اسلام میں مسجد کی اہمیت اور عظمت و مسلمانوں کی ذمہ داریاں

0

اسلام میں مسجد کی بڑی اہمیت اور عظمت ہے، اس لئے کہ یہ اللہ پاک کی بندگی، اس کے ذکر اور قرآن پاک کی تلاوت کا مقام ہے، جس جگہ اللہ تعالی کو یاد کیا جائے، بندگی کے سجدے ادا کئے جائیں اور اللہ تعالی کو پکارا جائے، اس جگہ سے بڑھ کر اور کون سی جگہ ہوسکتی ہے! جس طرح انسانوں کا نصیب ہوتا ہے اسی طرح زمین کے ٹکڑوں کا بھی نصیب ہوتا ہے، ہر زمین کے ٹکڑے کا مقدر اللہ کا گھر بننا نہیں ہے، اللہ پاک زمین کے جس حصے کو چاہتا ہے اپنا گھر بنانے کیلئے چن لیتا ہے اور وہ زمین کا ٹکڑا عزت، شرف اور عظمت حاصل کرلیتاہے، حدیث شریف میں ہے کہ جس طرح تم آسمان کے ستاروں کو چمکتا ودمکتا دیکھتے ہو، آسمان والے زمین پر قائم مسجدوں کو اسی طرح روشن اور منور دیکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسجدو ں کی تعمیر کا کام انبیا علیہم السلام سے لیا، قرآن پاک میں خانہ کعبہ کے بارے میں یہ بات ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اس کی تعمیر فرمائی، ارشاد ربانی ہے:وہ بھی کیا وقت تھاجب ابراہیم خانہ کعبہ کی بنیادیں اونچی کررہے تھے اور(ان کے ساتھ ان کے بیٹے)اسماعیل بھی اور وہ دونوں ان الفاظ میں اللہ سے دعا کررہے تھے:) اے ہمارے پالنے والے! ہم سے (اس خدمت کوقبول فرمالے، بے شک تو ساری فریادیں)سننے والا (اور فریاد کرنے والوں انسانوں کے حالات جاننے والا ہے۔اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعے مسجد اقصی کی تعمیر ہوئی، اور کائنات کے سب سے عظیم پیغمبر حضرت محمد مصطفی ؐ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی اور اس مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام کے ساتھ خود حضور اکرمؐ بھی شریک ہوئے، تعمیر کے وقت خود آپ بھی پتھر اٹھا کر لاتے تھے، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ آپ زحمت نہ فرمائیں، مسجد کی تعمیر کیلئے ہم کافی ہیں، اس پر حضور اکرم ؐنے یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ جس طرح تم اجر کے محتاج ہو، میں بھی اللہ کے اجر کا محتاج ہوں۔

مسجدوں کی تاریخ بہت پرانی ہے:
کائنات میں سب سے پہلی مسجد خانہ کعبہ ہے، دنیا کی آبادی اس مسجد کے بعد شروع ہوئی، روئے زمین پر سب سے پہلا گھر یہی تعمیر ہوا ، جس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہے اور اس مبارک مقام کو برکت اور ہدایت کا مرکز بنادیا گیا ہے، ارشاد ربانی ہے: بے شک، وہ پہلا گھر جسے لوگوں کی عبادت کرنے کے لیے بنایا گیا ،وہ بکہ (مکہ مکرمہ)میں ہے، مبارک ہے اور دونوں جہانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔
حضرت ابوذر غفاری سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی ؟ آپؐ نے فرمایا : مسجد حرام ، میں نے عرض کیا پھر ؟ تو فرمایا : مسجد اقصی ۔یہ حقیقت بھی سمجھنے کی ہے کہ مسجد صرف عبادت اور بندگی کیلئے نہیں ہے، یہاں سے انسانیت کو اور مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے سلسلے میں رہنما ہدایات حاصل ہوتی ہیں، مسجد اللہ تعالی کی توحید کے اعلان اور بیان کا مرکز ہے، یہاں سے پکار پکار کر یہ صدا لگائی جاتی ہے کہ اللہ سے بڑا کوئی نہیں ہے اور عبادت کے لائق بس اسی کی ذات ہے، مسجد میں نہ تو کوئی تصویر ہوتی ہے اور نہ نمازیوں کے آگے کوئی مجسمہ، وہ صرف ایک اللہ کے آگے جھکتے ہیں، اور اسی کے آگے جھکنے کو اپنی عزت تصور کرتے ہیں، مسجد سے مساوات کا بھی درس ملتا ہے کہ دنیا کے سب انسان برابر ہیں، کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے ،مسجد کی صفوں میں امیر ترین انسان کے بازو میں غریب اور فقیر کھڑا ہوجاتا ہے، بڑے سے بڑا عالم نماز پڑھ رہا ہو ، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے دائیں بائیں کوئی جاہل نہ کھڑا ہو، مسجد میں آنے کے بعد سارے فرق مٹ جاتے ہیں اور دنیا کو یہ درس ملتا ہے کہ مسجد اسلام کی اس تعلیم کا عملی نمونہ ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کالے کو گورے پر، گور ے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے، اسی طرح مسجد سے طہارت ونظافت، صفائی اور پاکیزگی، انضباط وقت اور مرتب زندگی کا بھی درس ملتا ہے۔

