ایس ایم خان
عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ 1991 ایک بار پھر اس وقت موضوع بحث بن گیاجب وارانسی کی سول کورٹ نے کورٹ کمشنر کی ایک ٹیم کا تقرر کیا جو اس گیان واپی مسجد کمپلیکس کا معائنہ کرے جو وارانسی میں کانشی وشوناتھ مندر سے متصل واقع ہے۔مذکورہ آرڈرسول کورٹ نے دہلی کی پانچ خواتین کی اس عرضی پر صادر کیا جس میں گیان واپی مسجد کی باہری دیوار پر واقع شرنگار گوری دیوی کی روزانہ پوجا کرنے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ شرنگار گوری کی پوجا کی اجازت مانگی گئی، جب کہ وہ گیان واپی مسجد کے باہر ہے اور سول کورٹ نے پورے گیان واپی مسجد کمپلیکس بشمول مسجد اور تہہ خانے کے معائنہ کا حکم صادر کیاجو کہ عرضی سے تعلق نہیں رکھتا۔مسجد کے انتظامات کو سنبھالنے والی انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی نے سول کورٹ کے حکم پر اعتراض کیا اور شروع میں عزت مآب الہٰ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیاتھا تاکہ وہ معاملے میں مداخلت کرے اور سول کورٹ کے حکم کو اسٹے کرے۔لیکن ہائی کورٹ نے مداخلت سے انکار کیا۔
دوسری طرف مدعی فریقوں کے وکلا کا کہناہے کہ گیان واپی مسجد کمپلیکس کے معائنہ کے لئے سول کورٹ کا حکم صادر کرنا عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ 1991کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ یہ ایکٹ 15اگست 1947سے پہلے موجود عبادت کے مقامات کے حیثیت کو جوں کا توں برقرار رکھنے کے لئے نافذ کیا گیا تھااور عرضی میں پوجا کی بات عبادت کے مقام کے ٹائٹل کوتبدیل نہیں کرتی۔بلکہ شرنگاگوری میں پوجا درشن کی اجازت دیتی ہے۔ مسجد کمیٹی نے پورے معاملے کو عزت مآب سپریم کورٹ کے سامنے یہ کہتے ہوئے اٹھایاہے کہ مذہبی مقامات سے متعلق ایکٹ 1991 مذہبی مقامات یا اداروں سے متعلق کسی بھی عدالتی کارروائی کوممنوع قرار دیتاہے اور یہ بات عزت مآب سپریم کورٹ نے بھی رام جنم بھومی ،بابری مسجد مقدمے میں دوہرائی تھی۔جب عزت مآب سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ مذہبی مقامات سے متعلق ایکٹ 1991 ملک کی سیکولر خصوصیات اور پہچان کے تحفظ کے لئے خاص طور سے بنایاگیا ہے، جو آئین کے بنیادی نکات ہیں۔
نرسمہارائو سرکار نے مذہبی مقامات سے متعلق ایکٹ 18 ستمبر1991کونافذ کیاتھاتاکہ 15اگست 1947کو موجود مذہبی مقامات کی حالت کو منجمدکیاجائے۔یہ ایکٹ بابری مسجد کے انہدام سے ایک سال قبل پاس کیاگیا تھا۔ باوجود اس کے ایکٹ کی دفعات رام جنم بھومی بابری مسجد تنازع پر لاگو نہیں کی گئی تھی۔ایکٹ کو اس وقت اس طور پر دیکھاگیاتھا کہ یہ مسلم کمیونٹی میں اعتماد کی بحالی کے ذریعہ تنازع پر بات چیت کو آگے بڑھائے گا۔ایکٹ اس بات کی مسلم کمیونٹی سے یقین دہانی تھی کہ اگر وہ متنازع مقام پر ہندوتنظیموں کے دعوے کو تسلیم کرتے ہیں توملک میں دیگر مساجد محفوظ رہیں گی اور پورے ملک کی مساجد کی حالت جوں کی توں رہے گی۔ایکٹ کے اندرمذکور عبادت کے مقامات صرف مسجد تک ہی محدود نہیں ہیں۔بلکہ اس میں تمام عقائد کی عبادت کے مقامات بشمول مندر، گردوارہ،چرچ، خانقاہ اور دیگر عوامی مذہبی عبادت کے مقامات شامل ہیں۔ایکٹ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ تمام ایسے مقدمات اور اپیلیں اور عبادت گاہ کے کریکٹر کو تبدیل کرنے والی دیگر کارروائیاں جو15اگست 1947سے پہلے کسی بھی عدالت یا اتھارٹی کے پاس زیرالتوا ہیں قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گی۔یہ قانون مخصوص ہے اور سبھی دیگر قوانین پر حاوی ہے۔
مسجد انتظامیہ کمیٹی نے اب عزت مآب سپریم کورٹ سے رجوع کیاہے اور عرضی میں کہاہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ 1991جوکسی بھی مذہبی مقام کی قانونی ہیئت سے متعلق قانونی کارروائی کو روکتا ہے،اس کیس میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ اب عدالت عظمیٰ کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس کارروائی پر روک لگانا چاہئے جس سے عبادت گاہ سے متعلق ایکٹ 1991کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور جس سے ملک میں امن وسکون خراب ہوتاہے اور ممکن ہے کہ اس سے بہت وسیع پیمانے پر تنازعات پیدا ہوں۔ اگر اس طرح کی کارروائی کی اجازت دی گئی تو اس سے بنیاد پرست تنظیموں کو جھوٹی امید پیدا ہوگی تاکہ وہ متعدد متنازع مذہبی مقامات پر دعویٰ کرسکیں اور اقلیتی کمیونٹی میں خوف ودہشت کاماحول پیدا کرسکیں ،نیز اس سے وسیع پیمانے پر ملک کے سیکولر تانے بانے پر اثرات مرتب ہوںگے۔r
(مضمون نگار:انڈیااسلامک کلچرل سینٹرکے نائب صدر اورجامعہ ہمدرد کے ڈائریکٹر ہیں)