فلسطینی پرچم برداروں کو سزا دینے کیلئے اسرائیل میں قانون سازی

0

دبئی(ایجنسیاں) : اسرائیلی کابینہ میں گزشتہ روز قانون سازی کے امور کی ذمہ دار کمیٹی نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس میں اسرائیلی حکومت کے فنڈز سے چلنے والے اداروں یا یونیورسٹیوں میں فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی عائد کی جائے گی۔دوسری طرف فلسطینی قیادت نے گذشتہ شام ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں یروشلم میں اسرائیلی اقدامات کا جواب دینے کے لیے جوابی آپشنز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
قانون ساز کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ دائیں بازو کی “لیکوڈ” پارٹی کیمجوزہ بل کو اگلے بدھ کو ابتدائی بحث اور اس کے بعد کنیسٹ (پارلیمنٹ) میں اس پر رائے شماری کے لیے پیش کیا جائے گا۔اس منصوبے کا آغازیروشلم میں اسرائیلی پرچمی مارچ کے ساتھ ہوا، جس میں مسجد اقصیٰ میں دراندازی اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی افواج اور آبادکاروں کے حملوں کے غیر معمولی واقعات دیکھے گئے۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس بل میں تجویز دی گئی ہے کہ اسرائیلی فنڈز سے چلنے والے ادارے میں دشمن ریاست یا فلسطینی اتھارٹی کی نمائندگی کرنے والے پرچم لہرانے پر اس کے مرتکب کو آئین کے آرٹیکل 21 اور 322 مجریہ 1985 کے تحت ایک سال قید اور 300 ڈالر جرمانہ یا ایک ساتھ دونوں سزائیں دی جائیں گی۔تجویزپیش کرنے والے رْکن کنیسٹ ایلی کوہن نے کہا کہ جو شخص خود کو فلسطینی کہتا ہے وہ غزہ چلائے۔ ہم اسے یک طرفہ سفر میں مدد بھی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز اس لیے دی گئی ہے کہ تاکہ آئینی اور غیر آئینی احتجاج میں فرق کیا جاسکے۔ جو لوگ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے اور مخالف گروپ کے جھنڈے لہراتے ہیں وہ اسرائیل کے لیے خطرہ ہیں۔کوہن نے مزید کہا کہ عرب شہریوں کو بھڑکانا بند ہونا چاہیے۔ وہ بجٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اسرائیل کے خلاف سرگرمیاں منظم کرنا اور اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنا چاہتے ہیں۔اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی “مذہبی صیہونیت” پارٹی سے تعلق رکھنے والے کنیسٹ کے رکن سمچا روٹمین نے کہا کہ یہ فلسطین کا جھنڈا نہیں ہے، بلکہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کا جھنڈا ہے۔دوسری جانب اسرائیل کی میرٹز پارٹی کے رکن پارلیمنٹ موسی راز نے بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون اس لیے لایا جا رہا ہے کیونکہ اب تک جو کچھ بھی سنا گیا وہ جھوٹ تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کا جھنڈا کیا ہے۔ اسرائیل کی ریاست میں فلسطینی پرچم بلند کرنا جائز ہے۔”پیر کی شام فلسطینی قیادت نے بیت المقدس میں اسرائیلی خلاف ورزیوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے صدر محمود عباس کی سربراہی میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف بڑھتی جارحیت کے جواب میں بڑے اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے۔
باخبر ذرائع نے الشرق کو بتایا کہ یہ اجلاس بیت المقدس میں ہونے والی سنگین خلاف ورزیوں پر بات کرے گا۔ فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے دسیوں ہزار آباد کاروں اور یہودی انتہا پسندوں کو مقبوضہ مشرقی یروشلم پر حملہ کرنے اور فلسطینی شہریوں کو ہراساں کرنے کی اجازت دی۔ مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولنے میں مدد کی اور مسجد اقصیٰ اور مشرقی بیت المقدس میں انتہا پسند یہودیوں کے نام نہاد فلیگ مارچ کی اجازت دی گئی۔ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ فلسطینی قیادت نے اس اجلاس میں ان خلاف ورزیوں کا جواب دینے کے لیے بھرپور اقدامات پرغور کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے پیر کے روز فلسطینی ایوان صدر کے ساتھ رابطے کیے ہیں اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات نہ اٹھائے جس سے اسرائیلی فریق کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو۔ امریکی انتظامیہ نے حالات کو پرامن رکھنے کے لیے ہرممکن کوششیں کرنے اور تعاون کا یقین دلایا۔ذرائع نے بتایا کہ امریکی حکام نے صدر عباس کو بتایا کہ وزیر خارجہ بلنکن اسرائیلی فریق سے رابطہ کریں گے تاکہ بیت المقدس میں ہونے والے واقعات کا اعادہ روکا جا سکے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS