سلمان عبدالصمد
بورڈ کے مدارس کے نصاب،امتحان، تقرری اور خودمختاری کے سلسلے میں مسلسل خبریں آرہی ہیں۔ ان بیش تر خبروںکو ملحقہ مدارس کے لیے خوش آئند کہنا مناسب ہے۔ البتہ چند ایسی باتیں ضرور ہیں جو اقلیتی اداروں میں حکومت کی مداخلتِ بے جا ہیں۔ مستقبل شناس علما نے اس مداخلت کو برسوں پہلے محسوس کرلیا تھا۔کم وبیش آج ایک درجن ریاستوں میں مدرسہ بورڈ قائم ہے لیکن یوپی،بہار اور آسام کے معاملات قابل توجہ ہیں۔
آسام میں مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ1995 اور آسام مدرسہ ایجوکیشن(ملازمین اور خدمات) ایکٹ2018 منسوخ کردیے گئے۔ اب اسکول میں تبدیل ہونے والے مدارس سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے تحت اپنا کام کریں گے۔ گویا یہاں کلی طور پر مدرسہ بورڈ کا وجود ختم ہوگیاہے۔ اس لیے اسلامی تعلیمات کا کوئی نظم نہیں ہوگااور سرکاری مدارس کے موجودہ عملے ملازمت سے برطرف نہیں کیے جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب اسکولوں میں مذہبی تعلیم کا انتظام نہیں ہوگا تو پہلے کے اساتذہ اور عملہ کیسے بحال رہ سکیں گے،یا پھر کتنے دنوں تک ان کی ملازمت کا سلسلہ جاری رہ پائے گا؟ کیا ایسے اساتذہ نئے اسکولی نظام کے لیے موزوں ہوںگے؟یا پھر ان اسکولوں میں نئے سرے سے اساتذہ کی تقرری ہوگی؟آسام میں ہونے والی اس مداخلت سے نہ صرف50ہزار طلبا اور تقریباً700 مدارس متاثر ہوئے،بلکہ مدارس کا نظام بھی بڑی حدتک مشکوک ہوا ہے۔ اس کے علاوہ نیااسکولی نظام مسلمانوںکے لیے کتنا سود مند ہوگا؟!ایک سوال یہ بھی ہے کہ آج بے شمار اسکول موجود ہیں تو مدارس کو فی الفور اسکول میں تبدیل کردینا کس حدتک مناسب ہے؟مدرسہ طرز کی موجودہ تعمیرات کیا اسکول کے لیے مناسب ہوں گی؟الغرض آسام میں مدرسہ بورڈ کو کالعدم قرار دیاجانا جہاں دوسری ریاستوں کے لیے ایک نظیر ہے،وہیں اقلیتی اداروں میں حکومت کی مداخلت بے جا بھی ہے۔
یوپی مدرسہ بورڈ کے متعلق آنے والی خبریں بھی اہم ہیں کیوں کہ یہاں ایک طرف اساتذہ کی تقرری میں شفافیت پر غور وخوض کیا جارہا ہے تو دوسری طرف کئی مدارس پر منسوخی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ 1914میں مدرسہ بورڈ کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔ابتداً اس کا نام عربی فارسی بورڈ الٰہ آباد تھا۔ 14دسمبر 2007کو ریاستی حکومت نے اس کا نام مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ (مدرسہ سکچھا پریشد)کردیا۔ یوپی میں5908مدرسے منظورشدہ ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 8لاکھ طلبا ان مدارس میں زیر تعلیم ہیں جب کہ459مدارس امداد یافتہ ہیں۔ ان459 مدارس میں تقریباً 6885اساتذہ و غیر تدریسی عملہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ میں بی ایس پی حکومت نے چھٹا پے کمیشن نافذ کیاتھا۔