مسجد کو اسلامی مرکز کی حیثیت حاصل ہے:
مسجد کو مسلمانوں کے مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے ، اس کی مرکزیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، نہ اس کی مرکزیت کو ختم کیا جاسکتا ہے،اس مرکزیت کو اگر کوئی ختم کرنا بھی چاہے تو وہ ناکام ونامراد ہی ہوگا اور اس کی مرکزیت کو ختم نہیں کرسکے گا۔ اس کی مرکزیت کی بنیاد پر مساجد کے بنانے کی ترغیب دی گئی، اس کی طرف جانے کی، اس میں بیٹھے رہنے کی ، اس کے ساتھ دلی تعلق کے قائم کرنے کی ، اس کی خدمت وصفائی کی ، اس میں اذان دینے،نماز پڑھنے پڑھانے کی ، اس کے ساتھ دل معلق رہنے کی، اس کی طرف چل کر جانے کی اور اسے آباد رکھنے کی اس قدر روایات ہیں جو دینی شغف رکھنے والے مسلمانوں کے لئے محتاج بیان نہیں ہیں اور انہیں اگر جمع کیا جائے تو مستقل کتاب کی شکل اختیار کرجائے، مثلا : مسجد کی تعمیر کو جنت میں گھر کی تعمیر سے تعبیر کیا گیا۔مالی پریشانیوں کی وجہ سے اس کی تعمیر سے کترانے کا سد باب کیا اور فرمایا کہ اگر چہ ایک پرندے کے گھونسلے کے برابر بھی اس کی تعمیر میں حصہ لے سکو تو لے لو، اسی پر صرف اکتفا نہیں کیاگیا ،بلکہ یہ بھی ذکر کیا کہ یہ صرف ترغیب نہیں، بلکہ رسول اللہ ؐنے مساجد کی تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے، نہ صرف حکم دیا ،بلکہ تعمیر مسجد میں خود شریک ہوکر اس کی فضیلت کو عملی طور پر بھی بیان کیا اور اس میں کام کرنے والے صحابہ کرام کے کپڑوں سے خود دھول جھاڑتے رہے ، آپ ؐ کا یہ عمل مسجد کی خدمت کرنے والوں کا اعزاز تھا۔اور یہ سب کچھ کیوں نہ ہوتا، جب کہ خود ارشاد فرمایا : زمین کے حصوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں اللہ تعالی کے ہاں مساجد ہیں اور بدترین جگہیں بازار ہیں؛ بلکہ اگر کوئی بازار چلا بھی جائے تو اس کے بارے میں بھی بتادیا کہ قیامت کے دن سات لوگوں کو اللہ تعالی اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک وہ ہے جس کا دل مسجدوں کے ساتھ معلق رہے اور امام بزار کی نقل کردہ روایت کے مطابق تو مسلمان کی بیٹھک مسجد میں ہی ہونی چاہیے ، کیونکہ جو لوگ مساجد میں رہتے ہیں ،اللہ تعالی قیامت کے دن ان کو پل صراط پار کرانے کی ضمانت دیتے ہیں ۔

