خواجہ عبدالمنتقم
عائلی قوانین اور عائلی رسم ورواج سے ناواقف کوتاہ نظر معترضین کبھی کبھی اسلام کی نسبت سے یہ اعتراض بھی کیا کرتے ہیں کہ اسلام ایک مرد کو چار عورتوں تک سے بیک وقت نکاح کا حکم دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ اسلام میں بیک وقت ایک مرد کو دو، تین یا چار عورتوں کو نکاح میں لانے کی اجازت ہے مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی لگادی گئی ہے کہ اگر مرد اپنی بیویوں میں عدل وانصاف، باری، نان ونفقہ اور عام برتاؤ میں برابری نہ رکھ سکے تو فَوَاحَدَۃایک بیوی ہی پر بس کرے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں نکالا جاسکتا کہ اسلام چار عورتوں سے بیک وقت نکاح کا حکم دیتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ چار عورتوںسے نکاح کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اجازت دی گئی ہے اور وہ بھی کچھ مخصوص حالات میں اور شرائط کے ساتھ۔کثیر زوجگی Rule نہیں بلکہ Exceptionہے۔ سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ تمام بیویوں کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جائے اور کسی بھی معاملے میں ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیاز نہ برتا جائے۔ سب کے ساتھ یکساں محبت و رغبت انتہائی مشکل کام ہے۔ سب کے ساتھ یکسانیت اور ہم آہنگی کا خیال رکھنا، باہم شیر وشکر وخوش وخرم رکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ انسانی فطرت میں کجی بھی شامل ہے۔ اسی لیے اسلامی قانون کے ماہر سید امیر علی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر ہم قرآن کریم کی آیات کو صحیح طرح سے سمجھیں تو ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کریںگے کہ اسلام نے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت تو دی ہے مگر اس کے ساتھ اتنی شرطیں لگادی ہیں کہ اگر اسے ممانعت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام میں ایک سے زائد بیوی رکھنے کے حکم کی تو بات کیا بلکہ اس کی ممانعت کی گئی ہے اور ایسا کرنے کی صرف مخصوص حالات میں اجازت دی گئی ہے اور ان حالات میں بھی اس بات کو یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے کہ چاروں بیویوں کے ساتھ حتی الامکان یکساں سلوک کیا جائے۔ دوسری بات جو زمینی حقیقت بھی ہے وہ یہ ہے کہ پہلی عورت کی موجودگی میں شادی کا خیال بھی اس وقت تک نہیں آتا جب تک کہ کوئی غیر معمولی صورت حال نہ ہو جیسے اولاد کانہ ہونا یا کوئی اور دیگر معقول وجہ۔ البتہ کچھ ایسے لوگ ضرور ہیں جو بلا سوچے سمجھے اوربغیر کسی معقول وجہ کے جذباتی رو میں بہہ کر ایسا کر بیٹھتے ہیں۔
جہاں تک چار بیویاں رکھنے کی اجازت کی بات ہے تو اس کا ذکر قرآن کریم کی سُوْرَۃُ النِّسَاء کی آیت تین میں کیا گیا ہے اور اس میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو جو عورتیں پسند آئیں اپنی پسند کی چار عورتوں تک سے نکاح کیا جاسکتا ہے (مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبع)۔ لیکن اسی آیت میں ساتھ میں یہ عبارت بھی شامل ہے جسے ہم قانون کی زبان میں اگر فقرۂ شرطیہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ ایسا کرنے کی صرف اس حالت میں اجازت ہے کہ ایسا کرنے والا شخص چاروں بیویوں کے ساتھ برابر کا برتاؤ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے تو بیویوں کی تعداد کی حدبندی کا کام کیا ہے چونکہ اسلام سے قبل عربوں میں بیویوں کی کوئی تعداد ہی مقرر نہیں تھی اور یتیم بچوں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا تھا۔ چونکہ خود اس آیت میں یتیموں کا ذکر ہے تو اس سے بھی یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے اور ہمارے بہت سے ماہرین قانون اور عدالتوں نے بھی اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ اس دور کے حالات کے مطابق جس میں بہت سی جنگوں کے باعث بچے یتیم ہوجاتے تھے، ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بات بھی بار بار کہی ہے اور جس کا ذکر اوپر بھی کیا گیا ہے کہ محبت اور جذبات کے معاملے میں مکمل طور پر برابر کا سلوک تقریباً ناممکن ہے۔ دریں صورت اگر یہ کہا جائے کہ اسلام نے ایک سے زائد بیوی رکھنے کے حکم کی تو بات کیا بلکہ اس کی ممانعت کی ہے اور ایسا کرنے کی صرف مخصوص حالات میں اجازت دی ہے۔ اس اجازت کا فائدہ اٹھانے والے شخص کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ جہاں تک ممکن ہو برابرکا برتاؤ کرے۔ ویسے بھی معاہدۂ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے اور اس کی رو سے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا لازمی ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ ہمارے ملک کی عدالتوں کا زمانۂ دراز سے یہ نقطۂ نظر رہا ہے کہ نکاح ایک دیوانی معاہدہ ہے حالانکہ اگر اس کا صحیح طور پر جائزہ لیا جائے تو اس کو شرعی معاہدہ کہنا ہی زیادہ مناسب ہوگا۔ فی الحقیقت اسلام میں نکاح کے ساتھ تقدیس کا جو تصور وابستہ ہے وہ دیوانی معاہدے میں ناپید ہے۔ اس طرح قانونی اور مذہبی دونوں ہی اعتبار سے ہر ایسا مسلمان جو ایک سے زیادہ بیویاں رکھتا ہے، اس کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ان کے ساتھ مساوی سلوک کرے اور کسی بھی بیوی کویہ شکایت نہ ہونے پائے کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
کچھ یرقانی نظررکھنے والے لوگوں کا یہ کہنا ہے یا انہیں یہ غلط فہمی ہے کہ جیسے Polygamy (ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا) اسلام ہی کی دین ہے۔ صرف Polygamy ہی نہیں بلکہ Polyandry عورت کا چند شوہر رکھنا)، Monogamy (صرف ایک عورت یا مرد سے شادی کرنا) اور Bigamy (دو بیویاں)کا سلسلہ دنیا کے مختلف حصوں میں عرصۂ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ رسول اکرمؐ سے قبل اور بہت سے پیغمبروں اور مختلف مذاہب کی ایسی ہستیوں نے جنہیں سربہ فلک حیثیت حاصل تھی، ایک سے زیادہ عورتوں سے شادیاں کی تھیں۔ یہودی اور قدیم زمانے کا عیسائی چرچ بھی اس کی ممانعت نہیں کرتا تھا، البتہ بعد میں رومن قانون کی روسے ’ایک مرد کی ایک بیوی‘ کا اصول ہی اپنایا گیا۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ ہندو میرج ایکٹ،1955کے نفاذ سے قبل خود ہمارے ملک میں اہل ہنود کو بھی ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر کوئی مذہبی یا قانونی پابندی نہیں تھی بلکہ ہمارے ملک میں تو ابھی تک کچھ قبائلی علاقوں کے رسم ورواج کے مطابق ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کے اصول کو بھی قانونی درجہ حاصل ہے۔
اگرچہ عاقدین نکاح کے حقوق و فرائض کتاب اللہ اور سنت نبویؐ میں پہلے ہی سے متعین ہیں اور ان میں کمی وبیشی یا ترمیم وتنسیخ کا اختیار عاقدین کو نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے مسلم ممالک نے مصلحت عامہ کے پیش نظر اس ضمن میں مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں۔ مسلم دنیا کے ممالک جیسے ترکی اور تیونس میں تو اسے غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شام، عراق، پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ نے بھی اس معاملے میں مختلف قسم کی پابندیاں عائد کردی ہیں مثلاً پاکستان یا بنگلہ دیش میں کوئی بھی شخص تب تک دوسری عورت سے نکاح نہیں کرسکتا جب تک کہ پہلی بیوی اس بات کی اجازت نہ دے اور یہ کہ عدالت کو بھی اس بات کا اطمینان ہوجائے کہ واقعی ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے جس میں دوسری شادی کرنا ناگزیر ہے۔رہی بات اس طرح کے معاملے میںہماری عدلیہ کے فیصلے کی تو عدالت کا فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو یعنی ہم سب کو پسند ہو یا نہ ہو عدلیہ کا احترام ضروری ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]