یوگی حکومت نے اپنی پہلی مدت کار میں مدرسہ بورڈ کے متعلق بھی چنداحکامات جاری کیے تھے جس پر ملا جلا ردعمل تھا۔ دوسری مدت کار میں اس سرکار نے ایک اور اہم اشارہ دیا ہے۔ وہ یہ کہ اساتذہ کے لیے TETکی طرح MTETکا اہلیتی امتحان منعقد کیا جائے گا۔ اسی طرح اب ذمے دارانِ مدارس براہِ راست اساتذہ کا تقرر نہیں کرسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کا یہ قدم قابل تحسین ہے کیوںکہ اس سے مدارس کے نظام میں شفافیت آئے گی، بہترین اساتذہ کا تقرر ہوگااور تقرری میں ہونے والی مالی بدعنوانی رک جائے گی۔ جب کہ بہت سے لوگ اس قدم کو بیجا مداخلت تصور کررہے ہیں۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ ایم ٹی ای ٹی میںکن خطوط پر امتحانات ہوں گے؟ خدشات تو یہ بھی ہیں کہ اہلیتی امتحان میں عصری علوم پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔ اس صورت میں اسلامیات اور دینیات کا کیا ہوگا؟ مقاصدِ مدارس کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ اگر عصری علوم کے مدنظر ایم ٹی ای ٹی کے امتحانات ہوتے ہیں تو علما کی اکثریت ناکام رہے گی۔اس صورت میں رفتہ رفتہ مدارس اسی طرح اسکول بن جائیں گے جس طرح آسام میں بنا دیے گئے ہیں۔ گویا آج یا کل یہاںبھی مدرسہ بورڈ کا برا حشر ہوگا۔ آج کئی مدارس کی منسوخی کا حکم نامہ جاری ہورہا ہے، کل بورڈ کے مدارس ازخود مقفل ہوجائیں گے۔ کیوںکہ اہلیتی امتحانات اہل مدارس کے لیے ٹیڑھی کھیر ہوں گے۔ معاملہ جوبھی ہو،فی الحال یوگی حکومت کا فیصلہ مستحسن ہی قرار دیا جاسکتاہے کیوںکہ تقرری میں خاندانی سلسلہ حاوی ہے جس سے آج بھی تعلیم کا نقصان ہورہا ہے۔
آزادی سے قبل بھی کسی نہ کسی سطح پر بہار میں مدرسہ بورڈ موجود تھا۔ البتہ اس وقت ایگزامنیشن باڈی کے تحت اس کا کام ہوتا تھا۔ 1978میں ایک آرڈیننس کے ذریعہ مدرسہ ایگزامنیشن بورڈ کو تحلیل کرکے بہار اسٹیٹ ایجو کیشن بورڈ بنایاگیا۔ریاستی اسمبلی نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 1981 منظور کیا۔ فی الحال بہار میں کل 1945مدارس منظور ہیں۔ ان میں تقریباً 814 مدارس کو سرکاری مراعات حاصل ہیں۔ اس بورڈ سے متعلق آنے والی خبروں کے لحاظ سے یہاں بھی اربابِ مدارس خود مکتفی نہیں رہیں گے۔ یوپی کی طرح مدارس کے ذمے داران خود اساتذہ نہیں رکھ سکیں گے۔ اس میں ضلعی محکمہ تعلیمات کا اہم کردار ہوگا۔ پھر ٹی ای ٹی اور ایس ٹی ای ٹی کامیاب امیدواروں کو ترجیحی بنیاد پر ملازمت دی جائے گی۔ گویا یوپی کی طرح یہاںبھی تبدیلی کی آہٹیں ہیں۔ یوپی مدرسہ بورڈ کے تئیں اوپر جو معروضات پیش کیے گئے وہ بہار مدرسہ بورڈ کے متعلق بھی پیش کیے جاسکتے ہیں۔
تبدیلی کی ان آہٹوں کے تناظر میں چند باتیںکی جاسکتی ہیں۔ مدرسہ بورڈ کی مخالفت بجا سہی، تاہم یہ بورڈ ایسے ذرائع ضرور تھے جن کو کارآمد اورمفید بنایا جاسکتا تھا کیوں کہ ریاستی حکومتوں نے ہمیں اساتذہ کی تقرری میں جانب داری پر نہیں اُکسایا، بلکہ آج بھی وہ غیر جانب داری کے لیے کوشاں ہیں۔ خود ہمارا قصور تھا(اور آج بھی ہے) کہ ہم نے بورڈ سے فائدہ نہیں اٹھایا۔یہ خوش یقینی پال لینا کوئی غیر مناسب نہیں کہ اگر بورڈ کے مدارس کا نظام منظم ہوتاتو شاید آج حکومت غیرضروری مداخلت نہیں کرتی،مگرہم نے نہ کبھی تعلیم پر توجہ دی اور نہ ہی نصاب کا خیال رکھا۔ بلاشبہ مساوی ڈگریوںکی بنیاد پر ہم بہت سے فوائد حاصل کرسکتے تھے، مگر تعلیم ہی نہیںہوسکی تو ہم اہل ہی کہاں ہوپائے؟ ممتا بنرجی نے مدارس کی ڈگریوںکوریلوے کی ملازمت میں بڑی اہمیت دی تھی، لیکن اس سے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔
ہماری سستی اور کاہلی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہاںایک مثال کو سامنے رکھیں: 2010میں حکم نامے کے مطابق بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کے وسطانیہ کی ڈگری کو سی بی ایس ای 8ویں، فوقانیہ کو 10ویں اورمولوی کی سند کو12ویں کے مساوی تسلیم کیاگیا۔ چھتیس گڑھ مدرسہ بورڈ رائے پور اردو ادیب، اردو ماہر،اردو معلم، ہائی اسکول مراسلاتی و فاصلاتی کو رس کو 10ویں اورادیب ہائر سکنڈری کو 12ویں درجہ کے مساوی تسلیم کیا گیا۔ جہاںتک مدھیہ پردیش کے مدرسہ بورڈ کا تعلق ہے تو اردو ماہر اوراردو معلم کو 8ویں، مولوی اورمادھیمک امتحان کو 10ویں اورعالم کو 12ویں کے برابر مانا گیا۔اسی طرح اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ کے منشی ومولوی کو 10ویں اورعالم وکامل کو 12ویںکے مساوی تسلیم کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مختلف ریاستوں کے مدرسہ بورڈ کی مساوی ڈگریوں کو سمجھنا کوئی آسان نہیں کیوںکہ کسی مدرسہ بورڈ سے ملنے والی مولوی کی ڈگری دسویں کے برابر ہے تو کسی بورڈ کی مولوی کی ڈگری بارہویں کے مساوی۔ اسی طرح کسی مدرسہ بورڈ کے معلم کو دسویں تسلیم کیا جاتا ہے۔ گویا ایک ریاست کی ڈگری دوسری ریاستوں میں مسئلے کھڑے کرتی ہے۔ بہار کی مولوی کی ڈگری بارہویں کے مساوی ہے اور یوپی مدرسہ بورڈ کی مولوی کی ڈگری دسویں کے برابر! سوال یہ ہے کہ مختلف بورڈس نے مل کر کبھی ڈگریوں کے معمے اور تضاد کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ ان تضاد ات کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی تو شاید مساوی ڈگری والے اور زیادہ فائدہ اٹھا پاتے مگر ہم مدرسہ بورڈ کی مخالفت کرتے رہے یا پھر بورڈ کا متعینہ نصاب نہ پڑھا کر بھی تنخواہیں وصول کرنا ہمارا شیوہ رہا۔ اس سے بڑی بے شرمی ہمارے عملی وفکری تضاد میں نظر آتی ہے۔ کیوںکہ مخالفت کرنے والے جید اور صالح علماکے متعدد رشتے دار بورڈ کے مدارس میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
بیش تر ملحقہ مدارس میں آج عصری تعلیم تودور قرآن واحادیث کی تعلیم بھی منظم طریقے سے نہیںہوپارہی ہے۔ حالاںکہ اکثر بورڈ کا نصاب اسلامیات اور عصری مضامین کا سنگم ہوتا ہے: یعنی بورڈ کا نصاب بڑی حدتک بہتر، مگر تعلیمی نظام ابتر ہے۔جب کہ بیش تر غیر سرکاری مدارس کا درسی نظام مناسب ہے اور نصابِ تعلیم زمانے سے غیر آہنگ۔ سچی بات یہ ہے کہ جزوی ترمیم کے ساتھ مدارس بورڈ کا نصاب آج کے تمام مدارس کے لیے یکساں کارآمد ہوسکتا ہے۔
[email protected]