مساجد کی شرعی حیثیت:
اسلام میں مساجد کو خصوصی حیثیت حاصل ہے ؛ کیوںکہ کسی زمین کو مسجد کیلئے وقف کرنا ، اس حصہ زمین کو براہ راست اللہ کے حوالہ کردینا ہے ، اب گویا وہ براہ راست اللہ تعالی کی ملکیت میں ہے ؛ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :بے شک مسجدیں اللہ کیلئے ہیں ؛ اس لئے(مسجدوں میں ) اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ۔اس آیت میں مسجد کے بجائے مساجد یعنی واحد کے بجائے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، اس طرح اب اس کے معنی تمام مسجدوں کے ہوگئے، یعنی جو حکم بیان کیا جارہا ہے وہ کسی ایک مسجد کا نہیں ہے ؛ بلکہ تمام ہی مسجدوں کا ہے ؛ اسی لئے مشہور مفسر عکرمہ نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت تمام ہی مسجدوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ فرمایا: مسجدیں اللہ ہی کی ملکیت ہیں اور اللہ تعالی کیلئے مخصوص ہیں ، آگے اللہ تعالی نے یہ بات بھی واضح فرمادی کہ مسجد کے اللہ کی ملکیت ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اور وہ یہ کہ یہ جگہ ہمیشہ اللہ کی عبادت کیلئے مخصوص ہے۔اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے :اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا نام لینے سے

روک دے اور اس کو ویران کرنے کے درپے ہو ؟
اس آیت میں بھی مساجد کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی گئی ہے اور جو جگہ اللہ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہو، اس میں اللہ کی عبادت کو روک دینے کو بہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے، یہ آیت اگرچہ کہ مسجد حرام سے متعلق نازل ہوئی ہے ؛ لیکن جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام مسجدوں کا یہی حکم ہے۔ اسی لئے قاضی ثنا اللہ پانی پتی نے فرمایا کہ اگرچہ یہ آیت ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے ؛ لیکن یہ حکم عام ہے۔ اور مسجد کو ویران کرنے سے مراد اس کو منہدم کرنا اور اس میں عبادت کو روک دینا ہے۔
مسجد کی شرعی حیثیت کے سلسلہ میں رسول اللہ ؐ کے ارشادات سے بھی روشنی ملتی ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا : زمین میں مساجد اللہ کے گھر ہیں اور یہ بات اللہ تعالی کے ذمہ ہے کہ جو اللہ کے گھر کی زیارت کرے ، اللہ تعالی اس کا اکرام فرمائے۔ اس حدیث میں مسجدوں کو اللہ تعالی کا گھر قرار دیا گیا ہے ، گھر قرار دینے کا مطلب ظاہر ہے کہ مساجد اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ظاہر ہے کہ جب انسان اس کا مالک باقی نہیں رہا ، تو اس کو اس میں کسی تصرف اور اس کی حیثیت اور کیفیت کو بدلنے کا حق کس طرح ہوسکتا ہے ؟

حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
زمین میں سب سے بہتر حصہ اللہ کے گھر ( مساجد )ہیں ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ جس جگہ ایک دفعہ مسجد تعمیر کردی جاتی ہے، یا جو حصہ زمین مسجد کے لئے وقف کردیا جاتا ہے ، اس کی اللہ تعالی سے نسبت قائم ہوجاتی ہے اور اس کی ایک خاص حیثیت بن جاتی ہے ، نیز مسجدہونا در و دیوار سے متعلق نہیںہے ؛ بلکہ اس زمین سے متعلق ہے، جس کو مسجد کی حیثیت سے وقف کیا گیا ہو؛ اسی لئے فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ مسجدوں کی زمین کو فروخت کرناجائز نہیںہے،نہ روپیہ کے بدلہ، نہ دوسری زمین کے بدلہ،مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن نجیم مصری فرماتے ہیں:
مصلحت ِمسجد کے لئے بھی خاص مسجد کی زمین کو فروخت کرنا جائز نہیں ؛ اگرچہ قاضی کے حکم سے ہو اور چاہے مسجدویران ہوگئی ہو۔غرض کہ قرآن و حدیث میں واضح طور پر یہ بات ہے کہ مساجد براہ راست اللہ کی ملکیت میں ہیں، نہ عام مسلمانوں ک لئے اس کی گنجائش ہے کہ وہ اس کی حیثیت تبدیل کردیں، نہ کسی سرکار یا دربار کو اس کا حق ہے، نہ مسجد کی کمیٹی کو اور نہ اس شخص کو جس نے مسجد کے لئے اس جگہ کو وقف کیا تھا۔

