مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ سعودی عرب کے بغیر ناممکن

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

سابق امریکی صدر براک اوباما نے 2012 میں جب اپنی صدارت کے دوسرے ٹرم کے لیے الیکشن کی تیاریاں شروع کی تھیں اور امریکی عوام کے سامنے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لیے ان سے ووٹ مانگ رہے تھے تو ٹیلی ویژن پر جاری انتخابی بحثوں میں اکثر جن موضوعات پر اوباما اور ان کے سیاسی حریف مٹ رومنی کے درمیان ڈیبیٹ ہوتی تھی، ان کا تعلق امریکہ کے مقامی مسائل سے زیادہ ہوتا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب ورلڈ سپر پاور امریکہ کے صدر کے انتخاب میں عالمی مسائل کے بجائے مقامی امور کی گونج تھی۔ امریکی سیاست کے تجزیہ نگاروں نے تبھی ان انتخابی بحثوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اب امریکہ دنیا کے افق سے سمٹ کر فرانس اور برطانیہ جیسے سابق سامراجوں کی مانند محض ایک طاقتور ملک بن کر رہنا چاہتا ہے اور دنیا کے جھگڑوں سے اپنا دامن دھیرے دھیرے سمیٹ رہا ہے۔ اوباما نے ایک ڈیبیٹ میں مشرق وسطیٰ سے انخلاء کے بارے میں صاف لفظوں میں کہا بھی تھا کہ اب اسے وہاں رہنے کی حاجت نہیں ہے۔ لیکن کیا خود امریکہ کے لیے عالمی مسائل سے چشم پوشی مفید ثابت ہوئی ہے؟ اگر ہم مشرقی وسطیٰ سے امریکی انخلاء کو دھیان میں رکھیں تو یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ اپنے روایتی حلیفوں سے تعلقات کو ختم کرنا اور ان کے مشکل اوقات میں انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دینا امریکہ کے لیے بہت نقصاندہ ثابت ہوا ہے۔ امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان تعلقات کی تاریخ تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط ہے۔ تعلقات کی اس گہری اور طویل تاریخ میں پٹرول کا رول سب سے اہم ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہونے کی حیثیت سے سعودی عرب کی اہمیت فطری طور پر سب سے زیادہ رہی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور اس کے تیل کے خزانوں سے فائدہ اٹھانے کا آ غاز امریکی صدر فرنکلین روزولٹ نے 1945 میں کیا تھا۔ اس کے بعد جتنے بھی امریکی صدر منصہ قیادت پر جلوہ گر ہوئے سبھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے روابط کو بہتر سے بہتر بنائیں۔ رشتوں کی اس گہرائی کے پیچھے جو منطق تھی وہ بالکل واضح تھی۔ امریکہ کو عالمی اقتصاد بالخصوص یوروپ اور امریکہ کے کارخانوں کو چلانے کے لیے تیل کی سخت ضرورت تھی جس کی تکمیل عرب دنیا خاص طور سے سعودی عرب کے پٹرول کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی تھی جبکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے حالات میں خلیجی ممالک کو ایسے طاقتور حلیف کی ضرورت تھی جو انہیں سرد گرم موسم کی مار سے بچا سکے۔ امریکہ نے یہ ذمہ داری قبول کرلی اور اس کے بدلے انہیں تیل کی سپلائی بے روک ٹوک ہونے لگی۔ امریکہ و سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا یہ سلسلہ بدستور جاری رہا اور پہلی بار اس میں رکاوٹ تب آئی جب سعودی عرب میں مضبوط قوت ارادی کے حامل قائد شاہ فیصل نے 1973 میں امریکہ سمیت مغربی دنیا کو تیل سپلائی کرنا بند کر دیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب سعودی عرب نے عربوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت اور مغربی ممالک کے ذریعے اسرائیل کی حمایت کی بنا پر تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس اقدام کے کیا اثرات امریکی و سعودی تعلقات پر مرتب ہوئے اور کس طرح دوبارہ روابط استوار کیے گئے، اس کی الگ تاریخ ہے جو یہاں زیر بحث نہیں ہے، اس لیے اس پر مزید روشنی کسی دوسرے مضمون میں انشاء اللہ ڈالی جائے گی۔ البتہ اس قدر اشارہ ضروری ہے کہ یہ تعلقات نہ صرف یہ کہ استوار ہوئے بلکہ 1990 کی دہائی میں مشرق وسطیٰ اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت نہایت بہتر ہوگئی بلکہ مشرق وسطیٰ کے تمام مورخین کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ اس دہائی میں عرب-امریکی تعلقات اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئے تھے۔ یہ موقع تب ہاتھ آیا تھا جب عراق کے سابق مرحوم صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر کے اس پر ناجائز قبضہ جما لیا تھا اور اس کا اندیشہ تھا کہ قدرتی ذرائع بالخصوص تیل کی دولت سے لبریز اس چھوٹے لیکن امیر ملک کو عراق میں ضم کر لیا جائے گا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر جارج بش سینئر نے اپنے عرب حلیف ممالک کا ایک بڑا عسکری جتھہ تیار کیا جس میں لگ بھگ سبھی عرب ملکوں نے حصہ لیا تاکہ صدام حسین کی فوج کو وہاں سے نکالا جائے۔ عرب ممالک میں اس عسکری اتحاد کا حصہ بننے کا ایسا شوق و جنون تھا کہ جس ملک نے اس ملٹری آپریشن کے لیے اپنی فوجیں نہیں بھیجی تھیں اس نے کم سے کم اتنا ضرور کیا کہ اس اتحاد میں شامل کسی نہ کسی ملک کی فوج کی ضیافت اپنی زمین پر کرنا باعث فخر تصور کیا تھا۔ کویت سے عراق کو باہر نکالنے کے لیے جو امریکی فوج اتری تھی اس کو تو کامیابی ملی ہی، ساتھ ہی امریکہ نے عرب دنیا کو تہذیبی یلغار کا نشانہ بھی سب سے زیادہ اسی عہد میں بنایا۔ یہ جنگ امریکہ دو محاذ پر لڑ رہا تھا۔ ایک طرف بم اور بارود سے حملے کرکے اپنی ملٹری قوت کی فوقیت کو ثابت کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف سی این این کے ذریعے عرب نوجوانوں کو مغربی تہذیب کا گرویدہ بنا رہا تھا۔ بعض رپورٹوں کے مطابق تقریباً 250 ملین یعنی 25 کروڑ امریکی ڈالر صرف امریکی سوفٹ کلچر کو عربوں میں پروان چڑھانے کے لیے خرچ کیا گیا تھا جس کے مضر اثرات سے آج بھی عرب نوجوان جوجھ رہے ہیں۔ امریکہ نے 1973 میں تیل کی سپلائی پر عرب پابندی کا بدلہ ان کی نوجوان نسل کو فکری اور تہذیبی اعتبار سے دیوالیہ بنا کر لیا تھا۔ اس کے باوجود چونکہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ کے تیل کی ضرورت تھی اور خلیجی ممالک کو تحفظ کی حاجت تھی، اس لیے یہ تعلقات قائم رہے جس پر شدید ضرب تب لگی جب امریکہ میں نائن الیون کا حملہ ہوا اور بیشتر سعودی نوجوانوں پر اس میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس کے بعد یہ روابط مستقل طور پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد منفی ڈھنگ سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ البتہ براک اوباما کے زمانے میں مشرق وسطیٰ سے انخلاء کا نقشہ تیار ہوگیا تھا جس کو خود اوباما نے 2015 میں نافذ کر دیا۔ اس پلان کے مطابق امریکہ نے ایران کے ساتھ 2015 میں نیوکلیئر معاہدہ کر لیا جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے تمام روایتی حلیف بالخصوص سعودی عرب نے اس اقدام کو اپنی سیکورٹی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ سعودی عرب نے جس خطرے کے بارے میں اشارہ دیا تھا اس کا حقیقی ظہور یمن میں حوثی کی شکل میں ہوا۔ ایران کے حمایت یافتہ اور ان کی ملٹری کے ہاتھوں ٹریننگ پانے والے حوثیوں نے سعودی عرب کے لیے ان کے پڑوس میں ہی مسلح کوششوں کے ذریعے ایرانی پلان کو نافذ کرنا شروع کر دیا اور یمن کی دارالحکومت صنعاء پر قابض ہوگئے۔ جب ان کے خلاف عسکری کارروائیوں کا وقت آیا تو امریکہ نے صاف لفظوں میں سعودی عرب کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر سعودی عرب کو یہ احساس ہوا کہ اپنی سیکورٹی کے لیے امریکہ پر بھروسہ کرنا کتنی بڑی غلطی تھی۔ اس احساس کو تقویت 2019 میں ایک بار پھر تب ملی جب سعودی عرب کی اقتصادی شہہ رگ آرامکو پر حملہ کیا گیا اور تب بھی امریکہ نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ مشرق وسطیٰ سے امریکی انخلاء اور خطے میں بڑھتے ایرانی اثر و رسوخ کی دوسری مثال شام میں نظر آئی جہاں امریکہ کی عدم کارروائی کی وجہ سے روس کو اپنا قدم جمانے کا موقع ملا۔ امریکہ نے گویا تیل کے بدلے تحفظ فراہم کرنے کی اپنی قدیم تاریخ کو شرمندہ کر دیا تھا۔ امریکہ اب جانتا تھا کہ اسے مشرق وسطیٰ کے تیل کی اتنی حاجت نہیں ہے، اس لیے عرب ممالک کو تحفظ فراہم کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ ادھر سعودی عرب نے بھی اپنے تعلقات کو از سر ترتیب دینا شروع کر دیا۔ اب سعودی عرب کے تیل کا سب سے بڑا خریدار امریکہ کے بجائے چین ہے اور اسی وجہ سے اس خطے میں چین اور روس کا اثر و رسوخ بھی روز افزوں ہے۔ مشرق وسطیٰ سے امریکہ کی واپسی کی پالیسی پلان کے مطابق ہی چل رہی تھی کہ روس-یوکرین جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس واقعے نے پوری بساط ہی الٹ دی۔ اب خلیجی ممالک کی باری تھی کہ وہ امریکی پالیسی کی غلطیوں کی سزا انہیں دیں، لہٰذا گلف ریاستوں نے یوکرین پر روسی حملے کی کوئی مذمت نہیں کی بلکہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا اور جس تیل سے سردمہری امریکہ برت رہا تھا اسی کی ضرورت جب اسے پھر آگئی اور امریکی صدر نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے محمد بن زاید آل نہیان سے تیل کی پیداوار میں اضافے کی خاطر گفتگو کرنے کی کوشش کی تو شہزادوں نے فون تک ریسیو کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے صدارتی انتخابات کے دوران یہ کہا تھا کہ وہ سعودی عرب کو دنیا میں اچھوت بنا دے گا۔ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ یہ محض انتخاب جیتنے کے لیے ایک جملہ ہوگا لیکن حیرت انگیز طور پر بائیڈن نے اس کو عملی جامہ بھی پہنا دیا۔ جس بائیڈن نے ٹرمپ کے زمانے میں امریکہ و یوروپ کے بگڑے تعلقات کو سنوارنے کا کام فوری طور پر کیا اس نے امریکی صدور کی تاریخ میں پہلی بار یہ غلطی کر لی کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے کوئی بات چیت ہی نہیں کی۔ بائیڈن کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ سکے کا رخ پلٹ بھی سکتا ہے۔ اب جب بائیڈن کو اپنی پالیسی کی غلطی کا احساس ہوا ہے اور اس کو درست کرنے کے لیے اپنے سفارتی نمائندے خفیہ اور علانیہ طور پر بھیج کر سعودی عرب کو منانے کی کوشش میں لگے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب راستہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اگر امریکہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ اپنے روابط کو بہتر بنانے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے پر دستخط سے قبل سعودی عرب اور دیگر حلیفوں کے اعتراضات کو دھیان میں رکھ کر ماضی کی غلطیوں کو درست کرنا ہوگا، یمن مسئلے کے حل کے لیے ایران پر دباؤ بنانا ہوگا اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ برے وقت میں افغانستان کی طرح اپنے حلیف کو منجدھار میں چھوڑ کر نہیں بھاگے گا۔ سعودی عرب کو دنیا میں اچھوت بنانے کا نقصان امریکہ کو سب سے زیادہ پہنچے گا، کیونکہ تیل کے علاوہ اسلامی دنیا کا اہم ترین مرکز ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی عرب یا اسلامی ملک کو نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن کو تعلقات کی بحالی میں کتنی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS