محمد فاروق اعظمی
وزیراعظم نریندر مودی کی حکو مت کے 8 سال پورے ہونے کے موقع پر ملک میںپہلی بار خواتین قانون سازوں کی قومی کانفرنس کیرالہ میں 26مئی کو منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں خواتین کو بااختیار بنانے، انہیں قومی دھارے سے جوڑنے اور آئینی حقوق فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوے کیے گئے۔ ملک میں خواتین کے آئینی حقوق کی حفاظت میں ملک کی مودی حکومت کے کاموں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے بتایاگیا کہ مودی حکومت گزشتہ 8 برسوں سے خواتین کی بحالی، ان کے حقوق کے تحفظ اور ملک میں صنفی امتیازختم کرنے کیلئے نمایاں کام کررہی ہے۔ ہندوستانی آئین میں خواتین کی حیثیت کو مستحکم کرنے کیلئے وقتاً فوقتاً ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔طلاق ثلاثہ پر پابندی کو خواتین کیلئے ترقی کا زینہ قرار دیتے ہوئے اسے خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت مودی حکومت کا کارنامہ بناکر پیش کیاگیا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ مردانہ تسلط والے معاشرے میں خواتین کے خلاف صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے ان8برسوں میں بھی کوئی کارگر قدم نہیں اٹھایاگیا ہے۔ملک میں خواتین کی صورتحال کتنی افسوس ناک ہے، اس کا ذکر اسی کانفرنس میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووندنے کیا اور کہا کہ سماجی اور معاشرتی تعصبات کی وجہ سے افرادی قوت میں خواتین کا تناسب ان کی صلاحیت و لیاقت سے بہت کم ہے۔رانی لکشمی بائی سے کستوربا گاندھی تک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی خواتین کو اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے جدوجہد سے گزرنا پڑرہاہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں خواتین کی صورتحال کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے انتہائی سنگین ہے۔ آئینی حقوق فراہم کرنے کے دعویداروں نے گزشتہ ربع صدی سے خواتین ریزرویشن بل کو قانون بننے کی ہرکوشش کو ناکام بنایا ہے۔ جدوجہد آزادی میں خواتین کے کردار کا جائزہ لینے والے آج کے معاشرہ میں خواتین کے ساتھ ہورہی ناانصافی اور مظالم کی طرف سے آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔ روایتی طور پر مردوں کے گڑھ سمجھے جانے والے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی اور انتظامیہ میں خواتین کاتناسب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے حالانکہ 75برسوں میں ملک کی نصف آبادی کیلئے ان شعبہ جات میں سرگرم حصہ داری ہونی چاہیے تھی۔ پنچایتوں میں خواتین کو ریزرویشن دے کر اپنی پیٹھ تھپتھپانے والوں کوباقاعد ہ سیاسی عمل میں خواتین کی شرکت گوارا نہیں ہے۔ آئین میں دیے گئے صنفی مساوات کے حق کے باوجود بڑے انتظامی اور دفاعی عہدوں پر خواتین کی تقرری میں آج بھی کئی تحفظات ہیں۔خواتین کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔عصمت دری اور چھیڑ چھاڑ جیسے جرائم عام ہوگئے ہیں۔کٹھوعہ، ہاتھرس، اناؤ، ندیا اور حیدرآباد جیسے واقعات کے بعد بھی خواتین اور لڑکیوں کی حفاظت کیلئے معاشرے میں کوئی تشویش نہیں پائی جارہی ہے۔خواتین کو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔ کورونا میں نافذ لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو اور ملازمت پیشہ خواتین دونوں ہی گھر اور دفتر کے دباؤ کا شکار ہیں۔ موجودہ مودی حکومت کے 8برسوں میں 1.25 کروڑ خواتین اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ اس عرصے کے دوران مہنگائی میں بھی تقریباً 15 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ خواتین کے قومی کمیشن کو سال 2021 میں خواتین کے خلاف جرائم کی تقریباً 31,000 شکایات موصول ہوئی تھیں، جو 2014 کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے آدھے سے زیادہ کیس اتر پردیش سے تھے۔ 2020 کے مقابلے 2021 میں خواتین کے خلاف جرائم کی شکایات میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ سال 2020 میں خواتین کمیشن کو کل 23,722 شکایات موصول ہوئیں۔ جولائی سے ستمبر 2021 تک، ہر ماہ 3,100 سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں، آخری 3,000 سے زیادہ شکایات نومبر 2018 میں موصول ہوئیں۔کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 1,819 شکایات خواتین کی توہین یا چھیڑ چھاڑ سے متعلق، 1,675 ریپ اور ریپ کی کوشش کی، 1,537 پولیس کی خواتین کے تئیں بے حسی کی اور 858 سائبر کرائمز کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔
عرف عام میں صنف نازک کہی جانے والی دنیا کی نصف آبادی خواتین اپنی محنت، عزم اور حوصلہ سے دنیا کے منظر عامہ پراپنی منفرد شناخت قائم کرنے میںکامیاب رہی ہیں۔ لیکن ہندوستان جنت نشان میں اپنی تمام تر جدوجہد کے باوجود انہیں آج تک وہ مقام حاصل نہیں ہوپایا ہے جس کی وہ مستحق ہیں۔ خواتین اپنی قابلیت، استعداد، لیاقت و صلاحیت کے باوجود ہندوستان میں امتیازکی شکار ہیں۔ہندوستان کا آئین تمام ہندوستانی شہریوں کو یکساں حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین کی دفعہ14میں باقاعدہ اس کی صراحت کی گئی ہے۔ آئین کی دفعہ 15میں ریاست کی جانب سے کوئی امتیاز نہ برتے جانے کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ آئین کی دفعہ19 ہندوستان کی خواتین کو آزادی کا حق ادا کرتا ہے کسی بھی کام سے محروم کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ماناگیا ہے۔آئین میں دیے گئے تمام تر تحفظات کے باوجود ہندوستان میں خواتین کی صورتحال کو بہتر بنانے کی سمت میں کوئی خاص سرگرمی نظرنہیں آتی ہے۔2014میں شروع کیاجانے والا’بیٹی پڑھاؤ- بیٹی بچاؤ‘ منصوبہ بھی ایک ڈھونگ ہی ثابت ہوا ہے۔ بچیوں کو تعلیم یافتہ تو دور کی بات ہے،بنیادی خواندگی کے معاملے میں اب تک ان کی کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اور نہ ان مسائل سے نمٹنے کے وعدوں پر کوئی عمل درآمد کیا گیاہے۔’ بیٹی پڑھائو-بیٹی بچائو‘ مہم کیلئے مختص کیے جانے والے فنڈ کا غالب حصہ تشہیری مہموں میں خرچ کیاگیا۔2018میں خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزارت کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہواتھا کہ ’ بیٹی -پڑھائو-بیٹی بچائو‘ مہم کا 56 فیصد فنڈ تشہیر پر خرچ کیا گیا اور آگاہی کے پمفلٹ پر مختلف علاقوں اور ریاستوں میں محض 26 فیصد ہی لگائے گئے۔اور اب تو اس مہم کا نام بھی سننے میں نہیں آرہاہے۔ خواتین کیلئے حقیقی آزاد مساوی حیثیت آج بھی ایک خواب ہے جس کی تکمیل کیلئے پتہ نہیں کتنے پہاڑ سر کرنے ہوں گے۔خواتین قانون سازوں کی کانفرنس بلانے کی بجائے بہتر یہ ہوتا کہ حکومت زمینی سطح پر خواتین کے تحفظ اورا ن کی بہبود کیلئے عملاً کوئی کام کرتی۔
[email protected]