مساجد سے محبت رکھنا ، ان کو آباد رکھنے کی فکر کرنا اور ان میں اعمال خیر انجام دینا مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، مسجدوں سے محبت ایمان کی نشانی ہے، حدیث شریف میں ہے کہ جب تم کسی کو مسجد میں آتا جاتا دیکھو تو اس کے صاحب ایمان ہونے کی گواہی دو، مسجد سے جڑے ہوئے چھوٹے سے چھوٹا عمل پر بھی اجر وثواب رکھا گیا ہے، فرمان نبوی ہے: میری امت کے اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے تو میں نے یہ دیکھا کہ میری امت کے کسی فرد نے مسجد سے تنکا اٹھا کر باہر ڈال دیا، اس کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا گیا، مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے پر بھی بڑا اجر وثواب رکھا گیا ہے، موجودہ دور میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ مسجدوں سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں، ان کو زیادہ سے زیادہ آباد کرنے کی فکر کریں اور اس وقت مسجدوں کے سلسلے میں جو نفرت پھیلائی جارہی ہے اور جس طرح بعض مساجد پر قبضے کی کوششیں ہورہی ہیں، ایسی نازک صورت حال میں مساجد کی حفاظت اور ہر قسم کی شر انگیزی سے ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش لازمی اور ضروری ہے، ایک منصوبے کے تحت فرقہ پرست طاقتیں گیان واپی مسجد، متھرا کی عید گاہ اور شاہجہاں کی بنائی ہوئی تاریخی جامع مسجد اور ان کے علاوہ بھی کئی مساجد کے سلسلے میں سازشیں رچ رہے ہیں، افسوس یہ ہے کہ حکومت بھی اس فرقہ پرستی اور ملک میں نفرت پھیلانے کی کوششوں پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے! اور عدالتوں کا رویہ بھی مسلمانوں کی تشویش میں اضافے کا سبب بن رہا ہے، یہ بھی بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، اور حق کو حق کہنے کی جرات نہیں کر پارہی ہیں، ملک کے ایسے نازک حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے قائدین اور علمائے کرام کی رہنمائی میں مساجد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے گیان واپی مسجد اور ان تمام مساجد کے سلسلے میں جن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے بڑی فکر مندی اور حکمت عملی کے ساتھ جد وجہد جاری کر رکھی ہے، گیان واپی مسجد کے سلسلے میں جو قانونی کار روائی ہورہی ہے اس پر بھی بورڈ کی پوری نگاہ ہے، دو دن پہلے گیان واپی مسجد کے سلسلے میں جو عدالتی کارروائی ہوئی اور جس سے پورے ملک کے مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی، اس پر بھی مسلم پرسنل لا بورڈ نے فورا ہنگامی میٹنگ طلب کی، جس میں پوری صورت حال پر غور وفکر کرکے منظم قانونی کار روائی کا فیصلہ کیا گیا، اسی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر کسی عوامی مہم پر بھی غور وخوض جاری ہے، مسلمانان ہند سے درخواست کی جاتی ہے کہ بورڈ کی جانب سے جیسے ہی عوامی مہم کا اعلان ہو، وہ اس میں بھر پور حصہ لیں، اور اس حقیقت کو یاد رکھیں کہ زندہ قومیں اور ملتیں مضبوطی کے ساتھ حالات سے پنجہ آزمائی کیا کرتی ہیں، ایما ن ہمیں مشکل حالات میں بھی جمے رہنے اور بہادری کے ساتھ آگے بڑھنے کی تعلیم دیتا ہے، حالات چاہے جیسے بھی ہوں ہم اللہ تعالی پر بھروسہ رکھتے ہوئے حکمت وتدبیر کو اپنائیں، اور اپنے دل میں اس یقین کو تازہ کریں کہ ہر اندھیری رات کے بعد صبح روشن طلوع ہوتی ہے اور ہر مشکل کے بعد آسانی کا دور آتا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دوسری ملی تنظیمیں بھی مساجد کے تحفظ کے سلسلے میں فکر مند ہیں، البتہ ہر علاقے کے مسلمانوں کو فکر مند ہونے اورمساجد کے اپنے رشتے کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اس مشکل وقت میں اہل ایمان کی مدد فرمائے، مساجد، مدارس اور دینی وملی تنظیموں کی مدد فرمائے اور ہر قسم کے شرور اور فتنوں سے پوری امت کو محفوظ فرمائے۔
(جاری کردہ: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click: https://bit.ly/37tSUNC

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS