تاریخ کے بدترین معاشی بحران اور دیوالیہ پن کے شکار سری لنکا میں اب سیاسی بحران نے بھی سنگین شکل اختیار کرلی ہے۔حالات اتنے سنگین ہوگئے ہیں کہ سابق وزیراعظم مہندا راج پکشے اور ان کے اہل خانہ کو گھر چھوڑ کر ٹرنکومالی کے ایک بحری اڈے میں پناہ لینی پڑی ہے۔ حالات کی خرابی کے باعث مہندا راج پکشے نے پیر کے روز اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن اس کے باوجود لوگوں کا غصہ تھمنے میں نہیں آیا اور ہزاروں لوگ دیر رات ان کے گھر میں داخل ہوگئے۔ پولیس اور فوج نے مداخلت کرکے سابق وزیراعظم کو باہر نکالا اورانہیں خاندان سمیت ہیلی کاپٹر سے بحری اڈہ پہنچایا۔ مشتعل مظاہرین نے ان کے بھائی اور صدر گوٹ بایا راج پکشے کے آبائی گھر کے ساتھ ساتھ کئی سابق وزرا اور ایم پی کے گھروں کو بھی نذر آتش کر دیا ہے۔ حکومت حامیوں اور مشتعل مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم میں اب تک5افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور 200 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اسی بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ حکومت حامیوں اور مظاہرین کے درمیان ہوئے تصادم میں مہنداراج پکشے کی حکمراں پارٹی کے ایک ایم پی اور ان کے نجی سیکورٹی افسر کی بھی موت ہوگئی ہے۔ ایم پی امرکرتی اتھکورالاحکمراں پارٹی کے رکن پارلیمنٹ تھے اور مظاہرین کے اشتعال سے بچنے کیلئے ایک عمارت میں چھپے ہوئے تھے اوراس کے بعد انہوں نے اپنے ہی ریوالور سے خود کو گولی مار کرہلاک کرلیا۔عبوری حکومت نے پولیس اور فوج کو مظاہرین سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی ہدایت دی ہے لیکن اب ان کیلئے بھی صورتحال کو سنبھالنا مشکل ہوگیا ہے۔پورے ملک میں کرفیو لگادیا گیا ہے لیکن حکومت مخالف مظاہرین کا اشتعال قابو میں نہیں آرہا ہے۔ ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب سری لنکا کا سیاسی مستقبل کیاہوگا؟ ملک صرف سنگین معاشی بحران سے نہیں گزر رہا ہے بلکہ چاروں طرف سمندر سے گھرے اس جزیرہ میں بڑے پیمانے پر فسادات اور تصادم بھی ہورہے ہیں۔روزانہ کے یہ واقعات اور سیاسی اتھل پتھل کو دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ جلد ہی اس ملک کی گاڑی پٹری پرآجائے گی۔
معاشی بحران سے گزررہے سری لنکا میں اقتدار کی تبدیلی کا مطالبہ پہلے سے ہی اٹھ رہا تھا۔ڈیڑھ ماہ قبل31مارچ کو کسی سیاسی پارٹی کے جھنڈے کے بغیرسری لنکا کے عوام اپنے شدید غم و غصہ کا اظہار کرنے کیلئے خود ہی سڑکوں پر نکل پڑے لیکن راج پکشے کی حکومت نے عوام کے اس احتجاج کا جواب جبراور ظلم سے دیا۔ ایمرجنسی کا اعلان کرکے مظاہرین کو کچلنا شروع کردیامگر یہ عوامی تحریک پیچھے ہٹنے کے بجائے ملک گیر سطح پر پھیل گئی اور حکومت مفلوج ہوکر رہ گئی۔ احتجاجوں کا سلسلہ وسیع تر ہوتا گیا اور اپریل کے دوسرے ہفتہ میں تحریک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی۔ قاہرہ کے تحریر چوک کی طرح کولمبو کا گوٹاگوما علاقہ عوامی احتجاج اور مظاہرین کا مرکز بن گیا جہاں انہوں نے خیمے لگا کر اپنی رہائش کا بھی انتظام کرلیا۔روزبروز بڑھتے احتجاج سے حکمراں طبقہ میں بھی دراڑیں شروع ہوگئیں اور پوری حکومتی کابینہ مستعفی ہوگئی۔لیکن اپنے اقتدار کو طول دینے کے خواہش مند صدر گوٹ بایا راج پکشے نے نئی کابینہ بنائی وہ بھی حالات کو سنبھالنے میں ناکام ثابت ہوئی۔اس کے بعد42ارکان پارلیمنٹ نے راج پکشے کے اتحاد کو خیر بادکہہ دیا۔
سری لنکا میں ان حالات کیلئے صدر گوٹ بایا راج پکشے اور ان کے بھائی سابق وزیراعظم مہندا راج پکشے کی چین نواز پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ چین حامی مہندا راج پکشے نے سری لنکا کو عملاًچین کی نوآبادیات بناکر رکھ دیا ہے۔ انہوںنے چین سے زیادہ سود پر قرض لیا اور سری لنکا کو معاشی دلدل میں دھکیل دیا۔ چین کی دوستی نے نہ صرف لنکا میںآگ لگائی بلکہ دونوں بھائیوں کی لنکا بھی ڈھادی۔ 2005 سے 2015تک جب مہندا راج پکشے سری لنکا کے صدر تھے تو ا نہوں نے چین کو سری لنکا میں پیر پھیلانے کا کھلا موقع فراہم کیا۔ ہندوستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو نظرا نداز کرتے ہوئے چین کو بڑے پیمانے پر فوجی اڈے بنانے کی کھلی چھوٹ دے دی ا ور بھاری شرح سود پر دونوں چین سے قرض لیتے گئے۔اس قرض کا جال اتنا مضبوط ثابت ہوا کہ انہیں اس سے نکلنے کیلئے ملک کی دوسری سب سے بڑی بندرگاہ ہامبانتوتا بندرگاہ کو 99برسوں کی لیز پر چین کو دینا پڑ گیا۔2019میں گوٹ بایا راج پکشے سری لنکا کے صدر بنے اور مہندا راج پکشے وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے، اس کے بعدسے یہ دونوں بھائی کھل کر چین کے اشاروں پرکام کرنے لگے۔ راج پکشے حکومت نے کولمبو بندرگاہ پر بننے والے ایسٹ کنٹینر ٹرمینل پروجیکٹ سے ہندوستان کو بھی باہر کردیا۔
غلط فیصلوں اور چین نواز پالیسیوں کے ساتھ ہی کورونا وبا کی وجہ سے بھی سری لنکا کے معاشی حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ کورونا وبا نے سیاحت کو لگ بھگ ٹھپ ہی کردیا۔ سخت لاک ڈائون کی وجہ سے حالات مزید بدتر ہوگئے۔ اب عالم یہ ہے کہ زرمبادلہ ختم ہوچکا ہے، بجلی، پٹرول عنقا ہوچکا ہے، دوائوں اور کھانے پینے کی چیزوں کا شدید بحران ہے۔ان حالات میں ہندوستان سری لنکا کی مدد کررہاہے لیکن سری لنکا بحران کی جس دلدل میں دھنس چکا ہے، اس سے باہر نکلنے کیلئے صرف ہندوستان کی مدد کافی نہیں ہے دوسرے ملکوں کو بھی سری لنکا کی مدد کیلئے آگے آنا ہو گا۔ملک میں پھیلی ہوئی انارکی کا ماحول ختم کرنے کیلئے سیاسی صورتحال کی غیر یقینی کا بھی خاتمہ ضروری ہے۔
[email protected]
سری لنکا میں معاشی بحران اورا نارکی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS