زین شمسی
تاج محل قطب مینار ،گیان واپی مسجد ، شاہی جامع مسجد، متھرا کی عیدگاہ اور کئی عبادت گاہوں کی باتیں بعد میں، کیونکہ یہ سب باتیں دلوں کو خیرہ کرتی ہیں ۔ اخبارات کی سرخیاں ڈپریشن میں ڈالتی ہیں ، حتیٰ کہ آج کل اے سی میں آرام طلب دولت مندو ں کے بھی پسینہ چھڑا رہی ہیں۔ بچوں کو تو خیر ان سب خبروں سے جتنی دور رکھا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔عبید اللہ علیم کا ایک بہت اچھا شعر ہے کہ
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح ایک عذاب ہے اخبار دیکھنا
لیکن ہم اخبار نہ دیکھیں تو کیا دیکھیں۔ کل اپنے گائوں جا رہا تھا تو راستہ میں ایک جگہ بڑے سے بورڈ پر ’مرغیاچک‘ لکھاہوا دیکھا۔معلوم ہوا کہ یہ ’میر غیاث چک‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔کچھ اور جگہ دیکھا ، جس میں درج تھا ’حاجی سجان ‘۔پتہ چلا کہ یہ حاجی سبحان ہے ۔فوراً یاد آیا ’مغل سرائے‘اور پھراس کا بدلاہوا نام ’دین دیال اپادھیائے‘۔ سوچانام بدلنا ہماری روایت میں ہی نہیں سرشت میں بھی شامل ہے، لیکن آگے سوچا تو پھر محسوس ہوا کہ مرغیا چک یا حاجی سجان لسانی مشکلات کی ماری ہوئی جگہ ہے ، لیکن مغل سرائے تاریخی وراثت اور ثقافت کا حصہ ہے اور سیاسی مار کی صورت ہے۔ آج کالج میں تاریخ کا امتحان تھا، امتحان گاہ میں نگراں کے طور پر ایک بچے کی کاپی پر نظر پڑی ۔سوال تھاکہ ’’پیغمبر حضرت محمدؐ کے جیون چرتر اور خلافت کے دو پرمکھ ادیشوں کی چرچا کریں۔‘‘ جواب لکھا گیا کہ ’’پیغمبر حضرت محمدؐ کے جیون کے بہت سارے باتیں ہیں،پیغمبر حضرت محمدؐ کی ساری باتیں ہم سبھی لوگوں کو یاد ہیں۔ ہم سبھی لوگ ان کے کیے کاموں، ان کی ساری باتوں کو، ان کئے کاموں کو سارے مسلم بھائیوں کو یاد ہیںیہی پیغمبر حضرت محمدؐ کا جیون چرتر ہے۔‘‘ جواب ختم۔ ایک سوال یہ تھا کہ دروپدی کے کتنے پتی تھے، سب کا نام لکھیں، ایک سوال یہ بھی تھا کہ راجہ دشرتھ کا چرتر کیا تھا؟ ہندو لڑکے کم الفاظ میں اس کا جواب دے رہے تھے اور مسلمان بچیاں جیسا کہ آپ نے خود دیکھا کہ جب وہ نبی اکرمؐ کے بارے میں نہیں جانتیں تو دشرتھ اور دروپدی کے بارے میں کیسے جان پائیں گی، لیکن میری تشویش دوسری تھی کہ دروپدی اور دشرتھ تاریخ کے سوالات کیسے ہو گئے؟یہ تو مائتھو لوجی کے سوال ہیں لیکن پھر جب آج کے سیاسی ماحول کو نظر میں رکھیں تو کل ہی کی خبر پڑھ لیں کہ کرناٹک ایجوکیشن بورڈ نے باضابطہ آر ایس ایس کے بانی کیشو بلی رام ہیڈ گیوار کو نصاب میں شامل کر دیا ہے اور ٹیپو سلطان ، حتیٰ کہ بھگت سنگھ کو بھی نصاب سے ہٹا دیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیزیں اوپر سے نیچے آرہی ہیں یا نیچے سے اوپر جا رہی ہیں۔ کیا سیاست میں اتنا دم خم ہے کہ وہ سماج کو بدل ڈالے۔ اب تک یہی کہا جاتا رہا ہے کہ سماج سیاست کو بدلتا ہے ، لیکن اب ایسا کیوں نہیں ہو رہا اب تو سیاست کا سماج پر غلبہ ہے اور یہ غلبہ چھوٹے چھوٹے کاروباریوں سے لے کر بڑے بڑے انڈسٹریئلسٹ تک پہنچ گیا ہے اور جاہلوں سے دانشوروں تک کوچ کر گیا ہے۔ تاریخی عمارت سے تاریخ کی کتابوں میں گھس گیا ہے۔تو ایسا اچانک تو نہیں ہو گیا ہوگا۔ کہیں نہ کہیں اسے شروع کیا گیا ہوگا یا پھر تعصب اور نفرت کی مشعلیں کہیں نہ کہیں جلی رہ گئی ہوں گی۔ تبھی تعصب کا ایسا گرم بازار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہندوستان کی شان کہی جانے والی عمارتوں کو بھی توڑنے سے پرہیز نہیں کیا جا رہا ہے۔ تاج محل ہو یا قطب مینار، جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے لوگ جمع ہوتے ہیں، اس میں مورتیاں یا شیولنگ ظاہر ہورہے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ میڈیا اور عدالتیں ایسی بے تکی باتوں کو دیش کا سمان سمجھ کر قبول کر رہی ہیں۔ تاریخی عمارتوں اور عبادت گاہوں کے بارے میں1991ایکٹ صاف کہتا ہے کہ 15؍اگست 1947میں جو بھی عمارتیں یا عبادت گاہیں جس شکل میں موجود ہیں ویسی ہی رہیں گی، تب بھی کچھ نفرت پسندوں کی اپیلیں عدالتیں صدق دل سے قبول کر رہی ہیں اور اپنا فیصلہ محفوظ رکھ رہی ہیں۔
دشواری اسی تیور سے ہے۔ بھارت کی ترقی و تنزلی کا انحصار بھارت کے عوام کے مفاد میں ہے نہ کہ بھارت کے عوام میں اختلاف سے ہے، لیکن اب جس طرح کا ماحول بن چکا ہے اس سے یہ کہنے میں کسی طرح کا تامل نہیں ہونا چاہیے کہ بھارت اگلے200سال تک ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکتا۔ یہاں نہ ہی کوئی اکنامی پر بات کرتا نظر آتا ہے نہ ایجوکیشن اور ہیلتھ کی کسی کو فکر ہے۔ مہنگائی کو تو وہ اپنی سہیلی بنا چکا ہے اور بے روزگاری تو مانو دلہن بن گئی ہے۔ بس سب کے دل میں یہی تمنا ہے کہ وشنو ، شیو ، رام اور کرشن ان کے تمام مصائب ختم کر دیں گے اور مسلمان جب اپنی اوقات میں آجائیں گے تو بھارت کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سمجھ سے پرے ہے کہ اس طرح کی منفی سوچ کا ساتھ میڈیا ، انتظامیہ اور مقننہ سب ایک ساتھ دے رہے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن
ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے
زمانہ تغیر پذیر ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ،لیکن آج کا دور انتہائی صبر آزما ہے۔ ایک کمیونٹی روزانہ اپنی روایت کو ٹوٹتے دیکھ رہی ہے اور صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، لیکن یہیں پرسوچنے والی بات ہے کہ آخر اقلیتوں نے مسلمانوں کی 800سالہ حکومت کو کس طرح خاموشی اور اپنے عمل کے ساتھ برداشت کیا ہوگا۔ کیا ہم اپنے عمل کے ساتھ اس دور کو برداشت نہیں کرسکتے۔ عمل سے سیدھا مطلب ہے اپنی کمیونٹی کو مضبوط کرنا۔ پڑھائی ، فکر ، سلوک اور سیاسی بیداری سے زیادہ سماجی سروکار سے رشتہ آپ کو دوسری کمیونٹی کے برابرلا کر کھڑا کردینے کے لیے کافی ہے۔ سوچئے گاکہ کون سی ایسی خامی رہ گئی ہے کہ آپ اس طرح منتشر ہوگئے کہ ایک ایک کر کے اپنی وراثت اور ثقافت آپ کی نظروں کے سامنے سے آپ کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے اور آپ کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔شاید اس لیے کہ آپ نے اتنی احتیاط برتی کہ آپس میں ہی بٹ گئے اور جو بٹ گیا سمجھو مٹ گیا اور یہ بھی کہ جو ڈر گیا سمجھو مر گیا۔
کچھ احتیاط پرندے بھی رکھنا بھول گئے
کچھ انتقام آندھی نے بھی بدترین لیا
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]