئے ہیں وہ حیرت انگیز اور ہوش ربا ہیں، اور میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ حرمین شریفین اور مکہ ومدینہ کی زیارت سے مشرف کوئی بھی انصاف پسند شخص جو فکری کجی۔ منہجی انحراف اور بد خواہی وبدگمانی کے امراض ملعونہ سے مبراہو وہ حرمین شریفین کی تعمیری، توسیعی، استیعابی اور انتظامی خصائص وامتیازات میں سے کسی ایک شئی میں بھی نقص و خلل ثابت نہیں کرسکتا، اور الحمد للہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف کسی شخص کی زبان کو اب تک مملکت کے حسن انتظام اور اس کی طرف سے ضیوف الرحمن کی قدر افزائی میں کسی طرح کی کوتاہی سرزد ہونے کا شکوہ کرتے ہوئے نہیں سناگیا۔rlq
حج بیت اللہ کی تیاریاں اور انتظامات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS