انوار الحق قاسمی
ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم (جمعیت علماء ہند )کے سب سے بڑے ذمہ دار(صدر جمعیت)مولانا محمود مدنی کے سامنے جب میڈیا کی طرف سے یہ بات آئی کہ “سرکار نے جدید مدارس کا تعاون بند کردیا ہے”تو مولانا محمود مدنی فورا یہ بول پڑے کہ “سرکار نے اپنا تعاون بند کرکے بہت اچھا کیاہے”۔مدنی صاحب اسی پر رکے نہیں؛ بل کہ انہوں نے مزید یہ بات بھی کہہ ڈالی کہ حکومت جدید مدارس کی امداد بند کرنے کے ساتھ ساتھ قدیم مدارس کی بھی امداد بند کردیں۔مدنی نے یہ بھی کہا:کہ ہمیں سرکاری امداد(انودان)کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔مدنی نے کہا:کہ جن علاقوں میں مدارس کی ضرورت ہوں گی وہاں کے مسلمان خود اپنے پیسوں سے مدارس قائم کرکے انہیں بحسن و خوبی چلائیں گے۔
مدنی صاحب کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر ایک بڑا ہنگامہ ہے۔بعض حضرات مدنی صاحب کے اقوال کو یہ کہہ کر(کہ بورڈ مدارس میں بالکل تعلیم نہیں ہوتی ہے،جس کی بنا بچوں کے مستقبل کی زندگی بالکل ہی تاریک نظر آرہی ہے اور اساتذہ کو اپنے بچوں کی کوئی فکر نہیں ہے، انہیں صرف وقت پر اپنی تنخواہیں وصول کرنا آتاہے،الغرص تعلیم سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے۔جب معاملہ یہ ہے تو پھر بورڈ مدارس کا بند ہونا ہی بہتر ہے)صحیح سمت دے رہے ہیں،تو وہیں بعض لوگ ان کے اقوال کی جم کر مخالفت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں:کہ مدنی صاحب کو کیا حق ہوتا ہے مسلمانوں کی طرف سے اتنا بڑا بیان دینے کی ،جس سے لاکھوں علماء کی روزی خطرے میں ہے۔مدنی صاحب اپنے بیان سے فی الفور رجوع کریں۔
اب قارئین ہی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آخر زیادہ اہمیت بچوں کے مستقبل کو حاصل ہے یا پھر علماء کی معاش کو؟